• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست ، منشور یا کچھ اور؟ خصوصی مراسلہ…محمد خالدوسیم

پاکستان الحمد اللہ جمہوریت کی پٹری پر چڑھ چکا ہے اور ریاست کے تمام ستون انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ جمہوری پودے کی آبیاری کرتے ہوئے اسکو تناور درخت کی صورت میں دیکھنے کے متمنی ہیں اور حسب توفیق اس کی حفاظت کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں جو جمہوریت کو اساس فراہم کرتی ہیں اپنے تئیں آنے والے انتخابات کیلئے تیاری کر رہی ہیں تا کہ انتخابی معرکے میں زیاد ہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں ۔ جمہوری معاشروں میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں اپنے منشور کا اعلان کرتی ہیں اور اس کو عوام کے سامنے پیش کر کے ان کو اپنے حق میں قائل کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ منشور میں عوامی فلاح کے منصوبوں ، ملکی ترقی اور اہداف حاصل کرنے کا طریق کار روشناس کرایا جاتا ہے ۔وطن عزیز میں ایوان بالا کے ہونے والے انتخابات میں کسی ایک سیاسی جماعت یا اس کے امیدواروں نے کوئی منشور عوام کے سامنے پیش نہیں کیا ۔ ایوان بالا کا اپنا تقدس ہے ۔ بائی کیمرل نظام ایوان بالا کی اہمیت سے کسی طو رانکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ ایوان قائم رہتا ہے ۔قائد ایوان ایوان زیریں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے مگر ایوان بالا ہر صورت میں قائم رہتا ہے ۔ 1973کے آئین میں وفاقی اکائیوں کو اسی طرح یکجا کر کے ایوان بالا کے ذریعے چھوٹے صوبوں کو برابری کی نمائندگی دی گئی ہے ۔ اس ایوان بالا کے نصف ارکان کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے جو قابل شرم طرزعمل اختیار کیا وہ میڈیا کے ذریعے عوام نے خوب دیکھا ۔ محب وطن جمہوری قوتوں نے ووٹ کے استعمال کو پامال ہوتے دیکھا ۔ پیسے کی طاقت پر جمہوری روایات کو پامال کیا گیا مغربی جمہوریتوں او ر ان کی روایات کا میڈیا پر برملا اظہار کرنے والے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اس قابل حیرت اور شرم صورتحال سے اپنی پارٹی اور اپنے ارکان اسمبلی کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ سیاسی حلقوں میں تاثر تھا کہ عمران خان کو اپنی پارٹی اور ارکان اسمبلی پر مکمل کنٹرول ہے مگر افسوس پنجاب سے ایک نشست حاصل کرنے کیلئے ان کی پارٹی کے برطانوی تربیت یافتہ امیدوار نے بھی پاکستانی سیاست کی روایت کو اپناتے ہوئے اپنی جیت کیلئے ووٹوں کی شاپنگ کی ۔ سینیٹ کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ہر جماعت نے اپنے امیدواروں میں متمول ارکان کو شامل کیا تاکہ ووٹوں کی شاپنگ کیلئے معقول ذرائع دستیاب ہو سکیں ۔ سیاسی وفادار غریب کارکنوں کو اس طرح نظر انداز کیا گیا جس طرح دولت مند افراد اپنے بچوں کی شادی پر غریب رشتہ داروں کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ کیا کارکن بس لیڈر کیلئے نعرے لگانے ، لاٹھیاں کھانے اور جیلیں بھگتنے کیلئے ہوتے ہیں؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کیلئے ووٹوں کی خرید و فروخت اور وفاداریاں تبدیل کرنے کا کوئی ادارہ نوٹس لیتا ہے یا نہیں ۔ یا پھر اسے جمہوریت کا حسن قرار دے کر کوڑے دان میں ڈال دیا جائے گا۔ بات شروع ہوئی تھی منشور سے اور پیسے کی طرف نکل گئی ۔ اگر ہماری سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کو فروغ دینا اور اس کو مضبوط بنانا مقصود ہے تو انہیں عوام کے سامنے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے بجائے منشور پیش کرنا ہو گا، ایشوز پر بات کرنا ہو گی۔ معیشت کو مضبوط بنانے ، صحت کی سہو لتیں فراہم کرنے، تعلیم کی شرح بلندی کی طرف لے جانے ، خارجہ پالیسی کے اہداف مقرر کرنے، جرائم کی شرح میں کمی لانے، کھیل کے میدانوں میں اضافہ کرنے اوربیرونی قرضوں میں کمی لانے کیلئے لائحہ عمل طے کرنے کیلئے منشور عوام کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ الزام تراشی کی سیاست فرد واحد کا پیٹ بھرنے کا انتظام نہیں کر رہی ۔ لوگ اس سے متنفرہو گئے ہیں لہٰذا سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ جلد سے جلد اپنا اپنا منشو ر تحریری شکل میں عوا م کے سامنے پیش کریں تا کہ اس کی بنیاد پر آئندہ الیکشن میں ان کو ووٹ مل سکیں ۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے جمہوری رویئے اپنانے ہوں گے تب ہی جمہوریت مضبوط ہو گی الزامات سے نہیں ہو گی۔
تازہ ترین