• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتوں کے احکامات میں حکومت رکاوٹ نہیں ڈال سکتی،رانا ثناء

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکےپروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ عدالت متعلقہ پولیس افسر کو گرفتار ی کے احکامات جاری کرتی ہے اور یہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ تعمیل کر ے اور عدالت کو رپورٹ کرے، انسداد دہشگردی قانونی عدالت ہے اور کے احکامات پرعمل در آمد ضروری ہے، حکومت کو چاہئے کہ ان احکامات کو یقینی بنائے، عدالتوں کے احکامات میں حکومت رکاوٹ نہیں ڈال سکتی، ان کا کہنا تھا کہ دھرنا مظاہرین سے وفاقی اور صوبائی حکومت نے معاہدہ کیا تھا جس کے تحت شق نمبر تین یہ تھی کہ تمام مقدمات ختم کئے جائیں گے اور حکومت مقدمات کو واپس لینے کی ذمہ دارہے،عدالتی حکم اور حکومتی معاہدے کا تقابل نہیں کرایا جاسکتا، ان کا کہنا تھا کہ معاہد ہ ہوا تو اس کی پاسداری بھی کرنی ہوگی اور دستخط کرنے والے وزراء کی صوابدید اور ذمہ داری بھی ہے، پولیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ انتظامہ اتھارٹی یا پولیس ، سول افسر کو عدالتی حکومت کی تعمیل کرنی ہوگی، رانا ثناء کا کہنا تھا کہ عدالت نے کہا ہے کہ ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہورہے لہٰذا انہیں گرفتار کر کے پیش کیا جائے، یہ ضروری نہیں کہ گرفتار ہی کیا جائے یہاں مثال موجود ہے کہ ایک شخص دو سال تک اشتہاری رہا اور ایک صبح وہ پیش ہوئے تو انہیں ضمانت بھی مل گئی، اسی طرح خادم حسین اور دوسرے رہنما بھی ضمانت قبل از گرفتاری کراسکتے ہیں اورمعاہدے کا بتاسکتے ہیں پھر اس کا جواب معاہدہ کرنے والوں کے دینا ہوگا۔ سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے کہا عمران خان اور آصف زرداری ایک دوسرے سے بڑے فاصلے پر رہے، عمران خان آصف زرداری اور نواز شریف کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے رہے لیکن سینیٹ کے انتخابات سے معلوم ہوا کہ نواز شریف کیخلاف یہ ایک دوسرے کوفائدہ پہنچا سکتے ہیں، یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے طاہر القادری اور عمرا ن دھرنے کیلئے علیحدہ چلے تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا تھا کہ ان کی لندن میں ملاقات بھی ہوئی تھی اور کچھ طے ہوا تھا، اس وقت ٹارگٹ نوا ز شریف ہیں اور اس کیلئے یہ کہیں بھی استعما ل ہوسکتے ہیں، نواز شریف کا راستہ روکنے کیلئے یہ کچھ کر گزریں گے، ان کا کہناتھا کہ ان دونوں کا الیکشن سے پہلے اتحاد ہوتا نظر نہیں آرہا لیکن انتخابات کے بعد اتحاد ہوسکتا ہے، اس وقت کوشش یہ ہے کہ ایک پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکے، اس وقت تبدیلی لانے والے کام کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مشکل صورتحال ہے لیکن پس پردہ جو کھیل کھیلا جارہاہے اس میں پیش رفت ہوچکی ہے اور ٹارگٹ نواز شریف ہے ، پتے اسی طرح ڈالے جائیں گے اور بازی مختلف بر آمد ہوگی ، یہ کوشش بعض عناصر کی ہے لیکن تقدیر کا فیصلہ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ اس وقت تینوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو سائیڈ کرنا چاہتی ہیں، نواز شریف اور مریم نواز نے اتوار کو اپنی تقاریر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آصف زراداری اورعمران خان ایک ہی چیز ہیں،عمران خان نے اپنی تقاریر میں زرداری اور نواز شریف پر تنقید کی جبکہ بلاول بھٹونے اپنی تقاریر میں نواز شریف اور عمران خان کو نشانہ بنایا،2013میں الیکشن مہم میں عمران کہہ رہے تھے کہ زرداری اور نواز کا مک مکا ہے لیکن اب نواز شریف اور مریم نوا ز یہ باتیں کر رہے ہیں کہ زرداری کو ووٹ دینے کا مطلب عمران خان کو ووٹ دینا ہے اور عمران کو ووٹ دینے کا مطلب آصف زرداری کو ووٹ دینا کہلائے گا، عمران خان نے پیر کو اپنی تقریر میں کہا کہ چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کیلئے نون لیگ کو روکنا سیاسی کامیابی ہے۔صدر سپریم کورٹ بار سیدکلیم احمد خورشید نے کہا کہ جسٹس دوست کے ریٹائر ہونے پر بار میں لوگوں کو تحفظات تھے ، جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریٹائر ہونے پر تو وہاں بھی لوگوں کو تحفظات تھے لیکن انہیں بھی ڈنر دیا گیا، جسٹس دوست سے متعلق آگاہی نہیں تھی اگر صحیح معلومات ہوتیں تو انہیں راضی کیا جاتا، ان کا کہنا تھا کہ جسٹس سلام کیلئے انہوں نے1988میں تقریر کی لیکن ریفرنس پہلے چیک کروانے کیلئے نہیں بھجوایا، اسی طرح فلک شیر کیلئے بھی جو تقریر کی تھی وہ بھی خود ہی کی ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں ریفرنس پیش کرنے سے روکا گیا ہو، ان کا کہنا تھا کہ وہ جسٹس دوست کے کیس میں ذاتیات پر بات نہیں کرنا چاہتے وہ قانون کی بالادستی چاہتے ہیں لیکن معاملات کا پہلے سے علم ہوجاتا تو نتائج بہتر آسکتے تھے۔میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسلام آباد بیس دن تک یر غمال بنا رہا،دھرنے سے زندگی مفلوج ہوئی، دھرنا ختم ہوا لیکن کئی سوالا ت چھوڑ گیا، دھرنے کی قیادت کرنے والا کون تھا، دھرنا کیسے منظم کیا گیا، اخراجات کیسے پورے ہوئے، پولیس آپریشن کیوں نہ کیا گیا، ریاست نے مذاکرات کیوں کئے ، ان تمام سوالات کے جوابات سامنے نہ آسکے البتہ تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہیں، ملزم کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہورہا ہے لیکن کیا گھیرا تنگ ہوبھی سکے گا، حکومت نے معاہد ہ بھی کیا تھا لیکن اب قانون کی ذمہ داری بھی حکومت کا کام ہے، اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس میں تحریک لبیک کے سربراہ مولاناخادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے ،عدالتی حکم کے باوجود پولیس حتمی چالان پیش نہ کرسکی جس پر عدالت برہم دکھائی دی ، عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ ملزمان کوگرفتار کیا جائے اور چار اپریل تک ملزمان کے خلاف مقدمے کا حتمی چالان جمع کرایا جائے، عدالت نے مفرور ملزمان کا اسٹیٹس برقرار رکھا ہے، سپریم کورٹ میں دھرنا کیس کے دوران اہم ریمارکس سامنے آئے، خفیہ ادارے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
تازہ ترین