• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو گورننس بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر عشرت حسین

لندن (ودود مشتاق) سائوتھ ایشین ڈیولپمنٹ کانفرنس میں کہا گیا کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش ریجن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں زیادہ آزادانہ ٹریڈ پالیسیز کے ساتھ معیشت کو اگر مربوط کردیا جائے جنوبی ایشیا زیادہ سے زیادہ استعداد کا احساس کرسکتا ہے۔ یہ کانفرنس لندن سکول آف اکنامکس (ایل ایس ای) اور پولیٹیکل سائنس میں منعقد ہوئی، جس کا اہتمام سائوتھ ایشیا سوسائٹی آف ایل ایس ای نے کیا تھا۔ پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پاکستان قدرے تیزی سے ابھرتی معیشت ہے اور1990ء تک6.5فیصد گروتھ ریٹ کے ساتھ سائوتھ ایشیا میں لیڈر آف پیک تھا۔ تاہم خراب گورننس کی وجہ سے پاکستان اس پوزیشن سے محروم ہوگیا۔ اس کا ایک اور سبب پبلک پالیسیز پر خراب عملدرآمد بھی تھا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان پر سبقت حاصل کرلی اور اس کے بعد سے وہ بلندی کی جانب گامزن ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پاکستان کو سی پیک کی صورت میں ایک اور اچھا موقع میسر آیا ہے اور اگر درست طور پر اس موقع کا استعمال اور ادراک کیا گیا تو پھر پاکستان اس سے منسلک فائدہ اٹھاکر اکنامک گروتھ کے حوالے سے کھوئی ہوئی ساکھ اور پوزیشن حاصل کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کی کامیابی توسیع شدہ روڈ انشی ایٹیوز کے ماڈل مثلاً ایسٹ، ویسٹ کوریڈور جوکہ افغانستان سے بنگلہ دیش تک پورے ریجن سے منسلک ہوکے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستانی قیادت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اگر اس حوالے سے پیش رفت ہورہی ہے تو پھر دولت کی تقسیم مساویانہ اور انکلو سیو ہو اور معیشت کے تمام عناصر تک پہنچے۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ یہ صرف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام قومی ادارے اپنے فرائض مکمل استعداد کے ساتھ انجام دیں۔ دیانتداری کے ساتھ کام کریں۔ پاکستان کو ترقی کے لیے گڈ گورننس اور پبلک پالیسیز پر عمل درآمد کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، یہ قومی ترقی کے مفاد میں ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے ہیومن ریسورس کی ترقی پر زور دیتے ہوئے کاہ کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش کے پاس اپنے نوجوانوں کی شکل میں ایک عظیم قوت موجود ہے اور اگر قوت کو درست انداز میں استعمال کرلیا جائے تو پھر یہ عظیم انسانی اثاثہ ریجن کی گروتھ اور ڈیولپمنٹ میں مرکزی کردار کا باعث ہوگا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سائوتھ ایشیا آف ورلڈ کلب کے کے چیف اکانومسٹ مارٹن راما نے کہا کہ اگر معیشت زیادہ لبرل ٹریڈ پالیسیز سے مربوط ہوں تو جنوبی ایشیا زیادہ سے زیادہ اقتصاد استعداد کو استعمال کرسکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق ہیں۔ اگر ریجن کے ممالک ٹریڈ انشی ایٹیوز کے لیے تعاون کی گنجائش میں اضافے کریں تو پھر آنے والے وقتوں میں اس ریجن کو کوئی بھی اقتصادی پاور ہائوس بننے سے نہیں روک سکے گا۔ مارٹن راما نے کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت ڈیولپمنٹ سے متعلق امور کو ترجیح دیں تو پھر ضروری انفراسٹرکچر کی لاگت اور الیگٹرک سپلائی جیسے ایشوز کو بغیر کسی رکاوٹ کے حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے دیرینہ اختلافات کو حل کرنے اور باہمی معاہدوں مثلاً انڈس واٹر ٹریٹی پر تشویش کو دور کرنے پر زور دیا۔ ایل ایس ای سوسائٹی کے صدر فوربز رانا نے کہا کہ سائوتھ ایشین ریجن کے ملکوں میں کشیدہ تعلقات اوزر صحت مندانہ مذاکرات کی عدم خواہش کی وجہ سے اس نوعیت کا پلیٹ فارم ملنا مشکل ہے جہاں جنوبی ایشیا کی توانا آوازیں اکٹھی ہوکر ڈیولپمنٹ سٹرٹیجز کے بارے میں بات کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں کے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنے ماسٹر نریٹیو سے موو کریں اور ملٹی پولیرٹی ایشوز کے بارے میں آگاہ ہوں۔ برطانیہ کے لیے نیپال کے سفیر بہادر صوبیدی پاکستانی ڈرامہ رائٹر شاہد ندیم، بھارت کی سرکردہ این جی او بانی گونج انشو گپتا اور ہندو نیشنل ازم کے ماہر ڈاکٹر ایڈورڈ اینڈر سن نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔
تازہ ترین