• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادب، ادیب اور مستقبل کا آدمی

آج ہم تاریخ اور روایات کی قدیم چادر اوڑھے ،مستقبل کے اُس آدمی کی تلاش میں ہیں جو زمانۂ حال کے پیچ و خم سے بھی آگاہ نہیں ہے، لیکن ایک بات ہے آدمی جتنا قدیم ہو، اتنا ہی جدید بھی ہوتا ہے۔ وقت کی تقویم میں کئی اور زمانے بھی ہوتے ہیں، جہاں ماضی، حال اور مستقبل اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں۔ بہرحال آج ہم مستقبل کے جھٹ پٹے میں نئے آدم کی تلاش کرتے ہیں۔

مالتھس کے نظریۂ آبادی نے جب نئے انسان کی تلاش کے سفر کا آغاز کیا تو دنیا جنگ، انتشار، بے اطمینانی اور ریاست کاری کے نئے تصورات کے دھویں میں سانس لے رہی تھی۔ آنسوئوں، ہچکیوں اور ندامتوں کی لمبی رات، فکرِانسانی سے نئے سورج ابھارنے میں مستغرق تھی۔ سیاست اور نظریات دو واضح گروہوں میں بٹ چکے تھے۔

یہ گروہ انقلاب در انقلاب، امید و یاس کی سرزمین پر کسی فیصلہ کن لڑائی سے قبل کے ہولناک سناٹے میں پہلے وار کے منتظر تھے۔ کیا مالتھسی نظریے کا نیا انسان، ٹیکنالوجی کے میکانزم میں بے جذبات، مستقبل کا آدمی تھا یا آدمی کی احتیاج کے حسن سے تمام عمر، ناکامیوں سے کام لینے والا انسان…؟

فلاحی ریاست کا انحصار، سرمائے کی طاقت سے پروان چڑھتا ہے۔ یہ تہذیب، نائٹ کلبوں، جوئے خانوں اور محبت سے عاری وفا شعاری کے منظرنامے میں دم توڑ رہی ہے۔

مستقبل کا آدمی! دہشت گردی سے پناہ طلب، ہیروئن کی دیوی کے قدموں میں بیٹھا، کلینڈر پر اترنے والے آئندہ موسموں کی ویب سائٹ سے نتائج اخذ کرنے سے محروم ہوچکا ہے۔ سردی، گرمی، برسات، بہار، سارے موسم ایئرکنڈیشن کی یک رنگی میں گم ہوچکے ہیں۔ رات کی بے خواب آنکھ میں بھی کوئی ستارہ نہیں رہا ہے۔ بے فیض صبح کے ہاتھوں میں کوئی سرسبز پیغام نہیں، ٹیلیویژن اسکرین کی ہولناک آگاہی، بے یقینی کے جہنم زار کو ہر لمحہ پھیلا رہی ہے۔ 

موجودہ انسان نے جہدالقباء کی جنگ میں خواب کے اثاثے اور جذبات کی شگفتگی ہار دی۔ خوف کے عذاب میں مبتلا یہ انسان، اقدار کا مان کیا رکھے گا۔ آیئے مستقبل کے آدمی پر ایک نگاہ ڈالیں۔ ادب کے فرش گُل پہ چلتا ہوا آدمی یا غیر اقداری سہولت زدہ سائنسی کلچر کا غیر نمائندہ آدمی؟ اپنی قوتِ تخلیق سے سرشار ایجادات کے جبر میں ناآسودہ خیال آدمی…؟

صدیوں کی تہذیب کاری کا اظہار، طریقۂ پیداوار کے ماتحت ہو یا عقائد کے نظام کی دھیمی روشنی میں، اس کے خدوخال نمایاں ہوں، دونوں حساسیت سے عبارت ہیں۔

اقدار کے نئے نظام کے قیام سے دنیا کا ایک اصول تو طے ہے کہ انفرادی عمل کا انحصار، نیت پر ہوتا ہے، لیکن اجتماعی عمل صرف مشترک انسانی قدروں سے متعین ہوسکتا ہے۔ آنسو تو آنسو ہے، کالے کا ہو یا گورے کا، مشرق کا ہو یا مغرب کا، پارٹی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف لڑنے والی سرزمین، آج اپاہج اور معذور افراد کی ریاست ہے۔ ایشیا آج عالمی سیاسی بساط پر اپنے مہرے بدل رہا ہے تو کیا اعلیٰ انسانی اقدار اور روایات، نئے سرے سے مرتب ہوں گی۔

انسانی حقوق کے چارٹر سے رستا ہوا لہو،مظلوم اقوام کی بے بسی کا وہ نوحہ ہے، جو پابلو، نجیب محفوظ، فیض احمد فیض، نور محمد ترکئی اور کتنے ہی ادیبوں کے ادبی ورثے سے خوں بہا طلبی کا بآوازِ بلند اعلان ہے۔ گونگی ہوتی تہذیبوں کے ٹھنڈے پڑتے خون میں یہ قومی اظہار کیا مسقتبل کے انسان کی تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ریاست کو کرپٹ سیاسی نظام کھا گیا۔ فعال اور متحرک انسان کو کرپٹ ادیب، لیٹریری گھوسٹ ادبی منڈی میں بولی لگا رہے ہیں۔

اس ادبی ہائوس ٹریڈنگ سے اینیمل فارم تو بن سکتا ہے، یہ زمین فردوس نظر نہیں بن سکتی۔ کچی فکر کا یہ ادیب، وقارِ مفلسی بھی کھو بیٹھا ہے۔ وہ فکری رہنمائی کے منصب سے ازخود دستبردار ہوچکا ہے۔ ٹی وی، فلم، ریڈیو، اخبارات کے ادبی ایڈیشن، بعض ادبی رسالے اور ادارے ان ادیبوں کو پرموٹ کرکے روٹی روزی کما رہے ہیں، لیکن یقینِ آدمیت کہتا ہے کہ پیغمبروں کی وراثت، اقتدار کی غلام گردشوں میں دم نہیں توڑ سکتی۔ ریاستوں کے برسرِاقتدار گروہوں کے خودساختہ مفادات اور فیصلوں سے عالمی اتحاد قائم نہیں ہوسکتا۔ ناکام سیاسی نظاموں کی گرتی ہوئی دیوار پر یہ عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔

عالمی انسانی اتحاد صرف اور صرف ریاستوں کے عوام کی جذباتی ہم آہنگی سے پیدا ہوسکتا ہے اور اس کی بنیاد صرف ادب بن سکتا ہے، کیونکہ سب سے پہلے گلوبل ولیج کی بنیاد بھی ادب نے ہی رکھی تھی، جس میں ہومر سے میکسم گور کی تک اور پریم چند سے آخری بامقصد ادبی تخلیق تک کا سفر انسان کی جمالیاتی لوح پر محفوظ ہے۔

ادب ہی انسان کا ایڈووکیٹ ہے، جس کا قانون، مسیح کی شریانوں سے پھوٹا اور رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے فکری حر کی تصورِحیات سے فروغ پذیر ہوا۔ غلام داری نظام کے خاتمے، حریتِ فکر کی اساس اور عظمتِ جذبات کی تہذیب کا یہیں سے آغاز ہوا۔ مطلق العنان بادشاہت کے نظام سے نوآبادیاتی نظام تک، فرد کی فکری آزادی کےلیے صوفیاء کا کلام ادبی منشور کی علامت بنا، جو دلوں کو گرماتا اور روحوں کو سرشار کرتا رہا، مقامی ثقافتوں اور اظہار، رویوں کو ایک دوسرے میں جذب کرتا رہا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جمہوری ریاستوں کا نظام، زبان اور نسل کی بنیاد پر قومی تشخص کو اجاگر کرنے لگا تو زبان اوراس کا ادبی اظہار ہی قومیت یا قوم کا امتیازی وصف ٹھہرا۔ بیشتر ریاستیں ،ادب کو رائے عامہ کی بیداری، قومی ثقافت کی تشکیل، داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی تفہیم و تحلیل اور ترقیاتی عمل کےلیے معیاری نہیں سمجھتیں، لیکن عالمی صنعتی، تجارتی نظام، جو ریاستوں کی خودمختاری اور مالیاتی احتیاج کو شکار کرکے غیر زمینی ریاست بنا چکا ہے، کا سب سے دلفریب اور موثر حربہ ہی ادب اور فنون ہیں۔ اس کا اظہار فلم کے ذریعے ہو یا ٹیلیویژن کے اشتہار سے! گویا مقامی ادب اور ثقافت ہی سماجی تحریک اور تبدیلی میں بلاواسطہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ 

مفادِ عامہ کا غیر تحریری ریاستی قانون وہ ہتھیار ہے، جس نے حکومت کو فکری قتلِ عام کی سند دے رکھی ہے۔ دنیا کا بیشتر کالعدم قرار دیئے جانے والا ادب، اسی تلوار سے شہید کیا گیا۔ عوامی اشتعال کا شکار ہونے والی تحریروں کے پیچھے بدنیتی پر مبنی حکومتی ہتھکنڈے واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جمہوریت کے پیراہن میں چھپی، ایجنسیوں کی آمریت، برہنہ ہوکر رقص کررہی ہے۔

انسانی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ بیل گاڑی کی رفتار کا حامل معاشرہ، جس ٹھہرائو کا شکار تھا، اُس نے تہذیب کو قائم کرنے کےلیے لمبا دورانیہ لیا۔ اقدار مستحکم ہوئیں، اخلاقیات کو نسلوں تک سفر کرنے کا موقع ملا، لیکن جیسے ہی زندگی نیوٹن کے حرکت کے قوانین کے تابع ہوئی اور بیل گاڑی سے چاند تک، رفتار میں ناقابلِ یقین اضافہ ہوا، معاشرہ اتنی ہی تیزی سے اخلاقی نظام تبدیل کرنے پر مجبور ہوا۔

باخبری، حماقت کو جنم دیتی ہے، ادب کو نہیں۔ ادب، باخبری کے ساتھ ساتھ وجدان کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ غیر متشکل کیفیتوں کی تجسیم چاہتا ہے، پرانی اخلاقیات کے معیارات کو توڑ کر نئی اقدار پر اصول وضع کرتا ہے۔

دکھ اور درد کی تہذیب ختم ہوجائے تو دہشت گردی ہی جنم لے سکتی ہے۔ ادب، مستقبل کے تنہا، اداس انسان کےلیے وہ کندھا ہے، جس پر سر رکھ کر رویا جاسکے۔ انسان کے ابتدائی تصورات محض ارضی تھے۔ کائنات کے ساتھ اس کی جڑتی نسبت نے پرانے تصورات کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔

پہلی ارضی تہذیب زمین، آسمان، چاند، ستاروں سے جڑی ہوئی تھی۔ کائناتی آگاہی، مادّے کی سائنسی تفہیم کے نئے سفر پر نکل کر نامعلوم سمتوں میں بکھر گئی۔ انسان نے اپنی یادیں آلات و آواز کے سپرد کردیں۔

اقداری نظام، جب اسٹاک ایکسچینج کے ریٹ کی طرح بدلنے لگے تو کون نئے انسان کی کیفیت کا ادراک کرسکتا ہے۔ جب، خواب ٹیلیویژن کی اسکرین پر آنے لگیں تو پرائیویسی، اجتماعی برہنگی میں ڈھل جاتی ہے۔

سائنس، ڈیفنس انڈسٹری سے نمو پاتی ہے اور ادب، امن سے، بڑی ہتھیار ساز قوتیں ثالثی کی آڑ میں اپنی مصنوعات بیچ رہی ہیں، شادیوں کی تقریبات میں بم برسا کر عالمی عدالت انصاف میں جانے سے منحرف ہوجاتی ہے، لیکن دنیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ سائنس اور کائو بوائے مینٹیلٹی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

دراصل تہذیبیں، ٹیکنالوجی کی اجارہ داری سے نہیں، اخلاقی قوانین کی پاسداری سے پروان چڑھتی ہیں۔ ان قوانین کی روح ،ادب کے وجود سے قائم رہتی ہے۔ ٹیکنالوجی، تہذیبوں کے تصادم کے نظریات پیش کرتی ہے۔ 

ادب، تہذیبوں کے انضمام و انجذاب سے بحث کرتا ہے۔ مستقبل کا آدمی بھی ایک نئے یقین کے ساتھ، نیا ادب اپنی جمالیاتی اور فکری ادراک سے خود کشید کرے گا کہ ادب ہی انسان کا مکمل اظہار بھی ہے اور باعثِ تسکین بھی!

تازہ ترین