1980ء کے عشرے کے اوائل میں کالج کا طالب ہونا، ایک یادگار تجربہ رہا، کیوں کہ اُس زمانے کی’’ ترقّی پسند طلبہ سیاست‘‘ کے کارکنوں کے لیے جام ساقی ایک ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ وہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا دَور تھا، لیکن جام ساقی کی سیاست کا آغاز اس سے بہت پہلے 1960ء کے عشرے میں ہوا تھا کہ جب پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ کے بانی، جنرل ایّوب خان پوری ریاستی مشینری کو استعمال کر کے نہ صرف محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دینے میں کام یاب ہوگئے تھے، بلکہ مُلک سے جمہوریت کی جڑیں تک اُکھاڑنے کے در پے تھے۔
1960ء کے عشرے میں چلنے والی ’’وَن یونٹ مخالف تحریک‘‘ اُس جمہوری جدوجہد کا پہلا نمونہ تھی، جو بعد میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف بھرپور طریقے سے اُبھری۔ جام ساقی صرف 25سال کی عُمر تک اتنی قربانیاں دے چُکے تھے اور اتنی کٹھنائیاں برداشت کر چُکے تھے کہ جو دوسرے سیاست دان اپنی 40 ،50سال کی سیاست میں بھی نہیں سہتے اور اسی وجہ سے وہ عوامی جدوجہد کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ انہوں نے ذوالفقار علی بُھٹّو کی جمہوریت کے پردے میں لپٹی آمریت کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی۔
جام ساقی کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ انہوں نے خود سے سینئر سیاسی رہ نمائوں اور کامریڈز مثلاً ڈاکٹر اعزاز نذیر، پروفیسر جمال نقوی اور سوبھوگیان چندانی وغیرہ کا مکمل اعتماد حاصل کرلیا تھا اور وہ سب اس نوجوان کامریڈ کی بہت عزّت کیا کرتے تھے۔ تب ’’سُرخ پرچم‘‘ کے عنوان سے ایک زیرِ زمین رسالہ شایع ہوا کرتا تھا، جو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا ترجمان تھا۔
یاد رہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر 1954ء سے پابندی عاید تھی اور جو بھی ’’سُرخ پرچم‘‘ کے ساتھ دکھائی دیتا، اسے گرفتار کرنے کے بعد تشدّد کا نشانہ بنایا جاتا اور یہ سلسلہ بُھٹّو کے دَور میں بھی جاری رہا۔ تاہم، جنرل ضیاء الحق کے دَور میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی اور جام ساقی کے قریبی ساتھی، کامریڈ نذیر عبّاسی کو حراست میں لے کر تشدّد کر کے شہید کر دیا گیا۔
مگر ان تمام واقعات کے باوجود جام ساقی بہ دستور سماجی انصاف اور عوامی حقوق کا عَلم تھامے کھڑے رہے۔ انہوں نے صرف اس لیے قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں کہ وہ جمہوریت کی بحالی کے ساتھ چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بھی جدوجہد کر رہے تھے۔
تاہم، طویل حراست اور تشدّد سہنے کے باوجود بھی جام ساقی نے کبھی سیاسی منظر نامے پر بڑا مقام حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور پھر ویسے بھی سیاسی منظر نامہ اتنا شرم ناک ہو چُکا تھا کہ اس میں جام جیسے بے لوث کارکن کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ جام کی عزّت اُن لوگوں کے دِلوں میں تھی کہ جو انہیں جانتے تھے اور ان کے مقاصد کو سمجھتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کی فوجی عدالت میں جام ساقی کا دِفاعی مقدّمہ اُن کی ذہانت اور حوصلے کا شاہ کار تھا کہ اس مقدّمے میں کئی بڑی پاکستانی شخصیات کو فوجی عدالت میں طلب کیا گیا۔ حتیٰ کہ محترمہ بے نظیر بُھٹّو بھی جام کی حمایت میں عدالت میں پیش ہوئیں۔
گو کہ بی بی خود بھی جنرل ضیاء الحق کے دَور میں زیرِ عتاب رہیں، مگر افسوس کہ انہوں نے بھی اقتدار میں آنے کے بعد پُرانے جمہوریت پسند کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دَورمیں ہزاروں افراد ضمیر کے قیدی رہے، مگر ان میں سے صرف جام ساقی ہی ایسے تھے کہ انہوں نے کبھی اپنی قربانیوں کا صلہ مانگا اور نہ کوئی فواید حاصل کیے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب سوشلسٹ نظریہ عالمی سیاست سے تقریباً غائب ہو گیا، تو بہت سے پُرانے ترقّی پسند سیاسی کارکُن اور رہ نما بھی اپنے نظریات سے تائب ہو گئے اور بعض تو اعلانیہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اُن کی پوری زندگی ضایع ہو گئی، مگر جام ساقی نے ایسا کوئی اعلان نہ کیا۔ بِلا شُبہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کام یاب نہ ہو سکے، مگر انہوں نے ہزاروں نوجوان سیاسی کارکنوں کو سیاسی جدوجہد کی اہمیت سے آگاہ کیا ۔
یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی عوام میں تھوڑا بہت سیاسی شعور موجود ہے۔ جام ساقی کی شخصیت اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ان پر تشدّد کرنے والے بے شک اعلیٰ عُہدوں پر پہنچے، مگر ان کی طرح عوام میں عزّت حاصل نہیں کر سکے۔ جام ساقی کے عوام دوست نظریات ہی کو عاصمہ جہانگیر، سبین محمود، پروین رحمٰن، خُرّم ذکی، راشد رحمٰن، سلمان تاثیر اور دیگر افراد نے آگے بڑھایا اور اس کوشش میں اپنی جان تک کی پروا نہ کی، مگر انہیں نشانہ بنانے والوں کے نظریات تاریخ میں گُم نام رہیں گے۔
جام ساقی اپنی زندگی کے آخری 25برسوں میں جسمانی و ذہنی طور پر زوال کا شکار رہے۔ ان کی ذہنی صلاحیت پر اُس تشدّد کا گہرا اثر مرتّب ہوا کہ جو انہوں نے جیلوں میں بُھگتا تھا۔ اس جسمانی و نفسیاتی تشدّد نے جام ساقی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا ، انہیں کسی بات پر توجّہ مرکوز کرنے میں دشواری ہونے لگی تھی اور انہوں نے اپنے دِل چسپی کے مشاغل سے بھی کنارہ کَشی کر لی تھی۔
ان برسوں میں انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصّہ نہیں لیا، کیوں کہ حرص و ہوس کی سیاست اور تشدّد پر مبنی فرقہ واریت اُن کے لیے اجنبی تھی۔جام ساقی نے اپنے دَور کے طلبہ کو سیاست کے مفہوم، اہمیت اور مقاصد سے آگاہ کیا اور انہیں اس جانب آنے کی ترغیب دی، جب کہ آج ہماری سیاست اس قدر متعفّن ہو چُکی ہے کہ والدین اپنے بچّوں کو سیاست سے دُور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جام ساقی جیسے لوگ ہمیں یہ سمجھاتے تھے کہ سیاست میں حصّہ لینا ہر فرد کا حق ہے، جن میں طلبہ بھی شامل ہیں۔
آج والدین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاست اور تشدّد و الگ چیزیں ہیں اور سیاست تو نام ہی گُفت و شنید کا ہے، جس کے بغیر تشدّد جنم لیتا ہے۔ جام ساقی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے دانش وَر اور سیاسی کارکُن کبھی تشدّد پر مائل نہیں رہے اور جنہوں نے تعلیمی اداروں میں تشدّد کورواج دیا، وہ لبرل تھے اور نہ ترقّی پسند، بلکہ متعصبانہ سیاست کرنے والے تنگ نظر تھے، جنہوں نے سیاست میں تشدّد کا زہر گھولا۔
آج جام ساقی کے افکار کو فروغ دینے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ وہ اس بات پر یقینِ کامل رکھتے تھے کہ یہ مُلک عوام کا ہے اور صرف عوام ہی کو فیصلے کرنے کا اختیار ہے اور جو قوّت عوام سے فیصلہ سازی کے حق کو چھینتی ہے، اس کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔
یعنی جو بات جام ساقی، اُن کے ساتھی دانش وَر اور سیاسی کارکُن 1980ء کے عشرے میں کہہ رہے تھے، اُس کی صداقت آج ثابت ہو چُکی ہے۔ اگر ہمارے حُکم رانوں اور پالیسی سازوں نے جام ساقی جیسی شخصیات کی بات پر کان دھرے ہوتے، تو آج پاکستان کی ایسی حالت نہ ہوتی۔ مثال کے طور پر اگر ہم افغانستان کی جنگ میں نہ کودتے، تو آج ہمیں دہشت گردی کا سامنا نہ ہوتا اور نہ ہی فوجی آپریشنز کرنے پڑتے۔
تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے جام ساقی ایک پرائمری اسکول ٹیچر کے بیٹے تھے۔ چھاچھرو سے میٹرک کرنے کے بعد حیدرآباد کے سرکاری کالج میں زیرِ تعلیم رہے اور پھر نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن (این ایس ایف) میں شامل ہوئے۔
جب وَن یونٹ کے تحت سندھی زبان کی تعلیم و تدریس پر پابندی لگائی گئی، تو سندھ کے تعلیمی اداروں میں اس کی بحالی کی جدوجہد میں جام ساقی بھی شامل رہے اور سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، جنرل ٹکا خان کو بھی للکارا۔
اسی زمانے میں جام ساقی نے لکھنا بھی شروع کیا اور کامریڈ عزیز سلام بخاری کے ساتھ مل کر سندھی ہاریوں کو منظّم کرنا شروع کیا۔ جام ساقی نے اپنی 74سالہ زندگی میں سے کم از کم 15سال جیل میں گزارے اور لاہور کے شاہی قلعے کا بد نامِ زمانہ تشدّد بھی برداشت کیا۔
’’وَن یونٹ مخالف تحریک‘‘ سے لے کر ’’تحریکِ بحالیٔ جمہوریت‘‘ تک جام ساقی کی جدوجہد، پاکستان کی عوامی تاریخ کا حصّہ ہے۔