• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بھارتی دارالحکومت کے بچے ریاضی اور انگریزی میں کمزور

بھارتی دارالحکومت کے بچے ریاضی اور انگریزی میں کمزور

بھارتی حکومت کے ایک سروے کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے طلبہ انگلش لینگویج اور ریاضی کے مضمون میں بہت ہی کمزور پائے گئے ہیں۔

قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت کے زیراہتمام نیشنل اچیومنٹ سروے کے مطابق دہلی ان پانچ بدترین کارکردگی کی حامل ریاستوں اور مرکز ی حکومت کے زیراہتمام علاقوں میں شامل ہے جہاں کے آٹھویںجماعت کے بچے انگریزی زبان میں بہت ہی پیچھے نظر آئے۔

بھارتی دارالحکومت کے بچے ریاضی اور انگریزی میں کمزور

اسی طرح دہلی کے تیسری جماعت کے بچے ریاضی میں دوسری بدترین کارکردگی کی حامل ریاستوں میں شامل ہیں۔اس سروے سے اسی طرح کے دیگر اداروں کی جانب سے کیے گئے سروے سے حاصل شدہ معلومات کی توثیق ہوئی کہ ملک میں تعلیم کا معیار نہایت ہی ناقص ہے اور اس سلسلے میں قومی دارالحکومت دہلی بھی مبرا نہیں۔

سروے کے مطابق دہلی میںآٹھویں جماعت کے صرف 32فیصد بچے انگلش لینگویج کے سوال کا جواب دے سکے، جبکہ صرف 34فیصد بچے ریاضی کا مسئلہ حل کرسکے۔ دوسری جانب ریاست کے تیسری کلاس کے بچوں کا جب سروے کیا گیا تو صرف 54فیصد بچوں نے ریاضی کے سوال کو درست طورپر حل کیا۔

اسی طرح تیسری کلاس کے بچوں میں سے 58فیصد انگلش لینگویج کے سوال کا درست جواب دے سکے۔دہلی کےپانچویں جماعت کے بچوں کا جب سروے کیا گیا تو صرف 44فیصد ریاضی اور باون فیصد انگلش لینگویج کے سوال کا درست جواب دے سکے۔

ایک بھارتی اخبار کے مطابق اہلیت کو جانچنے کے حوالے سے اس ٹیسٹ میں ملک بھر کے ایک لاکھ دس ہزار اسکولوں کے 22لاکھ بچوں کوشامل کیا گیا۔ اس ٹیسٹ کے سوالوں کو اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ اس سے تعلیم و تربیت کے نتائج ومعیار کو جانچا جاسکے۔

یہ منصوبہ حال ہی میں حکومت نے سینٹرل رول فار دی رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ میں شامل کیا ہے، سروے کے مطابق ریاست راجستھان اور کرناٹک نے سب سے بہتر نتائج دیئے ، جوکہ 75فیصد یا اس سے اوپر تھا۔جبکہ سب سے خراب صورتحال شمال مشرقی ریاستوں میں رہی جہاں کے نتائج 39فیصد تک محدود رہے۔

بھارتی دارالحکومت کے بچے ریاضی اور انگریزی میں کمزور

دریں اثنا ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کی ایک سینئر افسر سومایا گپتا نے سروے کے نتائج پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔ نیشنل اچیومنٹ سروے سے قبل ہم نے 2016میں تعلیمی صورتحال کو جانچنے کے لیے ایک جامع سروے کرایا تھا ۔

جس میں تعلیمی معیار کے گراوٹ کے حوالے سے بعض افسوسناک اعداد و شمار سامنے آئے تھے، جس کے بعد ہم نے صورتحال کی بہتری کے لیے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے، اس سے بچوں میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں، مگر بچوں میں بہتری ایک دوسال میں نہیں آئے گی، بلکہ اس میں زیادہ وقت لگے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین