• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


مسلم لیگ کی انتھک جدوجہد کے بعد 23مارچ 1940قراردادِ پاکستان کے منظور ہونے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ برطانوی بھارت کے شمال مغربی اور شمال مشرقی مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کے حصول کے مطالبہ پر مبنی قرارداد کا دن۔ مسلم لیگ کے اس تین روزہ اجلاس نے دنیا کے پہلے اسلامی جمہوریہ کے قیام کی بنیاد رکھی۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح جو 30سال تک ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے داعی رہے، بالآخر اپنے افکار سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گئے اور تحریکِ پاکستان کے نمایاں رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ بانیٔ پاکستان نے لاہور اعلامیہ پر دستخط ثبت کئے جس کے مندرجات درجِ ذیل تھے
’’کوئی آئینی منصوبہ اس وقت تک مسلمانوں کے لئے قابلِ قبول یا قابلِ عمل نہیں ہو گا جب تک کہ جغرافیائی اعتبار سے متصل خطوں کو سرحدیں بنا کر ایسے علاقوں میں نہیں بدل دیا جاتا جنہیں علاقائی انتظامِ نو کے ساتھ تشکیل دیا جائے جیسا کہ ضروری ہو۔ جن علاقوں میں مسلمان عددی اعتبار سے اکثریت میں ہیں جیسا کہ شمال مشرقی اور مغربی خطے ہیں، ان پر مشتمل آزاد ریاستیں تشکیل دی جائیں جن کی تشکیلی اکائیوں کو خودمختاری دی جائے‘‘
اگرچہ پہلی بار لفظ ’’پاکستان‘‘ چوہدری رحمت علی نے اعلامیۂ پاکستان کے پمفلٹ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ میں استعمال کیا اور کہا کہ’’ہم زندہ رہنے کے لئے ہیں یا نیست و نابود ہونے کے لئے‘‘۔ تاہم لفظ پاکستان قرادادِ لاہور میں شامل ہونے کے بعد قبولِ عام حاصل ہوا اور اس کا استعمال تواتر سے ہونے لگا یہاں تک کہ اس نام نے تحریکِ آزادی کی جدوجہد میں روح پھونک دی۔ قراردادِ پاکستان کا شاندار متن سر ظفر اللہ نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ تیار کیا اور شیرِ بنگال اے کے فضل حق نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل اجلاس میں پیش کیا جسے کشادہ دلی سے قبول کیا گیا۔ پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، صوبہ سرحد سے عبدالغفور ہزاروی، بلوچستان سے قاضی عیسیٰ اور سندھ سے سرعبداللہ ہارون نے اس قرارداد کی بھرپور حمایت کی۔ اس قرارداد اور علیحدہ مملکت کے خواب نے مسلمانوں میں حیرت انگیز مقبولیت حاصل کر لی۔ اعلامیۂ لاہور تاریخ کی سب سے اہم دستاویز بن گیا۔ اگلی صبح کے اخبارات نے محمد علی جناح کی کامیاب قیادت کا اعلان کر دیا۔ مسلمانوں نے خودمختار ریاستوں کی شکل میں انڈیا کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔
آج ہمارے خوبصورت ملک کو قائم ہوئے ستر سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آج ہم قراردادِ لاہور کا دن اس جذبہ کے تحت منا رہے ہیں کہ ہمیں اپنی علاقائی سالمیت، سیاسی آزادی اور قومی اتحاد کو مضبوط تر کرنا ہے۔ وہ خواب جس نے ہمیں متحد کیا آج کا دن ہماری قومی بیداری کا متقاضی ہے۔ یہ آزمائش کا دور ہے۔ انتخابات سر پر ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی معزولی نے سیاسی بے یقینی کو فروغ دیا ہے جس کا نتیجہ معاشی عدم استحکام کی صورت سامنے آ رہا ہے۔ بڑھتی درآمدات، کم ہوتی آمدنی اور زرِ مبادلہ کے گھٹتے ذخائر سے اس امر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت کن مشکلات سے دوچار ہے۔ کاروباری ادارے اور افراد پر امید ہیں کہ یہ برا وقت سیاسی جماعتوں کی انتخابات سے پیشتر نوراکشتی کے باعث ہے تاکہ انتخابات سے پیشتر اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کی جا سکے۔ لیکن اگر خدانخواستہ معیشت حقیقی معنوں میں ناکام ہو گئی تو آنے والی حکومت کو بیرونی ادائیگیوں میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور شاید قرضوں کے جنجال سے نکلنے کے لئے اسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا سہارا لینا پڑے۔
اقتصادی خدشات اور سیاسی بے اعتدالیوں کے باوجود ون بیلٹ ون روڈ (OBOR)کے تحت چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور(CEPEC)پاکستان کے لئے ایک روشن راستہ ہے جو اسے بہت آگے لے جا سکتا ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا بنیادی ڈھانچہ اور سرمایہ کاری ہے۔ اس سے دنیا کے 68ممالک، 65فیصد آبادی اور گلوبل جی ڈی پی کا 40فیصد جڑا ہوا ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے اللہ پاک کی عظیم نعمت کے مترادف ہے۔ متوقع سرمایہ کاری جو 46بلین ڈالر سے بڑھ کر 62بلین ڈالرز ہو چکی ہے،2015سے 2030تک اس کی بدولت 2.3ملین ملازمتوں کے پیدا ہونے کا امکان ہے جس سے ملک کی سالانہ شرحِ ترقی میں 2.5فیصد اضافہ متوقع ہے۔
کورٹنی فیونگر نے 11مارچ 2016کے اپنے فنانشل ٹائمز میں لکھے گئے مضمون میں لکھا کہ توانائی کا بحران پاکستان میںغیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا لیکن چین کی طرف سے انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے پر کشش مواقع فراہم کیے ہیں۔ شاہراہوں اور سڑکوں کی تعمیر پر بھر پور توجہ دی جا رہی ہے جس کے پہلے مرحلے میں مئی 2018میں شاہراہِ قراقرم کی تعمیر تکمیل پا جائے گی۔ اورنج لائن میٹرو اسی مہینے کے آخر تک رواں دواں ہوگی۔
گوادر خطے کے وسط میں اہم بندرگاہ کے طور پر سامنے آ رہی ہے جو ترقی یافتہ محفوظ اور تیز ترین نقل و حمل کا پیش خیمہ ثابت ہو گی یہ نا صرف سمندری بلکہ زمینی رابطوں میں بھی اہم کردار ادا کرے گی جس کی بدولت گوادر کے لوگوں کو پر امن اور بہتر مستقبل فراہم ہو سکے گا۔ گوادر بندرگاہ کے علاوہ بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر بھی جاری ہے جو آئندہ دو سالوں تک پایہ ٔ تکمیل کو پہنچ جائے گا جو یہاں تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ سیاحت کے فروغ کا بھی باعث بنے گا۔ اس کے علاوہ واٹر ٹریٹمنٹ کی سہولت کے ذریعے ساکنانِ گوادر کو روزانہ 5ملین گیلن پانی کی فراہمی بھی اس سال کے آخر تک یقینی ہو جائے گی جو گوادر کے باسیوں کے لئے ایک اور بیش قیمت تحفہ ہو گی۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بہتر ین مواقع ہمارے در پر دستک دے رہے ہیں۔ اب ضروری ہے کہ ان مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے ہم اپنے آپ کو تیار رکھیں۔آج اس تاریخی 23مارچ کے دن ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ وسیع تر قومی مفاد میں ہم اپنے اختلافات اور رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہو جائیں اور سی پیک سے انفرادی اور اجتماعی فوائد سمیٹنے کے لئے اپنے اپنے حصہ کا کر دار ادا کریں اور اس عظیم منصوبہ کے پشتیبان بن جائیں۔
(کالم نگار جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین