• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی منظر نامے پر روشن اُبھرتا پاکستان

گزشتہ چار۔پانچ برسوں کے دوران معاشی میدان میں قابل ذکر کامیابیوں، دہشت گردی کے خلاف فقیدالمثال اور فیصلہ کن کارروائیوں اور معاشی اصلاحات کے باعث، آج کا پاکستان بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے ریڈار پرآچکاہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں، جب 2013میں پاکستان پر غیرملکی ادائیگیوں کے سلسلے میںنادہندگی کا خطرہ منڈلا رہا تھا، توانائی بحران کے باعث صنعتی پہیہ جام ہوچکا تھااور عام پاکستانی دہشت گردی اور بجلی کے بحران کے باعث پریشان تھا۔ 

 تاہم وہ 2013 تھا اور آج 2018 ہے۔ آج کا پاکستان پانچ سال پہلے کے پاکستان کے مقابلے میں ناصرف معاشی طور پر بہت بہتر حالت میں ہے، بلکہ عام پاکستانی بھی ، ملک،معیشت اور اپنے مستقبل کے حوالے سے پرامید ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، جون 2018میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح پانچ اعشاریہ آٹھ فی صد رہنے کی توقع ہے۔ معاشی ترقی کی یہ شرح پاکستان نے گزشتہ دس سال میں حاصل نہیں کی۔ مہنگائی کی شرح بھی کنٹرول میں ہے۔

بڑے پیمانے کی پیداواری صنعتوں کا شعبہ بھی خوب پھل پھول رہا ہے۔زرعی شعبے کی کارکردگی بھی اطمینان بخش رہنے کی توقع ہے۔

میکرواکنامک اشاریوں کی بات کی جائے تو ٹیکس وصولیاں بڑھ رہی ہیں، حکومتی اخراجات قابو میں ہیں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے پاکستان رقوم بھیجنے (Remittances) میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایکسپورٹ ایک ایسا شعبہ تھا، جہاں پاکستان کا گراف نیچے جارہا تھا، تاہم بالآخر اب ایکسپورٹس کی مجموعی صورت حال بھی درست سمت میں چل پڑی ہے۔

پاکستان کے مجموعی حالات میں ڈرامائی بہتری اور معاشی میدان میں آنے والی ان مثبت تبدیلیوں پر دنیا کی بھی نظر ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے(IMF) کی رپورٹ کے مطابق، پرچیزنگ پاور پیریٹی(PPP)کے لحاظ سے پاکستان ٹریلین ڈالر جی ڈی پی رکھنے والے ملکوں کے کلب میں شامل ہوچکا ہے۔ اس طرح PPPرینکنگ کے لحاظ سے، پاکستان دنیا کی پچیسویں بڑی معاشی قوت بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ، عالمی معیشت پر اپنی رپورٹ میں آئی ایم ایف اس بات کا اعتراف کرچکا ہے کہ پچیس بڑی عالمی معیشتوں میں پاکستان تیسرا سب سے زیادہ تیزی کرنے والا ملک ہے۔

معروف عالمی اشاعتی ادارہ ، وال اسٹریٹ جرنل بھی معاشی میدان میں پاکستان کی کامیابیوں کا معترف ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔صارفین کی قوت خرید میں اضافہ ہورہا ہے۔ غربت میں کمی آرہی ہے۔

اگرموٹرسائیکلوں کی فروخت کی بات کی جائے، تو چین، بھارت، انڈونیشیا اور ویتنام کے بعد پاکستان موٹرسائیکلوں کی پانچویں سب سے بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔ پاکستان میں روزانہ ساڑھے سات ہزار نئی موٹرسائیکلیں فروخت ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ کے دوران جولائی 2017سے فروری 2018تک، پاکستان میں 23لاکھ سے زائد نئی موٹرسائیکلیں فروخت ہوچکی ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی قوت خریدکا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بجلی پر چلنے والے پنکھے سے لے کر ریفریجریٹر اور واشنگ مشین رکھنے تک، پاکستانی گھرانے ، بھارتی گھرانوں سے زیادہ خوشحال ہیں۔پاکستان میں 12فی صد افراد کمپیوٹر رکھتے ہیں، جب کہ بھارت میں ایسے افراد 11فی صد ہیں۔ 

پاکستان میں 41فی صد افراد موٹرسائیکل کے مالک ہیں جب کہ بھارت میں 32فی صد، پاکستان میں 47فی صد گھرانے ریفریجریٹر کے مالک ہیں جب کہ بھارت میں 33 فی صد، پاکستان میں 48فی صدگھروں میں واشنگ مشین موجود ہے جب کہ بھارت میں 15فی صد وغیرہ۔

ایک اورسروے کے مطابق، پاکستان میں 2001سے 2014کے درمیان واشنگ مشین استعمال کرنے والوں کی تعداد گنی، کار اور ریفریجریٹر رکھنے والوں کی تعداد تین گنا جب کہ موٹر سائیکل رکھنے والوں کی تعداد میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے۔

ان اعدادوشمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس تیزی سے Durable Goodsکے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے، غربت بھی اتنی ہی تیزی سے نیچے آئی ہے۔ 2001میں دو ڈالر یومیہ سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد 57فی صد تھی، جو 2014میں سات فی صد رہ گئی ۔ 2001میں پاکستان میں دس ڈالر یومیہ کمانے والے گھرانوں کی تعداد ایک فی صد تھی، جو 2014میں سات گنا بڑھ کر سات فی صد ہوگئی۔

ایک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارےکریڈٹ سوئس نے اپنی رپورٹ میں پاکستانی عوام کو بھارتی عوام کے مقابلے میں زیادہ خوشحال اور دولت مند قرار دیا ہے۔ 

کریڈٹ سوئس کی ویلتھ رپورٹ کے مطابق، ایک عام بالغ پاکستانی کے پاس اپنے بھارتی ہم عصر کے مقابلے میں 20فی صد زیادہ دولت ہے۔ کریڈٹ سوئس کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ، ایک سال میں پاکستانی گھرانوں کی اوسط دولت میں دو اعشاریہ ایک فی صد اضافہ، جب کہ بھارتی گھرانوں کی اوسط دولت میں صفر اعشاریہ آٹھ فی صد کمی ہوئی ہے۔

اس سے قبل بوسٹن Consultingگروپ (BCG)اپنی رپورٹ From Wealth To Well Beingمیں کہہ چکا ہے کہ پاکستان، پڑوسی ملکوں بھارت اور چین کے مقابلے میں اپنی جی ڈی پی کو عوامی بہبودپر زیادہ بہتر انداز میں خرچ کرتا ہے۔

پاکستان میں کاروں کی فروخت بھی ریکارڈ سطح پرجا پہنچی ہے۔ پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA)کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق، صرف فروری 2018کے ایک مہینے میں پاکستان میں مقامی کارساز کمپنیوں نے 22,654نئی کاریں فروخت کی ہیں۔ اس طرح رواں مالی سال جولائی سے فروری تک ایک لاکھ ستر ہزار سےزائد مقامی طور پر تیار ہونے والی نئی گاڑیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ استعمال شدہ جاپانی گاڑیوں کی فروخت اس کے علاوہ ہے۔

لوگوں کی بڑھتی آمدنی کے باعث پاکستانی مارکیٹ میں کاروں کی بڑھتی طلب کودیکھتے ہوئے کئی بین الاقوامی کارساز ادارے پاکستان کا رخ کررہے ہیں۔ کیا، ہنڈائی، رینالٹ، والکس ویگن اور Ssangyong۔ کاروں کی بین الاقوامی مارکیٹ میں ان سب کمپنیوں کا بڑا نام ہے، جو اب پاکستان کا بھی رخ کررہی ہیں۔یہ کمپنیاں پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کررہی ہیں، جس سے ناصرف پاکستانی عوام کو روزگار کے نئے مواقع میسر آئیں گے، بلکہ پاکستانی صارفین کو بہتر گاڑیاں بھی دستیاب ہوں گی۔ 

مقابلہ کی فضا میں بالآخر فائدہ صارف کا ہی ہوتا ہے۔پاکستان میں کار مارکیٹ ابھی ڈیویلپ ہونے کے ابتدائی مراحل میں ہے کیوں کہ صرف چھ فی صد پاکستانی کار کے مالک ہیں۔پاکستانی میں کاریں فروخت کرنے کے لیے ابھی بڑی مارکیٹ موجود ہے، اس لئے کار مارکیٹ میں گروتھ کا رجحان آنے والے کئی برسوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

صرف آٹو انڈسٹری میں ہی نئی سرمایہ کاری نہیں آرہی۔پاکستان کی بڑھتی کنزیومر مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے ہالینڈ کی ایک بڑی ڈیری کمپنی Royal Friesland Campina NVپاکستان کی اینگرو فوڈ کمپنی کو خریدچکی ہے۔

سی پیک منصوبے کی بدولت پاکستان، ملک بھر میں پورٹ، موٹرویز، فائبر آپٹک، ریلویز،صنعتی زونز اور توانائی پروجیکٹس کا وسیع جال بچھانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی Competitiveness رینکنگ میں پاکستان مسلسل اور بتدریج اوپر کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی اس رینکنگ میں گزشتہ چار سال کے دوران پاکستان اپنی Competitiveness میں 18 درجے بہتری لاچکا ہے۔ 2014میں پاکستان اس انڈیکس میں 133ویں نمبر پر تھا، جبکہ 2017-18میں پاکستان 115ویں نمبر پر ہے۔ 

انفرااسٹرکچر Pillarمیں پاکستان کی درجہ بندی مزید بہترہوکر 110پر آگئی ہے۔سی پیک اور پاکستان کے اپنے ترقیاتی پروگرام کے تحت جیسے جیسے انفرااسٹرکچر کا جال مزید پھیلتا چلا جائے گا۔

نیویارک ٹائمز میں پاک۔امریکا تعلقات پر چھپنے والے ادارتی مضمون How Not To Engage With Pakistan میں پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر رچرڈ اولسن کا سی پیک کا ذکر کرتے ہوئے کہنا ہے، ’’سی پیک اپنے وسیع و عریض قدوقامت کے باعث جس طرح پاکستان کےکئی حصوں کا منظر بدل رہا ہے، اس نے پاکستان میں امریکاکے سارے ترقیاتی منصوبوں کو بونا بنا دیا ہے‘‘۔

اقوام متحدہ کی ورلڈ Happiness رپورٹ  نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستانی قوم خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکی ہے۔ ہیپی نیس انڈیکس میں پاکستان اپنے روایتی حریف ملک بھار ت سے 58درجے، اپنے عظیم دوست ملک چین سے 11درجےاور دیگر دو پڑوسی ممالک ایران اور افغانستان سے بالترتیب 31اور 70درجے اوپر ہے۔

اب تو اس بات پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ آج کا پاکستان روشن اور اُبھرتا ہوا پاکستان ہے۔

تازہ ترین