• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تخلیق کو کیسے اُبھارا جائے؟

آئن اسٹائن نے کہا کہ تصور علم سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ تصور ہی علم کا ماخذ ہے ۔ ایک اور معروف امریکی شاعر ایمرسن کے مطابق ’’ہمیں گھڑے گھڑائے نقلی اور مصنوعی آدمی کی ضرورت نہیں جو کسی پیشہ ورانہ کام کو ہی کرسکتے ہوں بلکہ ایسے افراد کی ضرورت ہے جو اپنی قوت ارادی کے بل پر کسی بھی کام میں ہاتھ ڈال سکتے ہوں ، دنیا میں جو بہترین کارنامے وقوع پذیر ہوئے یعنی طباع و ادراک کے لوگوں کے کارنامے جن پر کبھی کوئی لاگت نہیں آئی (مثلاً ایڈیسن نے بلب ایجا د کیا لیکن کسی سے سرمایہ حاصل نہیں کیا)اور نہ ہی کبھی کوئی قیمت ادا کی اور نہ ہی اس تخلیق کے لئے کوئی مشقت اٹھانی پڑی بلکہ تصور تو فکر کے بے ساختہ دھارے ہیں۔ شیکسپیئر نے ھیملٹ (Hamlet)اتنی ہی آسانی سے لکھ ڈالا تھا جتنی آسانی سے کوئی پرندہ اپنا گھونسلہ بنا لیتا ہے۔ 

بڑی بڑی نظمیں بغیر سوتے جاگتے لکھی گئی ہیں عظیم مصوروں نے حصول ِ مسرت کے لئے تصاویر بنائیں اور انہیں یہ خبر تک نہ ہوئی کہ ان کی شخصیت نے خیر کو جنم دیا ہے ۔‘‘ بر صغیر پاک و ہند کے تخلیق کاروں میں سعادت حسن منٹو ، کرشن چندر، فیض احمد فیض، غالب ، خواجہ خورشید انور اور رشید عطرے اور مصوروں میں پکاسو سے لیکر صادقین تک تصوراتی دنیا کے عالی شان فنکار قابل ذکر ہیں جنہوں نے تصور کو مجسم کیا۔

ہم آخر کس طرح نئے تصورات حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس پر عمومی انداز میں سوچنا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم ماضی میں پیش کئے گئے بہترین تصورات پر سوچیں کہ وہ کیسے وجود میں آئے۔ بدقسمتی سے تخلیقی عمل کا طریقہ واضح نہیں ہے حتیٰ کہ خود تخلیق کاربھی نہیں جانتے کہ یہ کیسے وجود میں آتے ہیں۔

 لیکن اگر ایک ہی خیال یا تصور دو افراد کو ایک ساتھ یا الگ الگ آئے تو ان میں مشترک عنصر یہ ہے کہ دونوں کو ایک ہی خیال آیا۔ آپ چارلس ڈارون کے نظریہ قدرتی انتخاب کو مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

ہمیں جوجاننے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کا کسی خاص شعبے کے بارے میں ذہنی پس منظر کیا ہے؟ بلاشبہ 19ویں صدی کے پہلے نصف میں بہت سے مادیت پرستوں نے اس کا مطالعہ کیا کہ افراد ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہیں؟ آپ مالتھس (Malthus) ہی کی مثال لیں، بہت سے لوگوں نے اس کو پڑھا ہوگالیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی نوع یا جنس اور مالتھس کو ایک ساتھ پڑھ کر ان دونوں میں تعلق پیدا کیا جائے۔

کسی دو باتوں میں تعلق جوڑنے سے نیا خیال پیدا نہیں ہو جاتا تاہم اگر ایسا کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پرانے ہی تصور یا خیال کو نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ نئے تصور یا خیال کو پیش کرنے کیلئے کچھ باتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ 

یعنی نئے تصور کو معقول ہونا چاہئے۔ دلیل اور سوجھ بوجھ کے ساتھ بات کرنے والے شخص کو عام روش سے ہٹ کر ہونا چاہئے۔ نئے تصورات پیش کرنے والے شخص کواپنے شعبے میں مکمل مہارت حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنی عادات میں غیر روایتی انداز میں سوچتا ہے۔

نئے تصورات پر بات کرنے کیلئے جب آپ کچھ لوگوں کا انتخاب کرلیتے ہیں تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا آپ انہیں اکٹھا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مل جل کر مسائل پر بات کرسکیں یا پھر آپ فرداً فرداً بات کریں گے اور انہیں الگ حیثیت میں کام کرنے دیں گے۔ اس بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ پوری طرح کام کرنے کیلئے تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

تخلیقی صلاحیتوں کے حامل شخص کا ذہن مسلسل سوچنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے پاس جو معلومات ہوتی ہیں وہ سوتے میں بھی انہیں کھنگالتا رہتا ہے۔ مثلاً کیکولے (Kekule) نے بینزین(Benzene) کا سانچہ سوتے میں دریافت کیا تھا۔

تخلیقی عمل الجھا دینے والا عمل ہے، اس دوران دوسروں کی اردگرد موجودگی اس عمل میں رکاوٹ بنتی ہے۔ کسی ایک اچھے نئے تصور کیلئے آپ ہزاروں کی تعداد میں بے وقوفی کی باتیں بھی سوچتے ہیں جنہیں آپ ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ 

مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے اس تمام دماغی مشق کے دوران محض نئے تصورات پر سوچنا ہی نہیں ہوتا بلکہ اس عمل میں دوسرے کو ان کے بارے میں دلائل، حقائق، نظرئیے اور کبھی کبھار آجانے والے خیالات کے بارے میں بتانا بھی شامل ہے۔

سوال یہ ہے کہ آپ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگوں کو کس طرح سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں؟ اس کیلئے سب سے پہلے انہیں آسانی، سہولت، اعصابی سکون اور خیالات کو آزادانہ استعمال کرنے کا ماحول فراہم کرنا چاہیے۔ 

عام طور پر دنیا تخلیقی کام کو مسترد کرتی اور لوگوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہونا برا سمجھا جاتاہے۔ حتیٰ کہ لوگوں کی موجودگی میں سوچ بچار بھی ان کیلئے فکر کا باعث ہو جاتی ہے۔ 

اگر کوئی بے وقوفی کی باتیں سوچتا ہے تو ممکن ہے آپ اس کی حوصلہ افزائی نہ کریں لیکن آپ کے ایسا کرنے سے اس کی سوچ کو جو نقصان پہنچے گا وہ ناقابل تلافی ہو گا۔ چند باتیں ذہن میں رکھیں کہ بہترین مقاصد حاصل کرنے کیلئے ماحول کو غیر رسمی اور خوشگوار ہونا چاہیے، لوگوں کو ان کے پہلے نام سے پکاریں، کچھ مزاح کا عنصر بھی باتوں میں شامل ہونا چاہیے، ان کی تخلیقی عمل میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس مقصد کیلئے کسی کانفرنس روم کی بجائے لوگوں سے ان کے گھر پر یا چائے کی میز پر ملاقات کی جائے۔

تخلیق ایک مشکل عمل ہے اور تخلیقی سوچ اُس سے بھی زیادہ مشکل۔ تخلیقی خیالات جدت کی ترجمانی کرتے ہیں جو نئے افکار پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جدت کا ماخذ بھی نئی فکر ہے جو ایک تخلیقی ذہن علوم کی حدود کو پھلانگ کر سوچتا ہے علم تصور کے تعاقب میں مسلسل رہتا ہے اور وہ تصور کو جب پالیتا ہے تو ایک تخلیق سامنے آتی ہے چاہے وہ نظم کی صورت میں ہو یا کسی دریافت کی صورت میں یا ایجادات جیسے ایڈیسن نے بلب ایجاد کیا لیکن ذہن کے اندر خیالات کی جنگ جاری رہتی ہے اور یہ جنگ ایک مسلسل جدوجہد ہے جس پر نہرو جی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان جب معاشرے سے الجھتا ہے تو ادب تخلیق کرتا ہے اور جب خود سے الجھتا ہے تو شاعری۔

تازہ ترین