• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو ٹھیکے پر نہ دیں،حکومت نہیں چلا سکتے تو گھر جائیں،چیف جسٹس

ملک کو ٹھیکے پر نہ دیں،حکومت نہیں چلا سکتے تو گھر جائیں،چیف جسٹس

لاہور(نمائندہ جنگ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب کی کمپنیوں میں بھاری تنخواہوں کا نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ٹھیکے پر نہ دیں،حکومت نہیں چلا سکتے تو گھر جائیں، کسی کو بندر بانٹ کی اجازت نہیں دینگے، ہم عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دینگے۔چیف جسٹس نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں پر بھرتیوں کے از نوٹس کیس میں ریمارکس دیئےکہ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو 2 لاکھ جبکہ اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتالوں میں 12 لاکھ تنخواہ کس قانون کے تحت دی جارہی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نجی میڈیکل کالجز میں اضافی فیسوں کی وصولی کاازخودنوٹس کے دوران حکم دیا ساڑھے8 لاکھ سے زائد فیس طالبعلموں کو واپس کرنے کا حکم دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اسٹرٹیجک مینجمنٹ اینڈ انٹرنل رسپونس یونٹ میں ریٹائرڈ افسروں کی بھاری مراعات پر بھرتیوں کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سیکرٹری ہیلتھ سے استفسار کیا کہ وضاحت دیں کہ محکمہ صحت کے ہوتے ہوئے اس یونٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی کیا محکمہ صحت فیل ہو چکا ہے۔ اسٹرٹیجک مینجمنٹ اینڈ انٹرنل رسپونس یونٹ میں ریٹائئرڈ افسروں کی بھاری مراعات پر بھرتیوں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ ملک میں ٹھیکیداری نظام کو پلنے نہیں دینگے۔ صوبے کا سب سے بڑا افسر چیف سیکرٹری 2لاکھ تنخوا لے رہا ہے ریٹائرڈ افسران ہائیکورٹ کے جج سے زائد تنخوا کس قانون کے تحت لے رہے۔ چیف جسٹس نے اسٹرٹیجک مینجمنٹ اینڈ انٹرنل رسپونس یونٹ میں ریٹائرڈ افسروں اور لیور ٹرانسپلانٹ میں ڈاکٹروں کو دی جانے والی تنخواہوںاور مراعات کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے چیف سیکرٹری سے اسفتسار کیا کہ اس یونٹ مین بھرتی کا طریقہ کا رکیا ہے جس پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے اہلیت پر پورا اترنے والوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اور پھر مارکیٹ ریٹ پر تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور دیگر افسران کی بھاری مراعات اور تنخوائوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔ دوسری جانب چیف جسٹس نے نئے بنائے گئے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں پر بھرتی کیے گئے ڈاکٹروں کابھی نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس نےریمارکس دیئےکہ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو 2 لاکھ جبکہ اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتالوں میں 12 لاکھ تنخواہ کس قانون کے تحت دی جارہی ہے، جس پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو بھاری تنخواہیں دیں ہم ابھی حکم نامہ جاری کرتے ہیں اور ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگا دہتے ہیں۔چیف جسٹس نے ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں ادویات کے نمونے بروقت ٹیسٹ نہ کرنے پر ازخود نوٹس لے لیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ادویات کے نمونوں کو بروقت ٹیسٹ نہ کرنے سے اسپتالوں میں ادویات ہی میسر نہیں ہیں چیف جسٹس نے ڈی ٹی ایل میں ڈاکٹروں کی بھاری تنخوائوں پر ریمارکس دئیے کہ پنجاب کا سب سے بڑا افسر چیف سیکرٹری 2 لاکھ تنخوا لے اور ڈی ٹی ایل کا ڈاکٹر 7 لاکھ ایسا امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ڈرگ ٹیسٹ لیب میں ادویات کے نمونوں کو بروقت ٹیسٹ نہ کرنے پر از خود نوٹس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس ڈی ٹی ایل کے افسر سے استفسار کیا کہ ڈی ٹی ایل میں کتنی ادویات کے نمونوں کو ٹیسٹ نہیں کیاجاسکا جس پر افسر نے بتایا کہ1300 ادویات کے ٹیسٹ نہیں کیے جا سکے جس پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ جن ادویات کے ٹیسٹ نہیں ہوئے اسپتال ان ادویات سے محروم ہیںجبکہ یہی غیر رجسٹررڈ ادویات مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہیں اور ڈاکٹر مریضوں کو یہی ادویات تجویز کر رہے ہیں جنہیں مریض مہنگے داموں کی خریدنے پر مجبور ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی ٹی ایم کے افسر سے استفسار کیا کہ بتائیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے جس پر افسر نے جواب دیا کہ اسکی تنخوا 7 لاکھ روپے ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں آپ کی کتنی تنخواہ ہے۔ چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ انکی تنخواہ دو لاکھ ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ صوبے کا سب سے بڑا افسر 2 لاکھ تنخوا لے اور ڈی ٹی ایم کا افسر 7 لاکھ ایسا امتیازی سلوک نہیں برتنے دینگے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ہائیکورٹ کا جج سات لاکھ تنخوا وصول کرتا ہے کیا یہ ہائیکورٹ کے جج سے بھی زیادہ کام کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب سے استفسار کیا کہ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں سرکاری اسپتالوں کے قابل ڈاکٹروں کو تعینات کیوں نہیں کیا گیا، جس پر چیف سیکرٹری پنجاب نے جواب دیا کہ ان پرائیویٹ سیکٹر میں ریٹائرڈ بیرون ملک خدمات سرانجام دینے والوں کے لیے اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے اور پھر میرٹ پرمارکیٹ ریٹ کے مطابق تنخوا اور مرعات دی جائی ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مجھے معلوم ہے بھرتی کیلئے بندہ پہلے چن لیا جاتا ہے اور اشتہار بعد میں دیا جاتا ہے عدالت کو آگاہ کیا کہ سرکاری اسپتالوں کے پانچ سینئر ترین پروفیسرز کی تنخواہ اڑھائی لاکھ سے زیادہ نہیں، جس پر چیف سیکرٹری پنجاب نے جواب دیا کہ سرکاری ڈاکٹرز پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے تنخواہ مناسب ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ ان سرکاری ٖڈاکٹروں کی تنخواہیں بڑھا دیں میں انکی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی عائد کر دیتا ہوں پھر ایسا کمپیوٹرائزڈ نظام بھی وجود میں لائینگےجس سے ڈاکٹروں کی حاضری اور اوقات کار کو انگوٹھے کے نشان سے یقینی بنایا جائے گا۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب سے ڈی ٹی ایم میں بھاری تنخواہوں پر بھرتی کیے گئے افسران کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ ادھر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پنجاب کی 56کمپنیوں میں بھاری معاوضوں اور مراعات پر بھرتیوں کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس کے استفسار پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ پنجاب حکومت نےپبلک سیکٹر میں 56کمپنیز تشکیل دیں جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا کہ آپ نے سب کچھ پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کررکھا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے اگر آپ سے کام نہیں ہوتا تو حکومت چھوڑ دیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے چیف سیکرٹری پنجاب سے 56کمپنیوں میں افسران کو دی جانیوالی تنخواہ اور مراعات کی تفصیلات طلب کر لیں اور ریمارکس دئیے کہ پنجاب حکومت تیاری کرلے جس دن اس مقدمے کی سماعت سنیں گے اس دن کوئی اور مقدمہ نہیں سنیں گے۔

تازہ ترین