’’خواجہ سرا‘‘… اور نہ جانے کتنے ہی نام ہیں جو ہمارے معاشرے نے اس ’’تیسری صنف‘‘ کو دیئے ہیں، جسے نہ تو ’’اپنے‘‘ قبول کرتے ہیں اور نہ ہی ’’پرائے‘‘… معاشرے کی جانب سے دھتکارا ہوا یہ طبقہ ہمارے اردگرد سانس لے رہا ہے ،جس کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ انہیں صرف ’’سانس‘‘ لینے کا ہی حق حاصل ہے۔ درحقیقت یہ ہمارے معاشرے کا وہ پسا ہوا طبقہ ہے جو مر، مر کے جیتا ہے۔ ان کی ظاہری چمک دمک، چہرے پر میک اپ کی دبیز تہہ، اونچے قہقہے اور زرق برق ملبوسات بھی ان کی ہولناک زندگی کی حقیقت چھپانے سے قاصر ہیں۔
خواجہ سرا پیدائش سے لے کر موت تک جس کرب و اذیت سے گزرتا ہے، اس کا اندازہ لگانے اور اس کا سامنا کرنے کو ہمارا معاشرہ تیار نہیں۔ ہمیں ان کے کرب، تکلیف اور دکھ کا احساس تک نہیں۔ یہ ہماری خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے ہماری دہلیز تک تو آ جاتے ہیں لیکن ہمارے بے رحم رویئے انہیں انسان تک سمجھنا گوارہ نہیں کرتے۔ معاشرے کے خوف اور ذلت و رسوائی کے ڈر سے ان کے ’’اپنے‘‘ ..... والدین وبہن بھائی انہیں اپنانے کو تیار نہیں ہوتے اور انہیں خاندان سے الگ کر دیا جاتا ہے۔
گھر کے دروازے بند ہونے کے ساتھ ان پر تعلیم و روزگار کے دروازے بھی بند کردیے جاتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کا یہ کمزور طبقہ گلی، کوچوں اور شاہراہوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ خواجہ سرائوں کی اکثریت ان تلخ رویوں سے دلبرداشتہ ہو کر اپنی ہی کمیونٹی کا سہارا لیتی ہے اور اپنے جیسوں کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں خواجہ سرائوں کے حقوق اور ان سے احسن برتائو روا رکھنے کے لئے کچھ انسانی حقوق اور خواجہ سرائوں کی تنظیموں نے آواز اٹھانا شروع کی ہے اور کہیں سے کچھ امید کی کرنیں پھوٹنا بھی شروع ہوئی ہیں۔
2012ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے تیسری صنف سے تعلق رکھنے والے افراد کو مساوی شہری قرار دیتے ہوئے انہیں وراثت کی جائیداد میں حصے کا حقدار قرار دیا تھا اور اپنے حکم میں اعلیٰ عدلیہ نے انہیں تعلیم و روزگار کے مساوی مواقعے دینے کا بھی کہا تھا۔
اس سے ایک سال قبل انہیں ووٹ ڈالنے کا حق بھی دیا گیا تھا۔ گزشتہ برس اٹھارہ سال بعد ہونے والی مردم شماری میں پہلی مرتبہ خواجہ سرائوں کو بھی گنتی میں شامل کیا گیا ہے۔ اس مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک میں موجود مخنث افراد کی کل تعداد 10ہزار418ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی پنجاب میں مقیم ہے، تاہم خواجہ سرائوں کی تنظیموں نے مردم شماری کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔
اسی طرح گزشتہ سال جون میں پہلی مرتبہ خواجہ سرا کو پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے کئے گئے یہ اقدامات یقیناً قابل تحسین ہیں،تاہم روّیوں میں بہتری کی گنجائش موجود ہے،بہرکیف، ان کاوشوں کو جاری رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن نے خواجہ سرائوں کے لئے اسکائوٹس میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔
یقیناً یہ ایک پسے ہوئے کمزور طبقے کے لئے بہترین کاوش ہے کہ ان کا اعتماد بحال کرتے ہوئے معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
اس حوالے سے سندھ بوائز اسکائوٹس کے ارکان اور جینڈر انٹر ایکٹو الائنس کی چیئرپرسن بندیا رانا کی سربراہی میں اسکائوٹس میں شمولیت اختیار کرنے والے خواجہ سراؤں کےگروپ سےملاقات کا موقع ملا،جس میں اسکاؤٹس میں خواجہ سراؤں کی شمولیت،اُن کو دی جانے والی سہولتوں اور خواجہ سرا کیڈٹس کے مثبت ردعمل کے حوالے سے بات چیت کی گئی، اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن کے صوبائی سیکرٹری اختر میر کا کہناتھاکہ،’’ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہم نے اس کمزور کمیونٹی کو ملک کی خدمت اور معاشرے میں مقام و اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اسکائوٹس کے لئے عموماً یہ ہوتا ہے کہ کم از کم چھ برس کی عمر کے بچے اسکائوٹس میں لئے جاتے ہیں۔
ہم تین گروپ بناتے ہیں۔ چھ سے گیارہ سال کی عمر کے کیڈٹس جنہیں ’’شاہین بچے‘‘ کہا جاتا ہے، ان کی ٹریننگ زیادہ سخت نہیں ہوتی۔ دوسرے گروپ میں گیارہ سے سترہ سال تک کی عمر کے طلبہ ہوتے ہیں جن کی ٹریننگ معمول کے مطابق ہوتی ہے اور انہیں ہم کڑے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے ٹریننگ دیتے ہیں۔ تیسرا گروپ سترہ سال سے پچیس سال کے کیڈٹس کا ہوتا ہے، وہ ’’اسکائوٹس‘‘ کہلاتے ہیں۔
چونکہ یہ نوجوان ہوتے ہیں لہٰذا یہ مکمل تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور ایمرجنسی کی صورت میں اول دستے میں شامل ہوتے ہیں۔ جہاں تک خواجہ سرائوں کی شمولیت کا تعلق ہے اس حوالے سے ہم نے انہیں تربیت کے تمام اصول بھی بتا دیئے ہیں۔
کراچی میں ہمارے ادارے کی طرف سے تقریباً40خواتین کیڈٹس ٹرینر ہیں جو خواجہ سرائوں کو اسکائوٹنگ کی تربیت دیں گی۔ پہلا دستہ18کیڈٹس کا ہوتا ہے لہٰذا خواجہ سرائوں کے لئے بھی یہی اصول ہو گا۔ جب ہماری خواجہ سرائوں کے ایک دستے سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے سب سے پہلے ہم سے یہ کہا کہ ہم پڑھنا چاہتے ہیں،اُن کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے،جو کہ ضرورت بھی ہے،ہم نے تعلیم بالغاں کی کلاسوں کا بھی اہتمام کیا ہے۔ یہ باصلاحیت ہیں اگر انہیں مناسب تعلیم اور روزگار دیا جائے تو یہ بھی معاشرے کا کامیاب فرد بن سکتے ہیں۔
انہیں مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں تیس سال سے زیادہ عمر کے کیڈٹس کا بھی گروپ ہے جنہیں ہم لیڈر کہتے ہیں۔ اس گروپ میں بھی خواجہ سرا کیڈٹس کے لئے کافی جگہ ہے کیونکہ اس عمر کے خواجہ سرائوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہم نے انہیں کہا ہےکہ ہمارے کیمپوں کا دورہ کریں، ہم انہیں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت کے ساتھ خوراک بھی فراہم کریں گے۔
دنیابھر میں بوائز اسکائوٹ ایسوسی ایشن کا یہ تصور ہے کہ یہ لڑکوں یا طالب علموں کی آرگنائزیشن ہے۔ اسی طرح لڑکیوں یعنی طالبات کی آرگنائزیشن ، گرلز گائیڈ ہے جوپاکستان میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ آج کل لڑکیاں جہاز اڑا رہی ہیں، ہر میدان میں سرگرم ہیں لہٰذا ہم نے ایشیا پیسفک ریجن میں جتنے بھی ممالک ہیں، ان میں گرلز گائیڈ کو متعارف کرایا ہے۔ اسکائوٹنگ میں لڑکیاں خاصی تعداد میں ہیں اب جب ہم خواجہ سرائوں کو معاشرے میں دیکھتے ہیں تو یہ ہمیں کہیں سگنلز پر کھڑے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، کہیں گاتے بجاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور فعال کردار ادا کر سکتے ہیں لہٰذا ہم نے یہ سوچا کہ انہیں بھی اپنی صف میں شامل کیا جائے۔ کیا ان کا دل نہیں چاہتا ہوگا کہ یہ ایمرجنسی کی صورت میں رسپانس کریں، آگ بجھائیں، لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھیں لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب یہ کمیونٹی کام کرنا سیکھے گی لہٰذا ہم نے ان کی تنظیم کی سربراہ بندیا رانا سے بات کی جس کا انہوں نے بہت مثبت ردعمل دیا ہے‘‘۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جینڈر انٹر ایکٹو الائنس کی سربراہ بندیا رانا نے کہا کہ ’’مجھے بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا سب سے نظرانداز کیا جانے والا طبقہ خواجہ سرا کا ہے۔ ہمیں لوگ بھیک دینا تو پسند کرتے ہیں لیکن روزگار دینا نہیں چاہتے۔ ہمارا مذاق بنا کر دھتکار دیا جاتا ہے۔
کیا خواجہ سرا انسان نہیں ہیں؟ کیا ہمارا دل نہیں چاہتا کہ ہم بھی کسی کے زخم پر مرہم رکھیں، کسی کی جان بچائیں، تعلیم حاصل کر کے باعزت روزگار حاصل کریں۔ بدقسمتی سے ہمیں کسی نے نہیں اپنایا۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے ہیں۔ ہم اپنی کمیونٹی میں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔
میں خواجہ سرا کمیونٹی کے لئے گزشتہ30برس سے رضاکارانہ طور پر کام کر رہی ہوں۔ نہ ہم نے کبھی حکومت سے کچھ مانگا، نہ ہمیں کوئی سپورٹ ملی۔ خواجہ سرائوں کی جانوں کو خطرہ ہوتا ہے، ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوتے ہیں لیکن انہیں اسپتال میں لے کر جائو تو ڈاکٹر تک علاج سے منع کر دیتے ہیں، ان کے لئے اسپتال میں بستر تک دستیاب نہیں ہوتے۔
ہمارا بھی دل چاہتا ہے لوگوں کے کام آئیں۔ نہ تو ہم نے ملکی دولت لوٹی ہے، نہ ہی آپ کو کوئی خواجہ سرا جرائم میں ملوث دکھائی دے گا اور نہ ہی دہشت گردی میں ملوث نظر آئے گا۔ یعنی ہم امن پسند لوگ ہیں، ملک میں کہیں بھی کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، ہم بلاتفریق اس کے لئے باہر آتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، لیکن ہمارے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔
میں سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن کی شکرگزار ہوں کہ اس تنظیم نے ہمیں آگے آنے اور معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع دیا ہے۔
یہ ایک معزز ادارہ ہے جس نے ہمیں عزت بخشی۔ اس خدمت سے کون انکار کرے گا۔ ہم بھی وطن اور عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس وطن کے لئے جان کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اسکائوٹ میں شمولیت کے لئے ہم نے کم عمر اور نوجوان خواجہ سرائوں کے18ارکان کا ایک گروپ بنایا ہے، جنہیں اسکائوٹنگ کی تربیت دی جائے گی اس کے علاوہ بھی ملک بھر سے ہم خواجہ سرائوں سے رابطے میں ہیں جو اسکائوٹنگ کے لئے اندراج کرانا چاہتے ہیں۔ میری گزارش ہو گی کہ عمر کی پابندیوں میں نرمی کی جائے تاکہ بڑی عمر کے خواجہ سرا جن کی تعداد بھی زیادہ ہے، وہ بھی اس کارخیر میں حصہ لے سکیں‘‘۔
سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن کے لاء کمشنر پروفیسر معین اظہر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ خواجہ سرا پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کے حقوق ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کے حقوق کو مانا ہے۔ قانونی لحاظ سے خواجہ سرائوں کا اسکائوٹنگ میں شمولیت اختیار کرنا درست ہے۔
اس کمیونٹی کو فعال کرنے کے لئے سب سے پہلے انہیں تعلیم یافتہ کرنا ہو گا۔ ان پر تعلیم کے دروازے بند نہیں ہیں۔ کم از کم میٹرک کے مساوی تعلیم ضرور حاصل کریں۔ پاکستان کے میونسپل لاء میں خواجہ سرائوں کے تمام حقوق محفوظ ہیں۔
انہیں ملازمت کرنے کا بھی حق حاصل ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خواجہ سرائوں کو خود اپنے حقوق سے آگاہی نہیں ہے۔ خواجہ سرائوں کی تنظیم نے انہیں تعلیم یافتہ کرنے کے لئے کبھی کوئی اسکول نہیں کھولا لہٰذا اس کمیونٹی کو خود آگے آنا ہو گا۔
سول سوسائٹی اور عوام کی سپورٹ ضرور ملے گی۔ ہم آپ کو تعلیم دینا چاہتے ہیں لہٰذا آپ کو بھی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے تعلیم اور مدرسے کے تقدس کا خیال رکھنا ہو گا کیونکہ ہم آپ کو ان مدارس میں تعلیم دیں گے جہاں لڑکے لڑکیاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر ان کی طرف سے آپ کو مذاق کا نشانہ بھی بنایا جائے تو آپ کو برداشت سے کام لینا ہو گا۔
تبدیلی آہستہ آہستہ آتی ہے۔ ناموافق حالات دیکھ کر پیچھے نہیں ہٹا جاتا، مقابلہ کیا جاتا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ آپ اسکائوٹ کا حصہ بن کر بلاتفریق قوم کی خدمت کریں گے‘‘۔
سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن کے کمشنر آئی پی سی عاطف امین نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ’’معاشرے میں تفریق دور کرنے کے لئے خواجہ سرائوں کو اسکائوٹ میں شامل کرنا ایک تاریخی مثال ہے۔
ہمیں امتیاز ختم کرنا ہو گا۔ کچھ دن قبل ہمارا ہاشمانی اسپتال سے ایک معاہدہ بھی ہوا ہے جس کے تحت ہم اسپتال میں خواجہ سرائوں کے لئے ایک علیحدہ وارڈ کاانتظام کروائیں گے تاکہ وہاں انہیں علاج معالجے کی بہتر سہولتیں میسر آ سکیں۔ اسی طرح ہم انہیں تعلیم کے ساتھ ہنر سکھا کر روزگار کے حصول میں بھی مدد دیں گے‘‘۔
ملاقات میں موجود 18 خواجہ سرا ،جن میں صنم،صالحہ ،فرح ،رانی اور دیگرکیڈٹس شامل تھیں،انہوں نے فرداً فرداً اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن کی کاوش کو سراہا،اُن کاکہنا تھا کہ ہمیں آج اپنی اہمیت کا احساس ہورہا ہے۔ہم انسانیت کی خدمت کے لیے اس جانب آئے ہیں،ہم میں حوصلہ اور جذبہ اُتنا ہی ہے جس قدر کسی مرد یا عورت اسکاؤٹس کیڈٹس میں ہوتا ہے۔
آخر میں سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن کے صوبائی سیکریٹری اختر میر نے 18 خواجہ سرا کیڈٹس سے حلف لیا۔
18رکنی خواجہ سرا اسکاؤٹس گروپ میں شامل نِشا راؤ نے گفت گو کرتے ہوئے بتایا کہ،’’میرا تعلق لاہور سے ہے، میری فیملی لاہور میں ہی مقیم ہے۔ میں میٹرک تک اپنی فیملی کے ساتھ رہی۔ مجھے میرے خاندان میں ہی تنہا کر دیا گیا تھا لہٰذا میں نے والدین کا گھر چھوڑ دیا اور بندیا رانا کے فلاحی ادارے میں بقیہ زندگی گزارنے کا سوچا۔ یہاں آ کر میں نے تعلیم جاری رکھی، میں نے وکیل بننے کا خواب دیکھا تھا۔ مجھے بچپن سے ہی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا ،جو میں نے اب پورا کیا ہے۔
میں نے کراچی یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا ہے اور ایس ایم لاء کالج سے ایل ایل بی کیا ہے۔ تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں بہت آئیں لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری، میرے لئے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنا آسان نہ تھا، کلاس میں ٹیچر سے سوال کرنا بھی میرے لئے دشوار تھا، میرے کلاس فیلوز مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے اور مذاق اڑاتے،میں نے اپنا دھیان پڑھائی پر رکھااور سب سے بات چیت ہی کم کر دی ۔
ماسٹرز کرنے کے بعد جب میں نے قانون پڑھنا چاہا تو مجھے فیس جمع کرانے کا مسئلہ ہوا تاہم میرا تعلیمی ریکارڈ دیکھ کر مجھے لاء کالج سے اسکالر شپ مل گئی۔ اس طرح میں ایل ایل بی مکمل کر سکی۔ میرے والدین، بہن، بھائی تعلیم یافتہ ہیں، وہ لوگ سمجھتے تھے کہ میں پڑھ نہیں سکوں گی، انہوں نے مجھ سے رابطہ توڑ لیا تھا لیکن اب میں روز اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے فون پر بات کرتی ہوں۔ گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں شرکت کے لیے لاہور جانا ہوا تو میں نے اپنے والدین کے گھر پر قیام کیا تھا۔
اب انہوں نے مجھے قبول کر لیا ہے، اب میں خود کو مکمل سمجھتی ہوں، میں تعلیم یافتہ ہوں اور کسی سے کم نہیں۔ میرا قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق اسی لئے تھا کہ میں اپنی کمیونٹی کی آواز بننا چاہتی ہوں۔