• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیچر: خبردار! جاسوس خواتین آرہی ہیں

گزشتہ دنوں یہ خبر ذرایع ابلاغ کی زینت بنی تھی کہ کراچی کی پولیس نے بعض جرائم پر قابو پانے کے لیے خواتین اہل کاروں سے بھی انٹیلی جینس کی ڈیوٹی لینے کا فیصلہ کیا ہے۔خبر کے مطابق یہ قدم شہر میں سرگرم خواتین منشیا ت فروشوں کا نیٹ ورک کم زور کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ شہر کے تعلیمی اداروں کے ساتھ دیگر مقامات پر منشیات فروشی میں خواتین کے ملوث ہونے کے انکشاف کے بعد پولیس کے لیے خواتین منشیات فر و شو ں کی سرکوبی چیلنج بن گئی ہے۔ محکمہ پولیس،کراچی کے ایک افسر کے بہ قول شہر کے تعلیمی اداروں بالخصوص پوش علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو منشیات کی فراہمی میں خواتین کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔ 

اس طرح کے نیٹ ورکس بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں جن کی سرکوبی کے لیے خواتین اہل کاروں کو انٹیلی جنس ڈیوٹیز کے لیے استعمال کیا جائے گا۔یعنی اب پولیس کی خواتین اہل کار اپنے محکمے کے لیے جرائم پیشہ افراد کی جاسوسی کریں گی۔کراچی کی پولیس نے اگرچہ اب یہ فیصلہ کیاہے ،لیکن بہت سے ممالک میں خواتین طویل عرصے سے اس نوعیت کے کام میں مصروف ہیں اور وہ سویلین اور عسکری اداروں کے لیے بڑی بڑی مہمات سر کرچکی ہیں ۔

جاسوسی کی تاریخ

جاسوسی کی تاریخ چوتھی صدی قبل مسیح میں چینی ماہر ’’ین زو‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ قدیم یونان میں ہنی بال نے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے اسے ہتھیار کے طو رپر استعمال کیا۔ چنگیزخان نے اسے سائنس کا درجہ دیا اور ہر 25 میل کے فاصلے پر جاسوسی کےلیے ’’پونی‘‘ کے نام سے چوکی قائم کی تھی۔ (انیسویں صدی کی امریکی جاسوس ایجنسی کو پونی ایکسپریس کا نام اسی مناسبت سے دیا گیاتھا)۔ 

1640ء میں اولیور کرام ویل نے اپنے باد شا ہ چارلس اوّل کو شکست اسی بنا پر دی کہ اُس کا جاسوسی کا نظام بہت مستحکم تھا۔ کرام ویل نے سرسیمول لیوک نامی جاسوس کواس شعبے کا سربراہ بنایا جو دشمن کے کھانے پینے، سونے جاگنے حتیٰ کہ سرگوشیوں تک کا ریکارڈ رکھتا تھا۔ 1685ء میں مون ماوتھ نامی جرنیل کو دشمن کی فوج کے بارے میں ساری معلومات مل گئی تھیں۔ 

وہ شب خون مارنے آیا،لیکن جاسوس اُسے دشمن کی فوج کے گردکُھدی ہوئی خندق کی گہرائی نہ بتاسکا۔ انجامِ کار دشمن کی فوج نیند سے بے دا رہوئی اور خندق کے گرد منڈلاتے ہوئے مون ماوتھ کے لشکر کو ختم کردیا۔ مون ماوتھ کو اپنے سر کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی۔

انگلستان اور اسپین کی جنگ میں اسپین کے بحری بیڑے کی ساری معلومات ایک جاسوس، واسنگ ہیم نے برطانیہ کو دیں۔ یوں اسپین کو اپنی زبردست جنگی طاقت کے باوجود عبرت ناک شکست ہوئی۔ برطانیہ کے پاس معلومات تھیں کہ 152 بحری جہاز کس تاریخ کو میڈرڈ سے روانہ ہوں گے ، دشمن کے پاس کتنا اسلحہ اور بارود ہوگا اور مارچ 1587ء کی کون سی تاریخ کو یہ بیڑا روانہ ہوگا؟ چناں چہ برطانیہ نے پورے یو ر پ میں افواہ پھیلادی کہ جوتشیوں نے زبردست طوفان کی پیش گوئی کی ہے۔ اسپین اپنے سارے بحری جہاز کھودے گا۔ 

مہینوں کے سفر کے بعد جب اسپین کا بحری بیڑا لندن کے قریب پہنچا تو طوفان کے اندیشوں نے اسے مکمل طور پر نڈھال کردیا تھا۔ برطانیہ نے قلیل سپاہ کے ساتھ اسپین کو شکست دے دی۔ اسی طرح برطانوی سیکرٹ سروس کے ایک اہم ایجنٹ بوتھر نے ملک کو 11 بڑے اضلاع میں تقسیم کیا۔ ہر ضلعے کی کمان ایک میجر جنرل کے ہاتھ میںتھی۔وہ ملک کے ہر حصے میں آئے ہوئے دشمن کے جاسوسوں کو پکڑتے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں قتل کردیتےتھے۔

یورپی جاسوسوں میں کارل شمسٹر فرانس کا سب سے بڑا جاسوس مانا جاتاہے۔ اسے نپولین بوناپارٹ نے آ سٹریا بھیجاتھا۔ وہ اپنی شاطرانہ چالوں اور ذہانت سے دشمن ملک میں ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ بن گیا۔چناں چہ آسٹریا کا سارا دفاعی نظام تہس نہس ہوگیا اور اپنی بے مثل حربی صلاحیت کے باوجود اُسے عبرت ناک شکست ہو ئی۔ 

دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ نے ورنون کیل نامی جاسوس کو جرمنی بھیجاتھاجس نے ہٹلر کی شکست میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ورنون کیل نے معلومات حاصل کیں کہ لندن میں ایک جرمن حجام کی دکان برطانیہ کے راز چوری کرنے والے جاسوسوں کا مرکزہے۔ 

مسلسل نگرانی کے بعد ان جاسوسوں کو گم راہ کن معلومات فراہم کرنے کا نظا م بنایا گیا۔ ان معلومات پر بھروسا کرتے ہوئے ہٹلر نے پیش قدمی کی اور شکست کھائی ۔روسی جاسوس ریلی کے جی بی کا سب سے بڑا سراغ رساں سمجھا جاتاتھا۔ وہ خطرات کے جنگلوں سے بے دھڑک گزرتا رہا۔خواتین میں اس کی دل چسپی اُسے موت کے منہ میںلے گئی۔

کے جی بی میں اسے ایک بڑی مثال کے طور پر نئے آنے والے جا سو سو ں کو سبق دیا جاتا ہے۔ کم خلبی اور لارنس آف عریبیا نے اسلامی ممالک میں برسوں بہت کام یابی سے جاسوسی کی۔ انتھونی بلنٹ کا تعلق روس سے تھا،وہ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کے بہت قریب پہنچ گیا تھا اوراس نے برطانیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ 

روڈولف ہیز، گریٹا گاربو، میجر ما ر ٹن،ایرک ایرکسن، ڈاکٹر ایلن نن لے، ایمل کلاس، جولیس فیوکس، جارج بلیک، ولیم جان، کرسٹوفرویسل، رابرٹ لی جانسن، گیلولی، رین ہارڈ ہائیڈ رخ، بوگڈان ستاشسکی، ہرمین لڈکے، رابرٹ ناٹریک یورپ کے مشہور ترین یا بدنام ترین جاسوس گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں کافی تفصیلات World Greatest Spies and Spymasters کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں میں موجود ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس شعبے میں خواتین کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی بہت سی خواتین کام کرتی رہی ہیں اور اب بھی کرررہی ہیں۔جاسوسی کی دنیا میں گرٹروڈ بیل،بیلی بائیڈ،ماتاہری،نورالنساء،نینسی وی ک،پالن کشمین،ہیریئٹ ٹبمین وغیرہ نے بھی بہت نام کمایا ہے۔

نام ورجاسوس خواتین

(1)گرٹروڈبیل لوتھیان بیل14جولا‎ئی 1868 کوبر طانیہ کی کا ؤ نٹی ڈرہم میںپیدا اور12 جولا‎ئی 1926کو دنیا سے رخصت ہوئی۔وہ انگریز مصنف، سیا ح، سیاسی ا فسر، ماہر آثار قدیمہ اور جاسوسہ تھی۔ اپنی صلا حیتوں اور تعلقات کی بنا پراس نے اپنے عہد کے شاہی خاندان اور اشرافیہ میں انتہائی اثر و رسوخ حاصل کرلیاتھا۔ گرٹروڈ بیل 1914ء میں عراق پہنچی اور جنگ عظیم اول کے بعد مشرق وسطی کے عرب قبائل اور ان کے سربراہان سے تعلقات اور اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے مو جودہ عراق کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ 

بیل اپنے معاصر اہل عراق کے درمیان ’’خاتون‘‘ کے لقب سے معروف تھی۔ اس نے لارنس آف عریبیاکے ساتھ مل کر اردن کے ہاشمی خا ند ان کی طاقت بڑھانے میں اس کی بہت مدد کی۔ نیز عرب دنیا کے نقشے پر موجود بعض دیگر ممالک بھی اس کی کوششوں کا نتیجہ سمجھے جاتے ہیں۔

گرٹروڈ بیل اور لارنس آف عریبیا نے مملکت عراق کے لیے ایک مجلس تاسیسی کے قیام کی تجویز پیش کی تھی تا کہ امیر فیصل بن حسین کو شاہ عراق بنایا جاسکے۔ بیل کا ایک اور کارنامہ عراقی میوزیم کا قیام تھا۔ اس میوزیم میں بیل کے دریافت کردہ آثار قدیمہ کے ساتھ دیگر قدیم عراقی،بابل کے آثار قدیمہ اور مخطوطات وتحائف بھی موجود تھے۔تاہم ان میں سے اکثر 2003ء کی عراق جنگ میں تباہ ہو گئے یا چرا لیے گئے۔ان چوری کیے گئے آثار میں سے کچھ کو 2006ء کے بعد واپس حاصل کرکے میوزیم میں رکھا گیاہے۔

بیل کی موت زیادہ خواب آور گولیاں کھانے سے ہوئی تھی۔اس کا یہ عمل خودکشی کے ارادے سے تھا یا نہیں، اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ وہ اپنی ملازمہ کو مقررہ وقت پر جگانے کا کہہ کر سوئی تھی۔ اس کی آخری رسومات میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی،جن میں برطانوی افسران اور خود شاہ فیصل بن حسین بھی شامل تھے۔بغداد کے وسط میں واقع محلہ باب المعظم کے برطانوی قبرستان میں اس کی تدفین ہوئی تھی۔

(2)بیلی بائیڈ،ورجینیا ،امریکا میں 9 مئی 1844 کو پید ا اور11 جون 1900 کو دنیا سے ر خصت ہوئی ۔اس نے امریکاکی خانہ جنگی کے دوران کنفیڈریشن کی حامی قو تو ں کے لیےجاسوس کا کردار اداکیاتھا۔ وہ بنیادی طورپر اداکارہ تھی۔اس حسین، ذہین اور چالاک امریکی جاسوسہ نے اتحادی قوتوں کے خلاف زبردست انداز میں جاسوسی کی تھی۔

(3)ماتا ہری ،ولندیزی انڈونیشی، مخلوط النسل رقاصہ اور جاسوس تھی جس کا اصل نام مارگریتھا جیرٹ روئی ڈازیلےتھا۔وہ 1876 ء میںپیداہوئی اور1917 ءمیںاس نے د نیا سے رختِ سفر باندھا۔ بنیادی طور پر وہ جرمنی کی جاسوسہ تھی، لیکن نہایت چالاکی سے وہ دونوں ا طراف،یعنی فرانس اور جرمنی کی جاسوسی دونوں دشمن مما لک کے لیے کرنے لگی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس نے فرانسیسی اور اتحادیوں کے اہم جنگی راز جرمنوں تک پہنچائے۔ 

بعد میں فرانسیسیوں کو اس کی اصلیت معلوم ہو ئی تو انہوں نے اسے ہلاک کر دیا۔وہ جب اپنا لبادہ کھول دیتی تو اس سے فرانسیسی افواج کو یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوج فرانس پر ٹینکوں سے حملہ کرنے والی ہے اور اگر وہ جسم پر سے کوئی کپڑا اتار کر ہوا میں بلند کر دیتی تو اس سے یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوجیں ہوائی حملہ کرنے والی ہیں۔ماتا ہری، ملائی زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے جس کا مطلب ہے، دن کی آنکھ۔اس کے بارے میں حیران کن بات یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر عام ولندیزی گھریلو خاتون تھی جسے پہلے جاسوسی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔

(4)نور النساء عنایت خان المعروف نورعنایت خان کی پیدائش یکم جنوری 1914 کو ماسکو،روس میں ہوئی اور13 ستمبر 1944 کو اسے جرمنی میں گسٹاپو کے ا ہل کاروں نے ہلاک کردیا تھا۔وہ تقسیم سے قبل کے بھا ر ت کی،یعنی اصلاً بر طانوی خفیہ جاسوس تھی جس نے دو سر ی جنگ عظیم میں بر طا نیہ کے لیے جاسوسی کی تھی۔

برطانیہ کے اسپیشل آپریشنز ایگزیکٹیوکے طورپرتربیت یافتہ نور عنا یت خان دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس کے نازی دائرہ اختیار میں جانے والی پہلی خاتون وائرلیس آپریٹر تھی۔ وہ فرانس میں ایک خفیہ مہم کے تحت نرس کا کام کرتی تھی۔ 

جرمنی کی طرف سے گرفتار کیے جانے کے بعد 10 ماہ تک اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ لیکن پوچھ گچھ کرنے والی نازی جرمنی کی خفیہ پولیس گسٹاپو اس سے کوئی راز نہیں اگلواسکی۔آخر کار اسے گولی مار کرہلاک کر دیا گیا۔ 

نورعنایت خان کی قربانی اور جرات کی کہانی برطانیہ اور فرانس میں آج بھی مقبول ہے۔ اس کی خدمات کے اعتراف میں اسے برطانیہ کے سب سے بڑے شہری اعزاز جارج کراس سے نوازا گیا۔ اس کی یاد میں لندن کے گورڈن اسکوائر میں یادگار بنائی گئی، جو انگلستان میں کسی مسلمان کے لیے وقف اور کسی ایشیائی خاتون کے اعزاز میں پہلی یادگار ہے۔

وہ چار بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔اس کے والد عنایت خان اٹھارہویں صدی میںسلطنت خد ا د ا د ،ریاست میسورکے حکم راں،ٹیپو سلطان کے پڑپوتے تھے۔ وہ صُوفی منش انسان تھےجنہوں نے برصغیر کے تصو ف کو مغربی ممالک تک پہنچایا۔ وہ خاندان کے ساتھ پہلے لندن اور پھر پیرس میں بس گئے تھے۔ 

نور النساء کی ماں نو مسلم امریکی خاتون تھی۔ نور موسیقار بھی تھی اور اس نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں جو کتابی صورت میں شایع ہوئیں۔ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد یہ خاندان ماسکو سے لندن چلا گیا تھا، جہاں نور کا بچپن گزرا۔ 1920ء میں وہ فرانس چلی گئی،جہاں وہ پیرس کے قریب سریسنیس کے ایک گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے لگی جو اس کے والد کو صوفی تحریک کے ایک پیروکار کی طرف سےتحفے میں ملا تھا۔ 

نورالنساء اپنے خیالات میں گُم رہنے اور طلسمی کہانیاں پڑھنے والی بچّی تھی۔ لیکن 1927ء میں جب وہ صرف تیرہ برس کی تھی تو والد کا انتقال ہو گیا اور والدہ اس صدمے سے مستقلاً سکتے میں آگئیں۔ والد کی موت کے بعدچار بچّوں میں سب سے بڑی ہونے کے سبب سا ر ے خاندان کی ذمے مہ داری نورکے ناتواں کاندھوں پر آن پڑی تھی جسے موسیقی کے ذریعے معاش کا بندوبست کرنا پڑا اور وہ پیانو کی دھن پر صوفی موسیقی کو فروغ دینے اورنظمیں اوربچوں کی کہانیاں لکھ کر اپنا مستقبل سنوارنے لگی۔اس کےساتھ وہ فرانسیسی ریڈیو پر باقاعدہ شراکت بھی دینے لگی۔

دوسری جنگ عظیم چھڑ نے کے بعد، فرانس اور جرمنی کی جنگ کے دوران وہ 22 جون 1940ء کو اپنے خاندان کے ساتھ سمندری راستے سے برطانیہ کے علاقے فالماؤتھ، کارن وال لوٹ گئی۔1940ء میں جب جر منو ں نے فرانس پر قبضہ کیا تو نورالنساء کا سماجی اور سیاسی شعور پختہ ہوچکا تھا۔ اپنے والد کی امن کی تعلیم سے متاثر نور کو نازیوں کے ظلم سے گہرا صدمہ پہنچا اور نازی جرمنی کے خلاف اس کے دماغ میں نظریاتی ابال آ گیا۔ 

وہ سمجھتی تھی کہ اب والد صاحب کی طرح محض عدم تشدد پہ یقین رکھنے اور صوفیانہ موسیقی میں گم رہنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ حالات بہ راہِ راست عملی اقدام کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اس نے اپنے بھائی ولایت کے ساتھ مل کر نازی ظلم کو کچلنے کا فیصلہ کیا۔ نور کو بچپن ہی سے ریڈیو پر بچّوں کو کہانیاں سنانے کا شوق تھا اور وہ ریڈیو اور وائرلیس کی تیکنیک سے قدرے شناساتھی۔

چناں چہ جرمنوں کے خلاف تحریکِ مزاحمت میں اُس نے خفیہ پیغام رسانی کا میدان چُنا۔ 19 نومبر 1940ء کو وہ خواتین کے ضمنی ایئر فورس WAAF میں کلاس 2 ایئر کرافٹ افسر کے طور پر شامل ہوئی۔اسے وائرلیس آپریٹرکے طور پر تربیت حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نور عنایت خان جرمنوں کے خلاف کام کرنے والی اولین خاتون ریڈیو آپریٹر تھی۔ 

جون 1941ء میں اسے Raf بم بار کمان میںاسسٹنٹ سیکشن افسر کے طور پرترقی ملی۔ وہ اپنے تین خفیہ نام بالترتیب ’’نورا بیکر‘‘،’’میڈلین‘‘ اور ’’جین مری رینيا‘‘سے بھی جانی جاتی ہے۔

بعد میں نور کو اسپیشل آپریشنز ایگزیکٹو کے طور پر ایف (فرانس) سیکشن میں شمولیت کے لیے بھرتی کیا گیا اور فروری 1943ء میں اسے فضائیہ کی وزارت میں تعینات کیا گیا۔ فرانسیسی زبان کی اچھی معلومات ہونےاور بولنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسپیشل آپریشنز گروپ کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی۔ 

16-17 جون 1943ءکو اسےجاسوسی کے لیے ریڈیو آپریٹر بناکر فرا نس بھیج دیا گیا۔ اس کا کوڈ نام ’’میڈلین‘‘ رکھا گیا۔ وہ بھیس بدل کر مختلف مقامات سے پیغامات بھیجتی رہی ۔ اس نے دو دیگر خواتین بالترتیب ڈیانا راڈین (خفیہ کوڈ نام: پاؤلیٹ/ چیپلین) اور سسیلی لیفورٹ (خفیہ کوڈ نام: ایلیس / ٹیچر ) کے ساتھ فرانس کا سفر کیا، جہاں وہ فرانسس ستتيل (خفیہ کوڈ نام: پروسپر) کی قیادت میں ایک نرس کے طور پر فزیشن نیٹ ورک میں شامل ہو گئی۔ ڈیڑھ ماہ بعد ہی اس نیٹ ورک سے منسلک ریڈیو آپریٹرز کو جرمنی کی سکیورٹی سروس (ایس ڈی)نے گر فتا ر کر لیا۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں پہلی ایشین خفیہ ایجنٹ تھی۔ ایک کامریڈ گرل نے جلن کے مارے اس کی مخبری کی تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران نور ونسٹن چرچل کے قابل اعتماد لوگوں میں سے ایک تھی۔اس نے پیرس میں تین ماہ سے زیادہ عرسے تک کام یابی سے اپنا خفیہ نیٹ ورک چلایا اور نازیوں کی معلومات برطانیہ تک پہنچائیں۔ پیرس میں 13 اکتوبر 1943ء کو اسے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ 

اس پر قید کے دوران خطرناک قیدی کے طور پر تشدد کیا جاتا رہا۔اس دوران اس نے دو بار جیل سے فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن وہ کم یاب نہ ہوسکیں۔ گسٹاپونے اس سے خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن انہیں کام یابی نہیں ملی۔اسے دس ماہ تک سخت سزائیں دی گئیںپھر بھی جرمن فوجی اس کا اصلی نام تک نہیں جان پائے۔ بالآخراسے گولی مار کرہلاک کردیا گیا۔

نور کو اپنے جدِ امجد ٹیپو سلطان سے وا لہانہ عقیدت تھی اور اُن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس نے ہندوستان کو ا نگریزوں کی عمل داری سے پاک کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ جب خفیہ سروس میں بھرتی کے لیے انٹرویو ہوا تو نور عنایت نے انگریز افسر سے صاف صاف کہہ دیاتھا کہ فی الحال ہمارے سامنے مشترکہ دشمن، نازی جرمنی کی شکل میں مو جو دہے، لیکن نازی ازم کا خاتمہ ہوتے ہی میں آزادیِ ہند کے لیے انگریزوں کے خلاف برسرِپیکارہوجاؤں گی ۔ موت سے قبل اس کے منہ سے آخری لفظ ’’آزادی‘‘نکلا تھا۔

نرم و نازک خدوخال، گہری سیاہ آنکھوں اور دھیمے لہجے والی اس حسین و جمیل خاتون کی زندگی نے کئی قلم کا ر و ں کو اپنی جانب مائل کیا۔اس کی زندگی پر عالمی شہرت کے حامل دو ناول تحریر کیے جا چکے ہیں۔نورالنساء کی داستانِ حیات پر کافی عرصے تک اسرار کا دبیز پردہ پڑا رہا ہے جس نے بے شمار افواہوں کو بھی جنم دیا، لیکن شربانی باسُو کی کتاب ’’جاسوس شہزادی‘‘ (Spy Princess) نے دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کر دیا۔

(5)نینسی گریس آگسٹا ویک (Nancy Grace Augusta Wake) نے دوسری جنگ عظیم کے آخری ایّام میںبرطانوی جاسوس کے طور پر خد مات انجام دیں۔وہ 30اگست 1912کو و یلنگٹن ، نیو ز ی لینڈ میں پیدا ہوئی اور 7اگست2011کو اس نے ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ دی۔اس نے گھر سے بھاگ کر عملی زندگی کا آغاز نرس کی حیثیت سے کیا اور پھر صحافت کے شعبے میں جاپہنچی۔جنگ عظیم دوم کے آغازکے وقت وہ مارسیلز میں اپنے فرانسیسی صنعت کار شوہر کے ساتھ پر تعیش زندگی گزار رہی تھی۔

جنگ شروع ہونے کے بعد وہ جرمنی کے خلاف فرانسیسیوں کی مزاحمتی تحریک کا حصہ بن گئی ۔ 1940میںفرانس پر جرمنی کا قبضہ ہونے کے بعد وہ مزاحمتی تحریک کی پیغام رساں بن گئی ۔1943تک وہ گسٹاپو کو مطلوب افراد میں سرفہرست آچکی تھی۔انہوں نے اس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ فرانک مقررکی تھی۔

ان حالات میں اس کے لیے فرانس میں مزید قیام کرنا نہایت مشکل ہوچکا تھا۔لہذا وہ برطانیہ چلی گئی جہاں اس نے اسپیشل آپریشنز ایگزیکٹیو میں شمولیت اختیار کرلی۔یکم مارچ 1944کو اسے مقبوضہ فرانس میں پیرا شوٹ کے ذریعے ایک مقام پر اتارا گیا۔اس کا کام لندن اور مقامی مزاحمت کاروں کے درمیان پُل کا کردار اداکرنا تھا۔

وہ وہاں فرانس کی آزادی تک لڑتی رہی۔اس دوران اس کے سات ہزار سے زاید مزاحمت کار اس کی مدد اور رہنمائی سے جرمنوں کے خلاف مختلف محاذوں پر برسرپیکار رہے۔ اس کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اسے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔جنگ ختم ہونے کے بعد بھی وہ برطانوی خفیہ سروس کے لیے کام کرتی رہی۔

(6)پالن کشمین 10 جون 1833کونیو اور لینز ، ا مریکا میںپیدااور2 دسمبر 1893کوسان فرانسسکو میں دنیا سے رخصت ہوئی۔وہ بنیادی طورپر اداکارہ تھی۔تاہم اس نے سول وار کے ایام میں ابراہام لنکن کے لیے بہت اہم خدمات انجام دیں۔

اسے انٹیلی جینس کے شعبے سے کسی قسم کا لگاؤ نہیں تھا۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں اداکاری کے شوق میں نیو یارک پہنچی تھی جہاں اس نے خانہ جنگی کے ایام میں زبردست طریقے سے جاسوسی کی۔

امریکا کے علاقے کینٹکی میں ایک ڈرامے کے دور ا ن کنفڈریٹس کے دو فوجی افسروں نے اس سے رابطہ کر کے کہا کہ جیفرسن ڈیوس تم سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور وہ تمہیں تین سو ڈالر دیں گے۔پالائن کشمین شمالی فوج کی حمایتی تھی، چناں چہ یہ سن کر اس نے فوراً اقرار یا انکار نہیں کیا اور نہ ہی کنفڈریٹس کو بتایا کہ اس کی وفاداری کس کے ساتھ ہے۔اس نے صدر جیفرسن سے ملاقات سے پہلے یونین آرمی سے رابطہ کیا۔ 

انہوں نےاس سے کہا کہ ٹھیک ہے،جاؤ۔ ممکن ہے کہ اس طرح ہمارے کام آسکو۔اس طرح وہ کنفڈریٹس کے دو سپاہیوں سے ملی اور اہم فوجی معلومات حاصل کیں۔ لیکن ایک مرتبہ پالن سے ایسے کاغذات برآمد ہوئے جن سے پتاچلا کہ وہ شمالی افواج کے لیے جاسوسی کر رہی ہے، جس کے بعد اس کے خلاف مقدمہ چلا اور اسے دس دن کے اندر پھانسی کی سزا سنادی گئی۔

تاہم ان ہی دنوں میں یونین آرمی نے حملہ کر دیا اور پالن کو پھانسی کی سزا سے قبل ہی رہائی مل گئی۔یونین آرمی کے جنرل ولیم اور صدر ابراہام لنکن نے اس کی خدمات کے عوض اسے میجر کا عہدہ دیا۔وہ زندگی کے آخری حصے میں ڈپریشن اور ذہنی اضطراب کا شکار ہو گئی تھی۔اس نے 2 دسمبر 1893ء کو خودکشی کرلی تھی۔

تازہ ترین
تازہ ترین