• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی پر حکمراں ہوں یا اپوزیشن، دونوں کی طرف سے کچھ زیادہ فکر و تشویش نظر آتی ہے اور نہ ہی حالات کو بہتر بنانے کیلئے کوئی موثر پلاننگ۔ مسائل محض بیانات سے حل ہوجاتے تو دنیا میں سب سے زیادہ وقعت بیان بازوں اور چٹکلہ سازوں کی ہوتی۔ مسائل کے حل کیلئے لفاظی نہیں، عزم، اہلیت، دیانت داری کے ساتھ ساتھ سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت تو مستحکم ہورہی ہے لیکن معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ معیشت کی اس کمزوری کی بڑی وجہ اکنامک منیجرز کا حالات کو نہ سمجھنا اور ملک کے تقریباً ہر شعبہ میں کرپشن اور بدعنوانی میں روز افزوں اضافہ ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے ملکی آبادی کے محض چند فی صد پر مشتمل پاکستان کے امیر طبقے کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ کروڑوں غریب پاکستانیوں کے لئے زندگی کے روز و شب مزید مشکل ہوجائیں گے۔ ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آتا ہے اس سے سب سے زیادہ متاثر تنخواہ دار افراد اور چھوٹے کاروبار سے وابستہ افراد ہوتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی سے متاثر یہ کروڑوں افراد ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ غریبوں کے ووٹوں سے اقتدار میں یا پارلیمنٹ میں آنے والے اپنے غریب ووٹرز کی زندگی آسان بنانے کے لئے نتیجہ خیز کوششیں کیوں نہیں کرتے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ دراصل ووٹرز کی اکثریت رکن اسمبلی منتخب کرتے وقت مختلف معاملات میں امیدوار کی اہلیت اور صلاحیت کو نہیں بلکہ زیادہ تر ذات، برادری یا جماعتی وابستگی کو اہم قرار دیتی ہے۔ کئی ووٹرز کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کا پسندیدہ امیدوار پارلیمنٹ میں جاکر کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔
پاکستان کی مقبول سیاسی جماعتوں کا محور و مرکز زیادہ تر شخصی قیادتیں ہیں۔ جہاں شخصی قیادت کو قبولیت مل رہی ہو وہاں مشاورت اور مختلف نقطہ ہائے نظر کی اہمیت کم سے کم ہوجاتی ہے۔ ایسے ماحول میں ذاتی وفاداری کا یقین دلانے والوں اور ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جانے والوں کو زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔ کسی موثر نظام کی عدم موجودگی میں خوشامد اور چاپلوسی کا فن آگے بڑھنے میں اچھا معاون بن جاتا ہے، قابل اور اہل لوگوں کا ایک نقص یا ایک لمیٹیشن یہ ہوتی ہے کہ وہ صحیح بات پر تعریف اور تحسین تو کرسکتے ہیں لیکن خوشامد اور چاپلوسی نہیں کرپاتے جبکہ وہ نااہل لیکن خوشامدی لوگوں کو عہدوں کے ساتھ یا بغیر عہدوں کے کروڑ پتی اور ارب پتی بنتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ میرٹ کے قتل کا نتیجہ جلد یا بدیر کئی خرابیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستانی معیشت کی مسلسل بگڑتی صورتحال اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ہمارے ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان تینوں جماعتوں نے آج تک اپنے ووٹرز کو یہ نہیں بتایا کہ پاکستانی معیشت کو درپیش بڑے بڑے مسائل کیا ہیں۔ معاشی چیلنجز کا سامنا کرنے اور معیشت کو مشکلات سے نکالنے کے لئے انہوں نے کیا منصوبے بنائے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو مشکلات سے نکالنے اور ترقی دینے کے لئے منصوبہ بندی تو ایک طرف تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس اہم ترین موضوع پر غوروخوض کے لئے معاشی ماہرین پر مشتمل کوئی تھنک ٹینک تک نہیں بنائے۔ پولیٹکل پارٹیز میں سیاسی داؤ پیچ کے ماہرین تو بہت نظر آتے ہیں لیکن پاکستانی قوم کی اقتصادی مشکلات کا درست ادراک رکھنے والے اور ملک کی ترقی کیلئے واضح اور قابل عمل لائحہ عمل تجویز کرنیوالے خال خال ہی ہوں گے۔
پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم اور خود کفیل بنانے کے بجائے پچھلے چالیس برسوں میں پاکستان پر حکمرانی کرنے والے سول و فوجی حکمرانوں کے پیش نظر صرف ایک مقصد رہا ہے۔ وہ یہ کہ امیر ممالک یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے زیادہ سے زیادہ قرضے کس طرح حاصل کئے جائیں؟ حقیقت یہ ہے کہ 60ء کے عشرے کے بعد پاکستان میں صنعت و زراعت کی ترقی، بڑھتی آبادی کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے، تعلیم کے فروغ اور خواتین کی حالت بہتر بنانے کیلئے زیادہ بڑے کام نہیں کئے گئے۔ پاکستان کو قدرت نے کئی انتہائی قیمتی وسائل سے نوازا ہے۔ ہم دریاؤں پر ڈیم بناکر سولر اور ونڈ پاور کے ذریعے ہزارہا میگا واٹ انتہائی سستی بجلی حاصل کرکے اپنی صنعتی پیداوار کی لاگت بہت کم کرسکتے تھے۔ زراعت وباغ بانی میں جدید طریقے اختیار کرکے زرعی اجناس، سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کرسکتے تھے لیکن تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کیلئے پچھلے چار پانچ عشروں میں سنجیدہ کوششوں کی کمی رہی۔
پاکستانی قوم پچھلے تیس سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثر ہے۔ اس جنگ میں ہماری افواج، ایف سی، رینجرز، پولیس، دیگر ایجنسیز کے ہزاروں افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔ بم دھماکوں اور دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں میں بہت بڑی تعداد میں شہری بھی جاں بحق ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور عرب ممالک کا ساتھ دینے پر 100ارب ڈالر سے زائد کا مالیاتی نقصان اور پاکستان سماج میں در آنے والی کئی خرابیاں اسکے علاوہ ہیں۔ 1979ء میں افغانستان میں روس کیخلاف امریکہ کی مدد کرناہو یا 11ستمبر 2011کے بعد افغانستان میں امریکہ کا اتحادی بننا۔ ہمارے حکمرانوں نے ان مواقع کو بین الاقوامی برادری میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کے حصول، پاکستانی مصنوعات کی ایکسپورٹ میں تیز رفتار اضافوں اور روپے کی قدر میں اضافے کیلئے استعمال نہیں کیا۔ ان اقدامات کے بجائے ہمارے حکمرانوں کی توجہ زیادہ تر اپنے اقتدار کو طول دینے اور ملک کیلئے امداد اور قرضوں کے حصول پر ہی مرکوز رہی۔ افغانستان میں صورت حال تبدیل ہوجانے کے بعد اب امریکہ کو پاکستان کی پہلے جتنی ضرورت نہیں ہے۔ عرب ممالک بھی پاکستان کی دوستی کا دم بھرتے رہنے کے باوجود ہندوستان کیساتھ اربوں ڈالر کے سمجھوتے کررہے ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کو قومی مفادات کو ترجیح دینے والی دیانت دار سیاسی قیادت اور اہل ترین افراد کو مالیاتی معاملات کا ذمہ دار بنانے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بہت احترام کے حامل ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق کا تعلق پاکستان سے تھا۔پاکستان کیلئے ڈاکٹر محبوب الحق کے بنائے ہوئے پانچ سالہ منصوبے کو اختیار کرکے جنوبی کوریا نے اس طرح ترقی کی کہ آج جنوبی کوریا کی ایکسپورٹ سالانہ 500ارب ڈالر سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان کی ایکسپورٹ 25ارب ڈالر تک بھی نہ پہنچ پائی۔
آج بھی ڈاکٹر محبوب الحق جیسے کئی ماہرین ِ معیشت یقیناً پاکستان کی خدمت کے خواہش مند ہوں گے۔ عوام کے ووٹوں سے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا اعزاز حاصل کرنیوالی سیاسی جماعتیں کسی ماہر اور دیانت دار پاکستانی کو ملک کی معیشت کا نگراں بنانے کیلئے تیار ہیں؟
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین