کراچی ( رفیق مانگٹ) بھارتی سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کی بغاوت کے ڈھائی ماہ بعد اب چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کی جائے گی۔ تحریک مواخذہ حزب اختلاف کی کئی جماعتیں ملکر راجیہ سبھا میں آئندہ کچھ دنوں میںپیش کریں گیچیف جسٹس کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کرنے کیلئے لوک سبھا کے ایک سو ارکان یا راجیہ سبھا کے پچاس ارکان کے دستخط کی ضرورت ہوگی۔تحریک کسی بھی ایک ایوان میں پیش کی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف جنوری میں سپریم کورٹ کے چار ججوں کے ذریعے لگائے گئے الزامات کو بنیاد بنایا گیا ہے ،چیف جسٹس پر متعدد الزامات میں ایک پراساد ایجوکیشن ٹرسٹ کیس میں بھاری رشوت لینے کا ہے جس میں میڈیکل کالج قائم کرنے کی منظوری دی گئی ، روسٹرم کا خیال نہ کرتے ہوئے حساس اور اہم مقدمات کو اپنے من پسند ججوں کو دینے کا الزام بھی ہے،سی بی آئی جج کی پرسرار موت کی انکوائری جونئیر جج کے حوالے کرنے کے علاوہ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ جب وہ وکیل تھے تو انہوں نے زمین کے حصول کیلئے جھوٹا حلف نامہ جمع کرایا۔ رپورٹ کے مطابق رواں برس بھارتی سپریم کورٹ کے چار سینئر جج صاحبان کی پریس کانفرنس کے بعد چیف جسٹس دیپک مشرا کے کام پر سوالات اٹھے ہیں۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس نے چیف جسٹس کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کا ڈرافٹ تیا ر کیا جس کی نقل کو نیشنلسٹ کانگریس پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتوں میں تقسیم بھی کیا گیا ہے۔ کئی اپوزیشن پارٹیوں نے چیف جسٹس کے خلاف مواخذے کے ڈرافٹ پر دستخط کردیئے ہیں جن میں کانگریس کے علاوہ این سی پی ،آل انڈیا ترنمول کانگریس،بائیں بازو اور دیگر کئی علاقائی سیاسی جماعتیں شامل ہیں ۔اس سلسلے میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے لیڈر ڈی پی ترپاٹھی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مواخذہ کی تحریک سے متعلق ڈرافٹ تیار کر کے کئی اپوزیشن پارٹیوں کے پاس بھیجا گیا ہے اور این سی پی کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی جماعتوںنے اس تجویز پر اپنی منظوری بھی دے دی ہے۔ مواخذہ کی تحریک سے متعلق این سی پی لیڈر اور سینئر وکیل ماجد میمن نے بھی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں چیف جسٹس کے خلاف مواخذہ کی تحریک لانے کی تیاری کر رہی ہیں اور میں نے اس کے ڈرافٹ پر دستخط کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیپک مشرا کے خلاف مواخذہ کی تحریک کے سلسلے میں اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان گزشتہ کئی دنوں سے تبادلہ خیال ہو رہا تھا۔ اس تجویز کو پارلیمنٹ میں لانے کے لیے اپوزیشن کی کئی پارٹیوں نے بات چیت کی ہے۔ ترنمول کانگریس، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور سی پی آئی ایم سمیت کئی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں نے اس ایشو پر بات چیت کی تھی اور اس کو راجیہ سبھا میں پیش کیے جانے پر اتفاق بھی ہوا تھا۔ راجیہ سبھا میں پیش کیے جانے کا مشورہ اس لیے ہوا تھا کیونکہ مواخذہ کی تحریک سے متعلق جو کم از کم ممبران پارلیمنٹ کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے اور لوک سبھا میں اپوزیشن کے پاس یہ نمبر نہیں ہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن مضبوط ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس تجویز کو راجیہ سبھا میں پیش کی جائے۔ بھارتی آئین میں سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کا جو طریقہ کار متعین ہے وہی چیف جسٹس کے لئے بھی ہے۔ چیف جسٹس65برس کی عمر تک اپنے عہدے رہ سکتاہے۔ انہیں پارلیمنٹ کے ذریعے مواخذے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔آئین کا آرٹیکل 124چار،ججز ایکٹ1968اور ججز رولز1969میں مواخذے کا طریقہ کار دیا گیا ہے۔ نامناسب رویے اور نااہلیت ثابت ہونے پر جج کو ہٹایا جاسکتا۔پارلیمنٹ کے کسی ایک ایوان میں تحریک پیش کی جاسکتی ہے،لوک سبھا کے اسپیکر یا راجیہ سبھا کے چیئر مین کے پاس تحریک کو مسترد کرنے کا اختیار ہے۔تحریک منظور ہونے کی صورت میں اسپیکر یا چیئرمین سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ،ہائی کورٹ کا ایک جج اور ایک ممتاز ماہر قانون پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دیتا ہے جو ان الزامات کی تحقیق کرتی ہے،یہی کمیٹی چیف جسٹس کے خلاف الزامات کا تعین کرتی ہے۔ اگر یہ تین رکنی کمیٹی مواخذے کی تحریک کی حمایت کا فیصلہ کرے تو اسے بحث کیلئے ایوان میں پیش کیا جاتا ہے اور اسے خصوصی اکثریت سے پاس ہونا ضروری ہے،لوک سبھا سے پاس ہونے کے بعد راجیہ سبھا میںپیش کی جاتی ہے جہا ں پاس ہونے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بعد چیف جسٹس کو ہٹانے کے لئے اس تحریک کوصدر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا تھا جب رواں برس جنوری میں بھارتی سپریم کورٹ کے چار سنیئر ترین ججوں نے چیف جسٹس کی اتھارٹی کو چیلنج کردیا اور محاذ کھولتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس اقدام نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلائے جانے والے ملک بھارت کے عدالتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی، یہ پریس کانفرنس سپریم کورٹ کی ریذیڈنس پر ہوئی ۔انہوں نے کہاکسی بھی ملک کے قانون کے لیے آج کا دن بہت بڑا ہے۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہے کیونکہ انہیں میڈیا سے بات کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ پریس کانفرنس اس لیے کی تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ انہوں نے اپنی روح گروی رکھ دی۔انہوںنے چیف جسٹس دیپک مشرا کے طریقہ کار پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہیں بچایا گیا تو بھارت سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی گزارشات کے ساتھ جسٹس دیپک مشرا سے ملاقات کی مگر وہ قائل نہیں ہوئے۔ لہٰذا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ہم میڈیا کے توسط سے قوم سے مخاطب ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحی قدم اٹھانے کی کئی بار کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔ سپریم کورٹ میں ایڈمنسٹریشن ٹھیک نہیں چل رہی ہے۔ چیف جسٹس مساوی حیثیت کے ججوں میں اول ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر عدلیہ غیر جانبدار نہیں رہے گی تو ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ وہ عدلیہ میں بدعنوانیوں کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں مگر چیف جسٹس اس ضمن میں کچھ نہیں کر رہے ہیں۔جسٹس جے چیلا میشورم نے کہا ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ ادارہ نہیں بچا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور نہ ہی کسی اور ملک میں اور منضف عدلیہ اچھی جمہوریت کی جانب اشارہ ہے ،چونکہ ہماری تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں یہاں تک کہ ہم آج چیف جسٹس کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی۔ لیکن ان کے ساتھ ان کے پوائنٹ پر متفق نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا ،پریس کانفرنس کرنیوالے ججوںمیں سینئر جج جسٹس چیلا میشورم ، رنجن گوگوئی، مدن لوکور اور کورین جوزف شامل تھے ۔ پریس کانفرنس میں کئی سینئر وکلا نے بھی شرکت کی جن میں سابق اٹارنی جنرل سولی سوراب جی بھی شامل تھے۔ بعض سابق ججوں نے بھی پریس کانفرنس کرنے والے جج حضرات کے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔ ان ججوں سے پوچھا گیا کہ کیا چیف جسٹس کو ان کے منصب سے برطرف کر دیا جانا چاہیے؟ تو انھوں نے کہا کہ قوم کو ان کے مواخذے کے بارے میں فیصلہ کرنے دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں بہت سی ناپسندیدہ باتیں ہو رہی ہیں۔ ان چاروں جج صاحبان نے اکتوبر2017میں چیف جسٹس کے نام ان کے طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں ایک خط لکھا تھا جس میں سپریم کورٹ کے چند عدالتی احکامات پر تحفظات کا اظہار کیا جن کی وجہ سے عدالتی کارروائی متاثر ہو رہی تھی۔خط میں انتہائی اہم مقدمات کو سینئر ججوں سے لے کر جونیئر ججوں کے حوالے کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ چیف جسٹس مقدمات کی تقسیم میں قوانین کی پابندی نہیں کر رہے ۔ چیف جسٹس روسٹر سسٹم کا خیال کیے بغیر اپنی مرضی کے ججوں کو اہم اورحساس کیس دے دیتے ہیں۔ سنیئر ججوں کے انتخاب کے لیے میمورینڈم آف پروسیجر آج تک بنایا ہی نہیں گیا اور اسے ٹالا گیا ۔ خط میں کئی سوال اٹھائے گئے کہ کیا سپریم کورٹ ایک غیر جانبدارانہ پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ خط میں سہراب الدین جعلی مقابلے کی تحقیقات کرنے والے اسپیشل سی بی آئی جج بی ایچ لویا کی پراسرار موت کے معاملے کو ایک جونیئر بینچ کے سپرد کرنے پر بھی تحفظات تھے۔ جسٹس لویا گجرات کے سہراب الدین جعلی مقابلے کی سماعت کر رہے تھے جس میں بی جے پی کے صدر امیت شاہ کلیدی ملزم ہیں اور وہ اس معاملے میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں،جج کے اہلِ خانہ نے ان کی پراسرار موت پر سوال اٹھایا تھا اور ان کی ایک بہن نے الزام لگایا تھا کہ انھیں کروڑوں روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔وہ کئی ججوں کے ساتھ ایک شادی میں گئے ہوئے تھے جہاں رات کو پراسرار طور پر ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس معاملے پر کافی ہنگامہ ہوا تھا اور سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لے کر کارروائی کرنے کی اپیلیں کی گئی تھیں ۔جسٹس لویا کی موت کے بارے میں دائر مفادِ عامہ کی عذرداری کو سماعت کے لیے پہلے چار بینچوں کے بجائے کورٹ نمبر دس کے سپرد کیا گیا۔