• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ کی تجارتی جنگ سے عالمی معیشت کو خطرہ

ٹرمپ کی تجارتی جنگ سے عالمی معیشت کو خطرہ

اینا اساق، ٹم والز

عالمی رہنمائوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ کی جانب سے شروع کی جانے والی حالیہ تجارتی جنگ سے عالمی معیشت کی بحالی کو خطرہ ہوسکتا ہے جبکہ تحفظ پسند پالیسیاں گلوبل سپلائی چین اور پیداواری ترقی کو سبوتاژ کررہی ہے۔ تحفظ پسند پالیسیوں سے مراد ایسی پالیساں ہیں جس کے زریعے کوئی ملک اپنی تجارت اور صنعت کو بچانے کے لئے دیگر ممالک کی درآمدات اور مصنوعات پر ٹیکسز عائد کرتے ہیں یا پھر اس کے زریعے سے درآمدات کو محدود کیا جاتا ہے۔

اس معاملے میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے ایک ایسے موقع پر مداخلت کی ہے جب تجارتی خساروں میں اضافے، ملازمتوں کے مواقعوں میں کمی اور عالمی تجارتی محاذ پر امریکا اور چین کے درمیان محاذ آرائی پر جاری کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے خبردار کیا ہے کہ سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ تجارتی جنگوں سے بچنے کے لئے تجارت کے معاملے پر موجود اختلافات کو کسی بھی قسم کے غیر معمولی اقدامات کے بغیر ہی ختم کریں، تجارتی جنگوں سے نہ صرف عالمی معیشت کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس میں کسی کی بھی جیت نہیں ہوگی۔

آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے یہ انتباہ آئندہ ہفتے ارجینٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں جی ٹوئنٹی اجلاس سے قبل اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسٹیل اور ایلومونیم کی درآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کرنے اور اس کے جواب میں یورپی یونین کی جانب سے جوابی کارروائیوں کی دھمکیوں کے تناظر میں جاری کیا ہے۔ آئندہ ہفتے ہونے والے جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس سے میں عالمی سیاستدان اور مرکزی بینکوں کے سربراہ شریک ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ درآمدی ٹیرف پر خود سے عائد کردہ اضافی ٹیکس نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے یہاں تک کہ اگر تجارتی شراکت دار اس کے بدلے میں خود سے کوئی ٹیکس عائد نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پروٹیکشن ازم یعنی (درآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کرکے اپنی اندرونی تجارت کو بچانے کا عمل) ایک تباہ کن عمل ہے کیونکہ یہ اُن غریب صارفین پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جو نسبتاً کم قیمت پر درآمدات خریدنا پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیگر الفاظ میں یہوں کہا جاسکتا ہے کہ تجارت کو نقصان پہنچانا مطلب ملکی معیشت اور افراد دونوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ ’’گلوبل امکانات اور پالیسی چیلنجز‘‘کے مطابق جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں تجارتی پالیسیوں کے پیشِ نظر عالمی رہنماؤں کے آپس میں تعاون اور باہمی ربط کو ترجیح دی جائے گی۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی تجارت سے عالمگیریت کا پھیلائو مضبوط ہورہا ہے اور اسے اندرونی مفادات کی پالیسیاں اپنا کر خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔

’’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی جانب سے مقرر کئے گئے قواعد پر مبنی کثیر فریقی تجارتی نظام کی جدت کو اچھے قوانین کے اطلاق کے تحت جاری رہنا چاہئے جو کہ مسابقت کے رحجان کو فروغ دیتا ہے۔ عالمی معیشت میں عدم توازن پر قابو پانے کے لئے بھی تعاون ضروری ہے۔

اگر ایسا نہیں ہوا تو ایک دفعہ پھر یکطرفہ تجارتی پابندیوں سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور ہر کوئی اپنی اپنی اندرونی تجارت کے تحفط کی طرف مائل ہوگا اور اس کیساتھ ساتھ دنیا بھر میں گلوبل سپلائی چین اور طویل المدتی پیداوریت بھی متاثر ہوگی۔

نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ (این اے ایف ٹی اے یا نافٹا) میکسیکو، کینیڈا اور امریکا کے درمیان آزادانہ تجارت کا مضبوط اور بنیادی ستون ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر اس معاہدے پر دوبارہ سے مذاکرات کئے جارہے ہیں جسے مزید جدت دی جاسکتی ہے یا پھر اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔

بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ نافٹا کے معاملے پر دوبارہ مذاکرات سے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر یہ معاہدہ ناکام ہوا تو امریکا اور کینیڈا کے درمیان کی معیشتوں کو نقصان پہنچے گا کیوں کہ عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی کی جانب سے مقرر کردہ ٹیکسز یا اس سے بھی اضافی سطح پر ٹیرف عائد کیا جاسکتا ہے۔

اسی اثناء عالمی ایجنسی کی آخری رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ عالمی معیشت پر دیگر خطرات میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس سے معاشی سست روی سے نمٹنے کی اس کی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ 2018 اور 2019 میں پیداواری ترقی میں اضافہ 9۔3 فیصد کم ہونے کے بعد آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ عالمی معیشت کی رفتار 2020 تک سست روی کا شکار ہو جائے گی۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت کے استحکام کو درپیش خطرات میں مزید اضافہ ہورہا ہے جیسا کہ منڈیاں مزید گیر مستحکم ہورہی ہیں اور حکومتیں قرضوں کے بوجھ کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔

لیگارڈ کہتی ہیں کہ ’’اگر چہ عالمی معیشت کا سورج چمک رہا ہے تاہم آسمان پر اب بھی بادل منڈلارہے ہیں۔‘‘

عالمی باڈی امریکی معاشی انتظامیہ پر شدید تنقید کررہی ہے۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ٹیکس کٹوتیوں پر اعتراض اٹھایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر معاشی ترقی کی رفتار نے حکومتی خزانے پر کوئی اثر نہ ڈالا تو اس کے نتیجے میں ٹیکسوں کا حصول انتہائی کم ہوگا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ امریکا کو ان ٹیکس کٹوتیوں کو کم کرنا چاہئے مزید یہ کہ واشنگٹن کو چاہئے کہ وہ ایسی پالیسیاں اپنائے جس سے سرکاری خسارے کو کم کرکے معشیت کو ایک مستحکم راہ پر گامزن کیا جائے۔

لیگارڈ نے عالمی رہنمائوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسی پالیسیوں سے معاشی عدم توازن میں کمی اور ہر ملک میں اندرونی سطح پر معاشی ترقی میں استحکام آئے گا اور اس کے نتیجے میں تحفظ پسند پالیسیوں کے مطالبات بھی کم ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی معاشی عدم توازن کو حل کرنے کا طریقہ کار یہ نہیں کہ تجارت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں۔ عدم توازن کو حل کرنے کے لیے مالی وسائل کا استعمال کرنا ضروری ہے۔

مس لیگارڈ کہتی ہیں کہ ’’مثال کے طور پر امریکا میں خسارے کو کم کرکے حکومتی قرضے کو ایک مستحکم راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح جرمنی میں مضبوط انفراسٹرکچر میں میں سرمایہ کاری اور تعلیمی اخراجات شامل ہیں۔

جیسے کے مثال کے طور پر امریکا میں خسارے کو کم کرکے حکومتی قرض کو ایک پائیدار سطح تک لایا جائے اور اسی طرح جرمنی میں مضبوط بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری اور تعلیم کے شعبے میں اخراجات کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ عالمگیریت اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں ان کیساتھ مزید تعاون کرنا چاہئے تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ اپنی صلاحیتوں میں مزید سرمایہ کاری اور اعلیٰ معیار کی ملازمتوں کی جانب منتقل ہوسکیں۔

ترقی کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ نجی شعبے کے قرضوں کا انبار تھا۔ یہ چین کی معیشت کے لیے ایک تشویش ناک بات تھی۔ حکام روایتی بینکوں سے باہر موجود قرض کی رقم کو محدود کرنے کے لئے شیڈو بینکنگ پر کریک ڈائون کی کوشش کرچکے ہیں۔ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے بینکوں اور وسیع نظام میں موجود خطرات کے تدارک کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ بھارت، اٹلی اور دیگر یوروزون کی معیشتوں کو فوری طور پر اپنے بینکنگ کے نظام میں موجود غیر موثر یا ادا نہ ہونے والے قرضوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ معیشتوں میں سود کی شرح قرضوں کی تعداد میں اضافہ کے بعد ممکنہ طور پر دوبارہ اپنی اصل حالت میں آجائیں گی جس سے قرض دینے اور لینے والے دونوں خطرے میں پڑ جائیں گے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا ہے کہ سرکاری قرضوں کی سطح جی 20 کی معیشت میں 114 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مجموعی طور پر حکومتی اداروں، کمپنیوں اور گھریلو قرضوں کی سطح زیادہ ہے جو کہ مالیاتی خطرات کو جنم دیتا ہیں۔

جس طرح معیشتیں معاشی پھیلائو کے سائیکل کو دہرا رہی ہیں اور شرح سود میں اضافہ ہورہا ہے ایسی صورت میں قرضوں کے دیوالیہ ہونے کا امکان رہے گا۔ اس کے نتیجے میں قرض دہندگان اور قرض خواہان دونوں کا پول کھل جائے گا۔ اس معاملے کو حقیقی طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

لیگارڈ کہتی ہیں کہ ’’دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں حکومتی قرضوں کی سطح بڑھ کر اوسطً 114 فیصد ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں حکومت، کمپنیوں اور گھرانوں کے قرضوں کی سطح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے منظر نامے کا تصور کریں جس میں مہنگائی میں ناقابل یقین حد تک اضافے کا خدشہ ہو اور عالمی معیشت اچانک گرفت میں آجائے۔ ایسی تبدیلیوں سے فنانشل مارکیٹ میں اصلاحات کا امکان ہے اور قرض کے معاملے پر اور زر کی آمد ورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

آئی ایم ایف نے بریگزٹ (برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء) کے اقدام کو بھی تحفظ پسندی قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ اور نافٹا پر دوبارہ مذاکرات سے معاشی ترقی متاثر ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں یکطرفہ تجارتی پابندیوں کا دور دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔

عالمی ادارے کے مطابق 2018 میں برطانوی جی ڈی پی کی شرح 1.5 فیصد تک ہوسکتی ہے تاہم یہ 2019 میں اسی حد تک گر سکتی ہے۔ اس پیش گوئی میں اکتوبر کے مقابلے میں 0.1 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس منظر پر غور کریں جس میں افراط در میں غیر متوقع اضافہ اور عالمی مالیاتی حالات میں اچانک سخت نگرانی ہوئی ہے کیونکہ یہ تبدیلیاں مالی مارکیٹ میں اصلاحات کو فروغ دینے، ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں قرض کی استحکام، اور سرمایہ کاری کے بہاؤ کے تبادلے پر تشویش کا باعث بن سکتی ہیں۔

بریکسٹ کو ایک تحفظ پسندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ یہ اور نافا رینٹلٹوشنز دونوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور ایک طرفہ تجارتی پابندیوں کی واپسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے.

بین الاقوامی ادارے نے 2018 میں اپنی مجموعی ملکی پیداوار برطانیہ کے لیے 5۔1 فیصد برقرار رکھی ہے لیکن 2019 کے لیے اس سطح کو کم کردیا ہے۔ یہ پیشن گوئی اکتوبر کی پیشن گوئی کے مقابلے میں 0.1 فیصد سے کم ہے.

تازہ ترین