• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’اپریل فول ‘‘کے نام پر بے بنیاد افواہیں پھیلانا اور لوگوں کو دھوکے میں مبتلا کرنا،سخت گناہ ہے

اسلامی تعلیمات کے منافی عمل جُھوٹ اور دھوکا دہی

مولانا ندیم الواجدی

مثل مشہور ہے ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے!‘‘ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے، جب کوئی شخص بے پرکی اُڑاتا ہے یا ایسی بات کرتا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ عوام الناس میں اس حوالے سےیکم اپریل کو کچھ ایسی ہی بے پرکی باتیں ،دروغ گوئی اور لوگوں کے درمیان دھوکے پر مبنی جھوٹی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں، پھر ان کے نتائج سے لطف اُٹھایا جاتا ہے، یہ ایک دھوکے پر مبنی مغربی رسم ہے، جو مشرق میں بھی پوری طرح پھیل چکی ہے، اسے ’’اپریل فول‘‘ کہتے ہیں، اس کے لیے یکم اپریل کا دن خاص کیا گیا ہے، کیا بچے کیا بوڑھے اور کیا جوان سب اس دن کی مسرتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن یہ مسرتیں حقیقی نہیں ہوتیں، کیوں کہ ان کی بنیاد تین چیزوں پررکھی جاتی ہے: جھوٹ ، فریب اور دوسروں کی تضحیک پر! ظاہر ہے وہ مسرت حقیقی نہیں کہلائی جاسکتی جوکسی کادِل دُکھا کر، کسی کو فریب دے کر یا کسی کو اذیت میں مبتلا کرکے حاصل کی گئی ہو! یوں تو مغرب کے لوگ بڑے دیانت دار، بڑے سچے، بڑے ہمدرد اور کھرے بنتے ہیں، لیکن اپریل کی پہلی تاریخ کو وہ اپنے ان تمام خود ساختہ اوصاف سے محروم ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ بھی ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں جو مغرب کے اندھے مقلد ہوتے ہیں، خود ان کے پاس تو سوچنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، سووہ نقالی کرتے ہیں،اس پورے عمل میں ان کے لیے قابل فخر چیز یہ ہے کہ وہ مغرب کی تقلید کررہے ہیں، اس سے بحث نہیں کہ وہ کتنے شرم ناک کام میں مشغول ہیں، یکم اپریل کو ’’اپریل فول‘‘ منانے کی رسم بد کا بھی یہی حال ہے، لوگ اس دن ایک دوسرے کو بے وقوف بناتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور جب مخاطب جھوٹ کو سچ سمجھ لیتا ہے، تب یہ خوشی سے قہقہے لگاتے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بول کر مخاطب کو بے وقوف بنا نے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، انہیں اس سے بحث نہیں ہوتی کہ اس جھوٹ سے کسی دوسرے کو کتنی تکلیف پہنچی ہے اور اسے کتنا ذہنی، جسمانی یا مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے؟ بعض اوقات اس طرح کے بے ہودہ مذاق سے اِنتہائی تکلیف دہ صورتِ حال بھی پیدا ہوئی ہے او رمتعلقہ لوگوں نے برس ہا برس تک اس کا خمیازہ بھگتا ہے۔

فی نفسہٖ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اس بے ہودہ رسم میں کسی بھی طرح کا کوئی حصہ لے، کیوں کہ اس میں تین گناہ ایک ساتھ موجود ہیں: ایک تو جھوٹ، جس کی اِسلام میں سخت مذمت وارد ہوئی ہے، جھوٹ ایک ایسی بُرائی ہے جسے بہت معمولی سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ یہ بے شمار بُرائیوں کی جڑ ہے، ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے کئی جھوٹ بولنے والے کا ،کردار مجروح ہوتاہے، معاشرے میں اس کا اِعتماد اور وقار ختم ہو جاتا ہے، اگر وہ سچ بھی بولتا ہے تو لوگ اسے جھوٹ ہی سمجھتے ہیں، حدیث شریف میں ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: سچائی اِختیار کرو، اِس لیے کہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے او رنیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے، اور سچ بولنے میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے، جھوٹ سے بچو، اِس لیے کہ جھوٹ بُرائی کی طرف لے جاتا ہے اور بُرائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے او رجھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری: 2261/5، رقم الحدیث: 5743، مسلم: 2012/ 2، رقم: 2607)

ایک اور حدیث میں ہے، سرکارِ دو عالم ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: کیا تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے تین زیادہ بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! ضرور بتائیں، فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اورکسی اِنسان کو ناحق قتل کرنا۔ راوی کہتے ہیں کہ جس وقت آپ نے یہ بات اِرشاد فرمائی اس وقت آپ ٹیک لگائے تشریف فرما تھے، یہ کہہ کر آپ (سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے اور فرمایا: خبردار! جھوٹی بات او رجھوٹی شہادت (بھی بڑا گناہ ہے)۔ آپ نے اس جملے کا اس قدر تکرار فرمایا کہ ہم (دل میں) کہنے لگے کاش! آپ سکوت اِختیار فرمالیں۔ (بخاری:2230/5، رقم الحدیث: 5632۔ مسلم: 91/ 1، رقم الحدیث: 88)

بعض لوگ دُوسروں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولتے ہیں، ایسے لوگوں کے متعلق حدیث شریف میں ہے ’’تباہی ہے ایسے شخص کے لیے جو دُوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے۔‘‘ (ابوداؤد: 716/ 2، رقم الحدیث: 4990)

کسی کو دھوکا دینا بھی کچھ کم بڑا گناہ نہیں ہے، ایک حدیث میں ہے: ’’جو شخص ہمیں دھوکہ دے، وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘ (مسلم: 99/ 1، رقم: 101)

یعنی حقیقی معنی میں وہ شخص مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے، جو فریب دیتا ہے، تیسرا گناہ جویکم اپریل کو رسم منانے کی صورت میں ہمارے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے، وہ کسی کے ساتھ تمسخر کرنا اور اُس کا مذاق اُڑانا ہے، مذاق اُڑانا یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے کہ دُوسرے اُسے دیکھ کر ہنسنے لگیں یا حقیقت ظاہر ہونے پر وہ خود اپنے دِل میں شرمندگی محسوس کرنے لگے، گو اس کا اِظہار نہ کرے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تو اپنے بھائی سے جھگڑا مت کراورنہ اس سے (ناروا) مذاق کر اور نہ کوئی ایسا وعدہ کر جسے تو پورا نہ کر سکے۔‘‘ (ترمذی: 359/ 4، رقم الحدیث: 1995)

قرآن کریم میں ہر طرح کے تمسخر سے منع کیا گیا ہے، فرمایا : ’’اے اِیمان والو! نہ مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے، ہو سکتا ہے کہ جن پر وہ ہنستے ہیں وہ ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، ہو سکتا ہے جن پر وہ ہنستی ہوں وہ ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں۔‘‘ (سورۃ الحجرات: 11)

عام طور پر ’’اپریل فول‘‘ کو ایک بے ضرر اور سادہ سا مذاق تصور کیا جاتا ہے؛ لیکن یہ بے ضرر اور سادہ مذاق نہیں ہے، اگر اس کے تاریخی پس منظر کو نظرانداز بھی کر دیا جائے، تب بھی یہ جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی جیسے بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کو یہ پسند نہیں ہے کہ مسلمان ان گناہوں میں مبتلا ہوں، ایک اور گناہ جوان تمام گناہوں کے نتیجے میں سرزد ہوتا ہے، وہ اِیذائے مسلم کا گناہ ہے، آپ خواہ جھوٹ بولیں، یا فریب دیں یا مذاق اُڑائیں، اس سے مسلمان کو تکلیف ضرور پہنچے گی اور اِیذائے مسلم کتنا بڑا گناہ ہے اس کا اندازہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے لگایا جاسکتاہے، فرمایا: ’’اور جو لوگ اِیمان والے مردوں اور اِیمان والی عورتوں کو بغیر کسی جرم کے اِیذا پہنچاتے ہیں ،وہ لوگ بہتان اورصریح گناہ کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔‘‘ (سورۃالاحزاب: 58)

’’اپریل فول‘‘ کے سلسلے میں اِسلام کا موقف بالکل واضح ہے، اس میں کسی طرح کے جواز کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، حضرات مفتیان کرام نے بڑے مدلل انداز میں اِسلام کے اس موقف کا اِظہار کیا ہے، مولانا مفتی عبدالرحیم لاج پوریؒ نے ایک اِستفتاء کے جواب میں لکھا کہ ’’اپریل فول منانا یہ نصاریٰ کا طریقہ ہے، اِسلامی طریقہ نہیں ہے، جھوٹ بولنا حرام ہے، حدیث شریف میں ہے:’’اس آدمی کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔‘‘(ابوداؤد: 716/ 2، رقم الحدیث: 4338)

اور حدیث میں ہے: ’’ کوئی بندہ پورے اِیمان کا حامل نہیں ہو گا، جب تک وہ جھوٹ کو ترک نہ کر دے، جھوٹ خواہ ہنسی مذاق میں ہو، خواہ لڑائی جھگڑے میں۔‘‘ (مسند احمد: 352/ 2، رقم الحدیث: 8615)

اس کے علاوہ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ بولنا بڑی خیانت ہے، کیوں کہ اِنسان اللہ اور لوگوں کا امین ہے، اسے سچ ہی بولنا چاہیے، جھوٹ بولنا امانت کے منافی ہے، حدیث شریف میں ہے: ’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات اِس طرح کہو کہ وہ تمہیں سچا جان رہا ہو، حالاں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘ (ابوداؤد: 711/ 2، رقم الحدیث: 4971)

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس لغو، بے ہودہ اور خلافِ تہذیب مذاق اور وقارِ اِنسانیت کے منافی اس رسم سے دُور رہیں، یہی اِسلام کا مطالبہ بھی ہے اور یہی عقل و خرد کا تقاضا بھی!

تازہ ترین
تازہ ترین