مولانا حافظ عبدالرحمن سلفی
علّامہ احسان الٰہی ظہیرؒ پنجاب کے مردم خیز خطے سیالکوٹ کے محلے احمد پورہ میں کپڑے کے ایک متدیّن تاجر شیخ ظہور الٰہی کے ہاں 1940ء میں پیداہوئے۔ چوںکہ اس خانوادے کا سربراہ دینی ذوق وشوق سے سرشار تھا، لہٰذا اس نے اپنے اس ہونہار فرزند کی پرورش اسی دینی جذبے کے تحت کی۔آپ نے 9 برس کی عمر میں حفظ قرآن مجید کی تکمیل کا شرف حاصل کر لیا۔
مزید دینی تعلیم کے حصول کی خاطر دارالعلوم شہابیہ سیالکوٹ سے ہوتے ہوئے عالم اسلام کی نابغہ عصر شخصیت اور مشفق ومہربان استاد محدث العصر حافظ محمد گوندلویؒ جیسے حدیث نبویؐ کے گوہر آب د ار سے اپنا دامن مراد بھرا اور پھر جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں مولانا محمد شریف سے معقولات، فلسفہ اور منطق کے علوم پر دسترس حاصل کی۔
1960ء میں دینی علوم سے بہرہ ور ہونے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے عربی فاضل کے ساتھ بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی، اسی طرح ایم اے فارسی اور ایم اے اردو کی سندات حاصل کیں۔ اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کی خاطر مدینۃالرسولﷺ میںجامعہ اسلامیہ میں داخلہ لیا، جہاں آپ نے مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبداللہ ابن بازؒ سے اکتساب فیض کیا۔ دوران تعلیم آپ کے جوہر کھلنے لگے اور ایک انتہائی اہم عنوان پر پہلی تصنیف ’’القادیانیہ‘‘ منصہ شہود پر آئی ۔اس وقت عرب علماء مسئلۂ قادیانیت پر کوئی خاص معلومات نہیں رکھتے تھے۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر کو پیش کش کی گئی کہ جامعہ اسلامیہ مدینۂ منورہ سے وابستگی اختیار کر لیں،تاہم آپ نے اپنی صلاحیتوں سے اپنے ملک وقوم کو مستفید کرنے کا فیصلہ کیا اور واپس پاکستان چلے آئے۔ لاہور کی تاریخی چینیاں والی مسجد کی خطابت آپ کے حصے میں آئی اور یہیں سے خطیبانہ جوہر کھلنے لگے۔
1968ء میں جب آپ واپس تشریف لائے، اقبال پارک (منٹو پارک) کے خطبۂ عید سے ایوب خان کے خلاف جاری تحریک میں حصہ لیا ۔آپ کے سامعین میں آغا شورش کاشمیری جن کی خطابت کا شہرہ پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا اور عبدالعزیز مالوہ بار ایٹ لاء بھی موجود تھے۔ شورش مرحوم نے آپ کے متعلق کہا: ’’میں خود فن خطابت میں دسترس رکھتا ہوں مگر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ احسان الٰہی ظہیر اگر تم آئندہ خطابت چھوڑ بھی دو تو تمہاری صرف اس ایک تقریر سے تمہیں برصغیر پاک وہند کے چند بڑے خطیبوں میں شمار کیا جائے گا۔ یہی تقریر آپ کو خارزار سیاست میں لے آئی۔
اس دوران انہوںنے 1971ء میں کراچی سے وکالت کا امتحان پاس کیا اور ساتھ ہی فلسفہ اور تاریخ کے علاوہ چند دیگر علوم میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں اوردینی صحافت کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے جماعتی اخبار الاعتصام کی ادارت کے فرائض ادا کیے۔ اسی دوران اپنی دینی تنظیم جمعیت اہل حدیث میں فکری ونظری محاذ کے ساتھ عملی محاذ پر بھی کام شروع کیا۔ صحافت کے میدان میں رہتے ہوئے ماہنامہ ترجمان الحدیث کا اجراء بھی کیا ۔آپ کی دینی علمی سیاسی سرگرمیاں بیک وقت جاری تھیں۔
آپ ہمہ جہت صفات سے متصف تھے۔ آپ جہاں عالم دین تھے، وہیں صحافی، خطیب اور سیاسی رہنما کے طور پر بھی شہرت کے حامل تھے۔ جب قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے اور تحفظ ختم نبوت کی تحریک شروع ہوئی تو پاسبان ناموس رسالتؐ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے انمٹ نقوش چھوڑے اور آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی، بلکہ عظمت رسولﷺ کی پاسبانی میں ہر طرح کے مصائب وآلام برداشت کیے جو یقیناً ان کے لیے نجات اخروی کا باعث ہوںگے۔
اس دوران وہ اہل حدیث مکتب فکر کے نمائندہ کی حیثیت سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے ایک وفد کے ہمراہ گئے تو وزیراعظم انہیں دیکھ کر یہ یقین نہیں کر پائے کہ یہ وہی نوجوان ہے جو پورے ملک میں اپنی شعلہ بیانی سے ایک گلستان بن چکا ہے ۔وزیراعظم تنہا اس نوجوان رہنما سے پندرہ منٹ تک خود ہم کلام رہے اور اتنے متاثر ہوئے کہ جب غلام مصطفی کھر نے ان کی پارٹی چھوڑی تو بھٹو مرحوم کی خواہش تھی کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں۔
77ء میں قومی اتحاد کی تحریک نفاذ اسلام یا نظام مصطفی کا وقت آیا تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ہر اسٹیج اور ہر محفل میں یہ رہنما چھایا ہوا تھا۔ انہوں نے اس تحریک کو اپنی پرجوش قیادت سے گرمائے رکھا۔ آپ مسجد شہداء سے احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے قیادت کرتے رہے۔
1981ء میں آپ کی قیادت میں پاکستان بھر سے آئے ہوئے چار ہزار سے زائد علماء اور عوام کے کنونشن میں 8 علماء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ذمے جمعیت اہل حدیث کی تنظیم نو کا کام سونپا گیا۔ تنظیم نو کے بعد مولانا محمد عبداللہ آف گوجرانوالہ کو امیر اور مولانا محمد حسین شیخوپوری کو ناظم اعلیٰ بنایا گیا ۔
اس طرح جمعیت اہل حدیث ولولہ تازہ کے ساتھ نئے عزم سے راہی منزل ہوئی، اس دوران آپ نے نوجوانوں کی اہمیت وافادیت کو محسوس کرتے ہوئے انہیں دینی سانچے میں ڈھال کر متحرک وفعال کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ملک گیر سطح پر اہل حدیث یوتھ فورس قائم کی جس نے اہل حدیث نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور جوق در جوق نوجوان طبقہ اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتا ہوا ایک پرچم تلے جمع ہونا شروع ہو گیا۔
آپ نے اپنے آپ کو نظریہ قرآن وحدیث کے لیے وقف کر دیا ۔ایک طرف آپ جمعیت اہل حدیث کے پلیٹ فارم سے دینی محاذ سنبھالے ہوئے تھے تو دوسری جانب ایم آرڈی کے بینر تلے سیاسی ماحول کو گرما رہے تھے۔ آپ کی قیادت میں جمعیت اہل حدیث اور اہل حدیث یوتھ فورس نے پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات منعقد کیے اور حکمرانوں پر واضح کیا کہ پاکستان میں کتاب وسنت کا نظام رائج کیا جائے۔
آپ کی شہادت کو کئی سال گزر چکے ہیں،تاہم آج بھی آپ کی یاد تازہ ہے۔ آپ کے افکار ونظریات خالص کتاب وسنت سے والہانہ لگائو پر مبنی تھے۔ عظمت صحابہؓ کا تحفظ اور فرق ہائے باطلہ کا استیصال آپ کی زندگی کا مشن تھا اور آ پ نے اسی مشن کی پاس داری میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی، یقیناً یہ شعر آپ کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے کافی ہو گا ؎
گلیوں کو میں سینے کا لہو دے کر چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
آپ آخری لمحات تک یہ کہتے رہے کہ جب اللہ پوچھے گا کہ احسان الٰہی نامۂ اعمال میں کیا ساتھ لائے ہو تو رب کی بارگاہ میں عرض کروں گا یا اللہ اپنے گناہوں کی گٹھڑی کو شہادت کی چادر میں لپیٹ کر لے آیا ہوں۔ بقول اقبال؎
شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی