تحریک پاکستان کے غیرمسلم ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے میرے گزشتہ کالم پرتوقعات سے بڑھ کر مثبت رسپانس آیا۔،قارئین کی اکثریت میرے اس مطالبے کی حامی ہے کہ جیسے رواں برس یوم پاکستان کے موقع پر ایک نیا ایوارڈ تمغہِ عزم متعارف کرایا گیا ہے اسی طرح ہمیں اپنی تاریخ کے غیرمسلم قائدین کے نام سے بھی اعلیٰ ایوارڈز منسوب کرنے چاہئے۔میرے اپنے خیال میں تحریک آزادی کے غیرمسلم اکابرین کو یاد کرتے وقت بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا تذکرہ کیاجانا بھی بہت ضروری ہے جنہیں انگریز سامراج نے قرارداد پاکستان کی منظوری سے 9سال قبل 23مارچ ہی کے دن لاہور سینٹرل جیل میں پھانسی دی۔بلاشبہ بھگت سنگھ جدوجہد آزادی کا ایک ایسا عظیم سپاہی تھا جس نے اپنی جان فقط 23سال کی عمر میں مادر وطن پر قربان کردی لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد تاریخی حقائق سے نظر چرانے کی روش ایسی شروع ہوئی کہ ہم نے غیرمسلموں کو قومی دھارے کے ساتھ تاریخ سے بھی خارج کردیا۔میں سمجھتا ہوں کہ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی ، احمدی ہر مذہب کے ماننے والوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ہمیں لائل پور (موجودہ فیصل آباد ) میں جنم لینے والے اور لاہور میں شہید ہونے والے بھگت سنگھ کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس کی نیت پر نہیں،تاریخ کے اس موڑ پر جب برصغیر کی سیاسی جماعتیں سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں آزادی کی خواہاں تھیں ، بھگت سنگھ اور اسکے بہادر ساتھیوں نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ بلند کیا جو آج بھی دِلوں کو گرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے بھی بھگت سنگھ اور ساتھیوں کے خلاف ہونے والی ناانصافی پر آواز بلند کی تھی،تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم نے بھگت سنگھ کو آزادی کا سپاہی قرار دیتے ہوئے مجرم ماننے سے انکار کردیا تھا، بانی پاکستان نے سینٹرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ جو انسان بھوک ہڑتال کرتا ہے وہ ایک نظریاتی متحرک روح رکھتا ہے اور اپنے نظریے کی سچائی پر یقین رکھتا ہے۔بھگت سنگھ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا،بھگت کے والد کشن سنگھ اوردونوں چچا اجیت سنگھ اور سورن سنگھ انگریز تسلط کے خلاف برسر پیکار تھے، بھگت سنگھ کی بچپن کی یادوں میں سے ایک جلیانوالہ باغ کا سانحہ بھی تھا جس میں لگ بھگ چار سو نہتے بے قصور لوگوں کو بیساکھی کے تہوار کے موقع پر انگریز جنرل ڈائر کے حکم پر گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا، اس سانحے نے بارہ سالہ کم سن بھگت سنگھ کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ بھگت سنگھ کے انقلابی نظریات مستحکم کرنے میں ان کی پسندیدہ علامہ اقبال کی شاعری کا بھی کلیدی کردار تھا ۔ بھگت سنگھ کا کہنا تھا کہ ہم گورے سے آزادی اور بھورے کی غلامی نہیں چاہتے بلکہ ہماری جدوجہد اس نظام کے خلاف ہے جو استحصالی حکمراں طبقہ پیدا کرتا ہے۔ بھگت سنگھ کی مختصر زندگی کا ایک اور اہم واقعہ سائمن کمیشن کی لاہور آمد تھا، لاہور ریلوے اسٹیشن پر انگریز سامراج کے خلاف احتجاج کرنے سینکڑوں لوگ جمع تھے جب پولیس نے دھاوا بول کر لاٹھی چارج شروع کردیا، پولیس کے تشدد کے نتیجے میں مظاہرین کی قیادت کرنے والے نمایاں سیاسی رہنمالالہ لاجپت رائے جان کی بازی ہار گئے ۔ بھگت سنگھ کے ساتھیوں نے انتقام لینے کی ٹھانی تو تشدد کا حکم دینے والے پولیس افسر اسکاٹ کی جگہ غلطی سے ایک دوسرے افسر کو مار بیٹھے۔ جب انگریز وں نے تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے دو متنازعہ بل اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا تو بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں نے بطور احتجاج پٹاخے اسمبلی ہال میں پھینک ڈالے، ان بے ضرر دھماکوں سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن انگریز سرکار نے انا کا مسئلہ بنالیا، بھگت سنگھ اور ساتھیوں نے رضاکارانہ گرفتاری پیش کرکے اپنا آزادی کا پیغام ٹرائل کورٹ کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کا پروگرام بنایا، بھگت سنگھ کا مقدمہ تاریخ کے ان مقدمات میں سے ایک ہے جس کی بہت زیادہ میڈیا کوریج ہوئی۔ بھگت سنگھ کے خلاف بدنیتی سے لاہور سازش کیس شروع کیا گیا،انگریز سامراج ایسے کسی فرد کو زندہ رکھنے کا قائل نہ تھا جو انکی حاکمیت کو چیلنج کرکے عوام کی حکمرانی کی بات کرے، انگریز برصغیر میں’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا تھے لیکن بھگت سنگھ مذہبی و قومیتی تفریق سے بالاتر ہوکر انسانوں کی بات کرتا تھا۔لاہور سینٹرل جیل میں جب 23 مارچ 1931ء کی شام کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تو تختہ دار پرکھڑے ہوکر انہوں نے فلک شگاف انقلاب زندہ باد کے نعرے بلند کئے۔بھگت سنگھ آزادی کی جنگ کا ایک ایسا شہید قرار پایا جسے ہر مذہب، زبان ، نسل کے انسان نے خراج تحسین پیش کیا، مختلف زبانوں میں لوک گیت داستانوں اور نصاب تعلیم میں بھگت سنگھ کا ذکر پایا جاتا ہے لیکن اگر نہیں پایا جاتا تو اسکی اپنی جنم بھومی پاکستان میں جہاں وہ پیدا ہوا ۔ اسی طرح اتفاق سے 29مارچ کے دن جنگ آزادی 1857کا آغازکرنے والے کا نام منگل پانڈے ہے، ہمارالٹریچر جنگ آزادی کے واقعات سے تو بھرا پڑا ہے لیکن ہم شاید اپنے تعصبات کی وجہ سے یہ نہیں بتاتے کہ آزادی کی جنگ کی پہلی گولی چلانے والا ایک ہندو سپاہی منگل پانڈے تھاجو بائیس سال کی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت بنگال انفنٹری کی34ویں ریجمنٹ میں بطور سپاہی بھرتی ہوا، برہمن گھرانے سے تعلق رکھنے والے منگل پانڈے نے اس وقت علم بغاوت بلند کردیا جب انگریز وں نے مقامی سپاہیوں کیلئے لازم کردیا کہ وہ ایک ایسی بندوق دانتوں سے داغیں جس میں گائے اور سور کی چربی استعمال کی گئی تھی، گائے ہندودھرم میں پوتر اور سور مسلمانوں کیلئے ناپاک تھا، انگریزوں کے اس ناپسندیدہ اقدام نے منگل پانڈے سمیت ایسٹ انڈیا کمپنی کے غیرت مند سپاہیوں کو آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کے پرچم تلے متحد کردیا، ایسٹ انڈیا کمپنی نے متنازع بندوقیں واپس لینے کی پیشکش کی تو منگل پانڈے نے تاریخی الفاظ کہے کہ بات اب بندوقوں سے آگے بڑھ چکی ہے، انگریز سرکار کے خلاف اٹھنے والے لوگ اب آزادی حاصل کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ منگل پانڈے کو بغاوت کے جرم میں1857ء میں بیرک پور چھاؤنی میں سرعام پھانسی دی گئی تومشتعل لوگوں نے ایسی زبردست جنگ آزادی شروع کردی جس نے ایک سال کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی کو نیست و نابود کردیا ، جنگ آزادی پر قابو پانے کیلئے ملکہ برطانیہ وکٹوریا کو ہندوستان کا کنٹرول خود سنبھالنا پڑ گیا۔میری نظر میں تاریخ سے ناانصافی کرنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔ میں یہ سوال بھی کرنا چاہتا ہوں کہ بھگت سنگھ اور منگل پانڈے کی جدوجہد کس کے خلاف تھی ؟ کیا وہ ہمارے خلاف لڑ رہے تھے ؟ اگر ایسا کچھ نہیں بلکہ وہ اپنے انداز میں ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف نبرد آزما تھے تو آج ان کا نام و نشاں ہمارے لٹریچر اور درسی کتب میں کیوں نہیں پایا جاتا؟ ہم کیوں اپنے بچوں کو یہ نہیں بتاتے کہ آزادی کی انتھک جدوجہدمیں ہندو مسلمان سمیت ہر ایک کی قربانیاں ہیں۔منگل پانڈے، بھگت سنگھ اور تحریک پاکستان کے غیرمسلم اکابرین کو خراج تحسین پیش کرنا ہماری آزادی کی تاریخ کا ایک ایسا قرض تھا جو میں سمجھتا ہوں کہ میں نےکسی حد تک ادا کرنے کی کوشش کردی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)