• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیکشن’’ 9ایف‘‘ والے کیسے کامیاب ہوئے؟

’’ٹوریٹ سینڈروم‘‘ یہ ایک ایسا مرض جس میں مریض کی بے ساختہ آوازیں ہچکیوں کی طرح نکلتی ہیں اور بات کرتے کرتے کرنٹ کی طرح ہلکے جھٹکے بھی لگتے محسوس ہوتے ہیں،اور اس مرض کا فی الحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔

اب اس طرح کی تکلیف دہ صورتِ حال میں کوئی اعلیٰ پڑھ لکھ جائے اور اُس پر اُسے جاب ’’ٹیچنگ‘‘ کی ہی کرنی ہو تو یہ خاصا مشکل اورچیلجنگ فیصلہ ہوتا ہے۔

لہٰذا کچھ ایسا ہی کردار نبھایافلم ’ہچکی‘ میں ’رانی مکھرجی‘ نے۔ جس کو اس کے والد نے ہر موڑپر سراہنے کے بجائےہمیشہ کمزور ہی سمجھا۔


مگر رانی مکھرجی نے اپنے اس ’ڈس آرڈر‘ کو آڑے آنے نہیں دیا۔ اور پھر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور ایک بڑے اسکول میں نوکری مل جاتی ہے۔

پھر کیا تھا نوکری ملی بھی تو ایسی کلاس کہ ’’ٹوریٹ سینڈروم‘‘سے زیادہ ’’ ٹف‘‘ اس جماعت کے14 بچے، مگر یہی حوصلہ ، ہمت اور محنت کا امتحان تھا۔ جس طر ح سے یہ رول رانی مکھرجی نے ادا کیا شاید ہی کوئی اداکارہ اس کردار کو بخوبی نبھا سکتی تھی۔ چنانچہ ممکن ہو کہ اسی وجہ سے ڈائریکٹر’’سدہارتھ ملوتھرا‘‘ نے اس مشکل کردار کے لیے انہی کو چُنا۔

فلم میں دیکھایا جاسکتا ہے کہ طالب ِ علم اپنی اُستاد کو فارغ کرنے کے لیے طرح طرح کے ہربےآزماتے ہیں کہ ٹیچر کسی طرح اسکول چھوڑ کر چلی جائے مگر بچے تو بچے ہوتے ہیں ان کی شررارتوں کا سامنا کرنے والی تھی بھی تو کون بلند حوصلے والی اُستانی’’ میم نینا ماتھر‘‘۔

اس فلم میں ’’ میم نینا ماتھر‘‘ نے اپنے بہترین ٹیچنگ میتھڈسے نہ صرف اپنی کلاس کے بچوں کو علم کی طرف راغب کیا بلکہ دوسری کلاس کے بچوں کو بھی اپنی طرف مائل کیا مگر ان کے ٹیچر ہمیشہ کوشش میں لگے رہتے تھے کہ ان کی کلاس کے بچے ’’ میم نینا ماتھر‘‘ سے دور ہی رہے۔

سیکشن’’ 9ایف‘‘ والے کیسے کامیاب ہوئے؟

فلم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ایک کم بجٹ میں بننے والی مووی ہے، جس کے شاٹس صرف گھر ، مارکیٹ اور اسکول تک ہی محدود رہے ہیں اورگانوں کی تعداد بھی لگ بھگ پانچ کے قریب تھی۔

رہی بات فلم کے ڈائیلاگ کی جس میں رانی مکھرجی نے اپنے بہترین اور مخصوص اندازاور اداکاری سے ڈائیلاگ ڈیلیوری کے ذریعےفلم بینوں کے دل موہ لیے۔

اور اب آپ کو خود ہی فلم دیکھ کر پتا کرنا ہوگا کہ ’’سیکشن 9 ایف ‘‘ والے کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین