اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے صحافیوں کے ضابطہ اخلاق اور دیگر امور کے حوالے سے میڈیا کمیشن کی رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے تجاویزطلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت جمعرات (آج) تک ملتوی کردی ہے جبکہ جیو نیوز نیٹ ورک کی بندش کے معاملہ پر جیو کے وکیل کو ایک نئی آئینی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ٹیلی ویژن چینلوں کو آزادی سے اپنا کام نہ کرنے دینا آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بادی النظر میں پیمرا ایک خود مختار ادارہ نہیں ہے، حکومت پیمرا کو خود مختار انداز میں اپنے فرائض ادا کرنے نہیں دے رہی ہے ایک آزاد اور خود مختار پیمرا کیلئے عدالت کو پیمرا میں چیئرمین اور ممبران کی تقرریوں کے طریقہ کار کا جائزہ لینا پڑیگا ،آزاد و شفاف انداز میں تقرریاں ہونگی تو پھر ادارہ بھی آزاد ہوگا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روزکیس کی سماعت کی تو مقدمہ کے درخواست گزار /جیو نیوز کے سینئر اینکر پرسن حامد میر نے بیان کیا کہ جیو ٹی وی کی نشریات بند کردی گئی ہیں، پیمرا کے حکم پر بھی نہیں کھولی جارہی ہیں۔ انہوں نے فاضل عدالت سے جیو کی نشریات بحال کروانے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تو بڑا پرانا مسئلہ ہے،یہ معاملہ کیبل آپریٹروں سے متعلق ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا نے چینل کھولنے کا حکم جاری کردیا ہے ،ہم اس معاملے میں کیا کردارادا کر سکتے ہیں؟ اگرقانون نے چینل کو نشریات کا حق دیا ہے تو اللہ کے سوا کوئی اسے بند نہیں کرا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹی وی چینلوں کو آزادی سے کام نہ کرنے دینا آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔دوران سماعت جیو نیوز نیٹ ورک کے وکیل جام آصف نے عدالت کو بتایا کہ انکے موکل نے اس حوالے سے ایک نئی متفرق درخواست دائر کی ہے،اس پر احکامات جاری کئے جائیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا متفرق درخواست کی سماعت نہیں کی جائیگی آپ جیو کی بندش کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت ایک نئی درخواست دائر کریں۔ اتوار کو بھی سماعت کرینگے۔ دوران سماعت حامد میر نے موقف اختیار کیا کہ حکومت میڈیا کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں پیمرا کو آزاد اور خود مختار ادارہ بنانے کے موقف سے مکر گئی ہے،حکومت نے فیض آباد میں تحریک یا رسول اللہ کے دھرنا کے دوران ٹیلی ویژن چینل بند کروا دیئے تھے۔ انہوں نے فاضل عدالت سے پیمرا آرڈیننس کی شق 5 اور 6 کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کا موقف پیمرا کو مضبوط بنانا ہے لیکن پیمرا کے قانون کا مکمل جائزہ لیے بغیر اسکی کسی شق کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ ہوسکتا ہے کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ کو بھیجنا پڑجائے۔انہوں نے کہا کہ اس کیس کی اہمیت کے پیش نظر اسکی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرینگے۔ فاضل چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ پیمرا پر حکومت کا کنٹرول ختم کردیں، پیمرا کے قیام کا مقصد اسے آزاد اور خود مختار بنانے سے ہی حاصل ہوگا، ضرورت پڑی تو پیمرا ممبران کی تقرری کا جائزہ بھی لیں گے، فی الحال کسی کو ایکسپوز نہیں کرنا چاہتے، بات چلی تو ممبران کی تقرری سے بھی پردہ اٹھے گا۔ دوران سماعت وفاقی سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصارعالم نے منظوری لئے بغیرہی پیمرا کے قانون میں ترامیم کا معاملہ پارلیمانی کمیٹیوں کو بھجوایا تھا اسی بناء پر پارلیمانی کمیٹیوں نے انکی تجاویز کو مسترد کردیا تھا۔بعد ازاں فاضل عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج بروز جمعرات تک ملتوی کردی۔