تحریر: جینٹ ڈیلے
روس کے وزیرخارجہ ،سرگئی لاوروف،نے گزشتہ ہفتہ کے اختتام پر،اعلان کیا تھا کہ روس نے برطانیہ کے اس دعوے پر ’’توجہ دینا ترک کردیا ہے‘‘جس میں ان کے ملک (روس کو) سیلیسبری میں نرووایجنٹ(اعصابی گیس) حملے کا ذمہ دارٹھہرایا گیا تھا۔اس سے سوالات جنم لیتے ہیں:کب روسی حکام نے اس معاملے پر توجہ دینا شروع کیا؟
اس بارے میں شروع سے ہی یہ تاثرمنڈلاتا رہا ہے کہ روس نے اس پورے واقعے کو ،بالکل حرف بہ حرف ،ایک مذاق کے طورپر دیکھا ہے۔
ایک ایسے وقت جب تین افراد،اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں زیرعلاج رہے، ان میں سے ایک برطانوی پولیس افسربھی تھا،جوجاسوسی کی تاریخ میں کسی بھی حوالے سے ملوث نہیں تھا ،لندن میں روس کے سفارتخانے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیانات کا ایک تانتا باندھ دیا جسے اس موضوع پر غالباً بطور مضحکہ خیز ٹوئٹس دیکھا گیا۔ ہائیلی لائیکلی رشیا کے ہیش ٹیگ کے تحت ، ’’بیسٹ فرام دی ایسٹ‘‘یعنی مشرق کی جانب سے درندہ جانور،نامی حالیہ برفانی طوفان کی تصویریں پیش کی گئیں ۔کریملن کو اس کے لئے بھی قیاس کرتے ہوئے موردالزام ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔
لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے والے روسیوں سے میری ملاقات ہوئی ہے جوماسکوکے دفاع میں بات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں،ان کے پسندیدہ لفظ یہ ہے کہ ’’ سب کچھ مضحکہ خیزہے‘‘۔ان الزامات کی سنجیدہ نوعیت کے حوالے سے وہ جوموزوں ترین اقدام کرسکتے ہیں، جب وہ ٹھٹھا بندکریں،یہ کہ وہ اپنی بےقصورقوم کی ساکھ کو ختم کرنے کے لئے ایک سوچے سمجھے جھوٹ پر مبنی پروگرام اورسیاسی سازش کا حصہ ہیں۔
اگرآپ یہ خیال کرتے ہیں کہ میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہی ہوں،تومیں اپنے ذاتی تجربے سے انتہائی بے سروپا مثال دی سکتی ہوں جس میں ایک ایسے ہی روسی شخص کی جانب سے بی بی سی گرین روم میں بین الاقوامی صحافیوں کے ایک گروپ کو دعوت دی تھی،اس موقع پر اس روسی شخص کا اصرارتھا کہ الیگزینڈرلٹکویننکوکو غلطی سے درحقیقت خودہی زہرخورانی کرنی پڑی تھی۔
انہوں نے ان سے ملاقات کے لئے آنے والے دو روسی حکام کے قتل کا ارادہ کرتے ہوئے حادثاتی طورپر بدنام زمانہ پولونیم -20خوداپنی چائے کی پیالی میں ڈال دیا تھا۔ اس امکان کا سامناکرنے پر کہ کوئی مخصوص شخص جب آپ کو یہ کہانی بتاتےہوئے آپ کی آنکھوں میں براہ راست دیکھ رہا ہو،توآپ اس فورنزک شواہد کا حوالہ دینے کا فیصلہ کرسکتے ہیں جس نے اس پلوٹونیم کے نقش پا کے کھوج لگانے کو بے نقاب کیا جس نے اس سارے عمل کے روسی مادروطن تک اورپھر وہاں سے یہاں تک اس ہلاکت خیز ملاقات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی۔ لیکن اس کا کچھ بھی اثرنہیں ہوگا۔
آپ خود کو کسی دیوارسے باتیں کرتے ہوئےپائیں گے۔( سرگرم دشمنوں وغیرہ کی جانب سے مفروضہ ثبوت کی کوئی بھی مقداربے بنیاد جھوٹے الزام کے طورپرگڑھ لی جاسکتی ہے) آپ جو کچھ کہتے ہیں اس کا ذرہ برابربھی اثرنہیں ہوگا اورنہ ہی اس سلسلے میں روس کےاقدامات پر کسی قسم کے اخلاقی غم وغصے کا اظہار ہوگا ۔
آپ خود کو ایک دیوارسے باتیں کرتے ہوئے پائیں گے۔(سرگرم دشمنوں وغیرہ وغیرہ کی جانب سے کسی بھی مقدارمیں مفروضہ شواہدگڑھے جاسکتے ہیں۔)آپ جو کہتے ہیں وہ ذرہ برابر تاثربھی قائم نہیں کرپائے گا نہ ہی روس کی ان اقدامات پر کسی قسم کا اخلاقی اشتعال پیدا ہوگا۔ریفرنس کے سرکلر فریم کے اندرسے دیکھا گیا ہے جس میں یہ تمام مباحثہ بے نتیجہ اورتمام شواہد ناقص ہیں،یہاں ایسا کچھ بھی نہیں جو کسی بھی روسی مجرمانہ فعل کے ثبوت کے طورپر شمارہوگا۔
لیکن دنیا اس قومی فریب کی عادی ہوچکی ہے۔روسی سرحدوں کے باہر سے اس ضمن میں تنقید پر پیوٹن حکمراں انتظامیہ کا ردعمل اس قدرقابل پیشگوئی بن گیا ہے حتیٰ کہ اس کے سفارتی مجازادارے ،مجموعی طورپر،کی جانب سے بھونڈے پن سے نامناسب رویے پر، ایسے وقت جب لوگ مررہے ہوتے ہیں تو یہ اپنے سفارتخانے سے بچکانہ ٹوئیٹس جاری کرتا ہے،جسے کم سے کم درجے میں نفرت انگیزقراردیا گیا۔اس افسانوی داستان کے روسی سرحدوں سے ماوراعلاقوں تک رسائی کا عمل سمجھنا مشکل ہے ،یہ نہ صرف بائیں بازوکی سیاست کرنے والے برطانوی باشندوں تک پھیل گئی ہے، جس سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے اس بات کی خبرنہیں لی ہے کہ روس اب ایک سوشلسٹ ملک نہیں رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے روسی تارکین وطن تک بھی پہنچ چکی ہے۔
نیویارک کی روسی برادری میں ہم اپنے دوستوں کو ،اکثر سوشل میڈیا پر،متبادل حقیقت کے اس غیر حقیقت پسندانہ مدارمیں گھسیٹے جاتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ تعلیم یافتہ پیشہ ورانہ ماہرین ، جو کافی طویل عرصے سے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں رہائش پذیر رہے تھے تاکہ اپنے لیے بہت بڑھیا انعام والی امریکی شہریت حاصل کریں ،اچانک ہمیں روسی قوم پرست ویب سائٹس کے لنکس کے طوفان میں غرقاب کررہے تھے، جوایک گھمنڈی روسی ریاست ،دنیا میں اپنی استحقاقی جگہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ملک،کو کمزورکرنے کے مغربی دنیا کی اسے بدنام کرنے کی سازش کے خلاف کرایے پر لیے گئے تھے۔
غالباًیہ افرادروس میں رہنے والے اپنے خاندان اوردوستوں کے رویوں سے انتہائی متاثرہورہے تھے اوراب پیوٹن کی پرستش والی جنونی حدتک جذباتی رو میں بہہ گئے ہیں جو تقریباًدنیا بھر میں نمودارہوتی دکھائی دیتی ہے۔
یہ عوامی جوش وخروش خودکو مزید طاقتور بنانا، کسی قیادت ،جو یہ خیال کرتی ہے کہ یہ نہ رکنے والے کردارپر عمل پیرا ہے ،کی جانب سے زیادہ سے زیادہ حقارت آمیز مہم جوئیوں کی ضرورت کو روک دینا ہوسکتا ہے۔یہ طرزعمل کمیونزم کا دھڑم تختہ ہونے سے قبل برسوں پائی جانے والی طعن آمیز علیحدگی کے بالکل برعکس ہے۔
(ایک قدیم سوویت لطیفہ:ماسکو میں ایک شخص چلتے ہوئے کھانے پینے کی ایک دکان پر پہنچتا ہے،اردگردنظردوڑاتا ہے اورکہتا ہے’’کیا آپ کے پاس گوشت نہیں ہے؟‘‘دکاندارجواب دیتا ہے: ’’نہیں،ہمارے ہاں کوئی مچھلی دستیاب نہیں۔وہ دکان گلی پار ہے جس میں کوئی گوشت نہیں ہے۔‘‘)
حوصلہ پست کردینے والے ان معاملات کے دوران رہتے ہوتے،مجھے ایک خیال آیا۔دنیا جہاں میں کہیں بھی کیاہم نے ایسی کوئی آبادی دیکھی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ انہیں عالمی استرداد کے لئے کھلے عام محرومی میں جکڑے رکھا جاتا ہے،بظاہر انہیں ایک ایسے قومی رہنما کی پیروی کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو اپنے ذاتی وفادارحمایتیوں(چمچوں) کے سواکسی اورکی رائے کو خاطر میں نہیں لاتا ہے؟ایسا وہ کون ہے جو عالمی اسٹیج پرایسے چھچھورے ٹوئیٹس جاری کرتا ہے جو یوں دکھائی دیتے ہیں کہ یہ مہذب سفارتکاری کے روایتی عہدوپیماں کو چیلنج کرنے کے لئے تیار کیے گئے ہیں؟آپ اس کا اندازہ کرچکے ہیں۔
اب،یہ بالکل واضح ہوجانا چاہئے،میں ہرگزیہ تجویز نہیں کررہی کہ پیوٹن کے اقدامات،جن میں کسی انفرادی دشمن کے قتل سے لے کر شام میں بشارالاسد کی حکمراں انتظامیہ کی حمایت میں جنگی جرائم تک جن کا وہ مرتکب ہوئے ،یا کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق اور مشرقی یوکرین میں غیر قانونی شب خون مارنے کے واقعات ،اورڈونلڈٹرمپ کے مخصوص رویے میں کوئی اخلاقی مماثلت ہے۔
امریکا کے موجودہ صدربے وجہ ناپسندیدگی اورغیر منظم اندازمیں ذاتی تضادکے شکاررہے ہیں۔وہ ایک نقصان دہ تجارتی جنگ تجویز کررہے ہیں ،ایسی جنگ جس کے متعارف کرانے میں شاید وہ کامیاب ہو یا نہ ہو۔ لیکن انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے یا نہ ہی ایسی دھمکی دی ہے، یہ پیوٹن کی بے لگام جارحیت کے ساتھ معمولی طورپر قابل موازنہ ہے۔
ایسا نہیں ہے،میں یہ دعویٰ نہیں کررہی کہ یہ دونوں شخصیات یکساں طورپر قابل مواخذہ ہیں۔میں تو بس اس حقیقت کو قلم بند کرنا چاہتی ہوں کہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے لوگ انتہائی یکساں اندازارمیں ایسی صورتحال میں جکڑے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں جو بذات خود انتہائی خوفناک ہے۔انہیں اب اس بات کی فکر نہیں رہی ہے کہ باہر کی دنیا ان کے یا ان کی حکومتوں کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔یہ دونوں طاقتیں موجودہ بحرانوں ،خواہ یہ روس کے معاملے میں سابق سوویت یونین کے خاتمے اورامریکا کے حوالے سے اس کی خودکار بہتری کے مخصوص مزاج کے لازمی عناصرخوشحالی اورسماجی نقل وحرکت میں کمی ،کے بعد اپنی ذاتی صلاحیتوں پر اعتماد کی بحالی کے حوالے سے اس قدرفکرمند ہیں کہ یہ عالمی سطح پر کسی بھی قسم کی ذلت ورسوائی کا خطرہ مول لیں گے۔درحقیقت ،بدنامی اورتنقید کا یہ اتارچڑھاؤ صرف ان کے درست مشن(مقصدخاص) کے متعلق ان کے عقل وشعورمیں اضافہ کرتا ہے۔امریکا کو روس کی نشاۃثانیہ،درحقیقت ایک خطرناک زمانے، کا چیلنج درپیش ہے ۔