• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم میں انٹرنیشنلایزیشن کو اکثر ٹی این ای (ٹرانس نیشنل ایجوکیشن) کہاجاتاہے۔ پاکستان میں اس اہم موضوع پر بہت کم لکھا گیاہے، اس کے باعث طالب علموں کیلئےتیزی سے بڑھتی ہوئی عالمی مارکیٹ خاص طورپر ہائیرایجوکیشن کے میدان میں نئی راہیں کھلتی ہیں۔ ہائرایجوکیشن ٹی این ای کی تعریف ایک ایسے کام کے طورپرکی جاتی ہے جس میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے دوسرے ملک میں تعلیم فراہم کرتے ہیں اور طالب علم تعلیم کے لیے دوسرے ممالک میں نہیں جاتے۔ اس کی کئی اشکال اور اقسام ہوسکتی ہیں لیکن یہ برانچ کیمپسز، ڈسٹنس لرننگ، آن لائن تعلیم کی فراہمی، مشترکہ اور دوہری ڈگری پروگرامز وغیرہ تک محدود نہیں ہے،ہم اس سب کی مضمون میں درجہ بندی کریں گے۔ یونیسکو( یونائیٹڈنیشن ایچوکیشنل، سائنسٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن) ٹی این ای کی تعریف یوں کرتی ہےکہ تمام طرح کے اعلیٰ تعلیم کے پروگرامزیا تعلیمی کورسز کا ایک ایسا سیٹ جس میں طالب علم ایسے ملک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں ڈگری دینے والا ادارہ واقع نہیں ہوتا۔ ٹی این ای تیزی سے بڑھتا ہوا ایک عالمی پلیٹ فارم ہے جو طالب علموں کوان کے ملک میں ہی بین الااقوامی طورپرتسلیم شدہ تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اس طریقہ کار کو عالمی طورپر تسلیم کیاجارہاہے۔ مغرب میں بین الااقوامی طالب علموں سے جمع ہونے والی ٹیوشن فیس اندرونی معاشی دبائو کے باعث وسائل کی کمی کی تلافی کااہم ذریعہ بن چکا ہے۔ نتیجتاً ٹی این ای تعلیمی میدان میں نہ صرف ایک نیا میدان ہے بلکہ دنیا بھر میں یونی ورسٹیز کیلئے آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔ ٹی این ای کو مکمل طورپرسمجھنے کیلئے 5مقبول ترین طریقوں کو سمجھنا ہوگا جو دنیا بھر میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ (1 )برانچ کیمپس: برانچ کیمپس انتطامات کے تحت سورس ملک میزبان ملک میں ایک مکمل برانچ کیمپس قائم کرتا ہے تاکہ طالب علموں کو ان کے ملک میں ہی تعلیم فراہم کی جائے۔ اس طریقے میں مقامی اسٹاف کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک سے بھی ڈپیوٹیشن پر اسٹاف کی تقرری کی جاتی ہے۔ تاہم برانچ کیمپس میں جو پراگرام پیش کیے جاتے ہیں وہ کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ (2 ) فرنچائزیا پارٹنرشپ ایم اویوز: ٹی این ای کے ان انتظامات کے تحت میزبان ملک کو دوسرے ملک کے پروگرامز پڑھانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ پڑھانے، کورس ڈلیوری، مینجمنٹ، منافع، اوردیگر انتظامات میزبان ملک اور سورس ملک کی پالیسی کے مطابق کیےجاتےہیں۔ ڈگری اچھی اور مہنگی ہونے کے باوجود یہ طریقے کار میں کچھ معاشی اور ساکھ کے مسائل ہیں۔ (3)آرٹیکولیشن / باہمی تعاون کامعاہدہ: آرٹیکولیشن معاہدہ تعلیم فراہم کرنے والاملک ایک نظام کے تحت میزبان ملک کے ادارے میں تعلیم دیتا ہے۔ ٹی این ای کی یہ شکل ایک ادارے کا دوسرے ادارے سے تعاون پرمبنی ہے جو سورس ملک اور میزبان ملک کے ہوتےہیں اور طالب علم میزبان ملک میں ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کریڈٹ فائنل ڈگری کی جانب منتقل ہوجاتےہیں۔ (4) ڈسٹنس لرننگ / ورچوئل ایجوکیشن: ڈسٹنس لرننگ طریقہ کار میں کورسز کو ٹیلی ویژن، ریڈیو، کمپیوٹرز، انٹرنیٹ، ویڈیوکانفرسنگ، سکائپ یا کسی اور طریقہ کار کے ذریعے پڑھایاجاتاہے۔ طالب علم اس طریقہ کار کے تحت دنیا کے کسی بھی حصے سے براہ راست سورس ملک کےتعلیمی ادارے میں داخلہ لیتےہیں۔ اس طریقہ کار میں کبھی کبھارآمنے سامنے لیکچریا ورکشاپس کی جاتی ہیں جبکہ دویگر کام مقامی تعلیمی مراکز میں ہی کیاجاتاہے۔ (5) دوہری مشترکہ ڈگری: اس طریقہ کار کے تحت مختلف ممالک سے تعلیم دینے والے ٹریننگ فراہم کرنے کیلئےاکٹھے کام کرتے ہیں اور طالب علم دونوں سےتعلیم حاصل کرتے ہیں یا پھر پارٹنرز سے مشترکہ ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ اس کام میں اہم مشکل میزبان ملک میں اعلیٰ تعلیم کی فراہمی ہے اور وہ بھی سستی قیمت پر۔ ٹرانسنیشنل ایجوکیشن کو بین الاقوامی تعلیم کے رجحان کی پیروی کرنی ہوگی جہاں انگریزی زبان والے ممالک یعنی برطانیہ امریکا اور آسٹریلیا میں آدھے سے زیادہ غیرملکی طالب علم جاتے ہیں۔ کسی بھی طریقے سے تعلیمی خدمات کی برآمدگی اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کی ایک حکمت عملی ہے۔ نتیجے کے طور پرکئی علاقائی مراکز سامنے آئےجہاں ٹی این ای شروع کی گئی ان میں 1) سنگاپور اور ملائیشیا 2) چین اور ہانگ کانگ 3) بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان 4)متحدہ عرب امارات اور قطر 5) جنوبی افریقہ۔ ایک تجزیے کے مطابق یہ علاقائی مراکز نہ صرف طلبہ کی نقل و حرکت تبدیل کررہے ہیں بلکہ نصاب کی تیاری اور انفراسٹرکچر سے متعلقہ سہولیات کی فراہمی پر بھی اثرانداز ہورہی ہیں۔ ماضی قریب میں تائیوان، جنوبی کوریا اور چین کی بہت سے یونی ورسٹیز نے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے کئی پروگرامز متعارف کرائیں ہیں۔ ایک اور دلچسپ تجزیہ اور تحقیق ورلڈ ایجوکیشن سروسزنیویارک کے ریسرچ ڈائریکٹر راہول چودہ نے کی، تحقیق میں ایشیا کی ایک نئی کنزیومر کلاس کا انکشاف کیاگیاہے جس میں ایسے طالب علم شامل ہیں جو اپنے ملک میں رہتے ہوئے بین الااقوامی تعلیم کیلئے قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ وہ ان طالب علموں کو ’’گلوکل‘‘ کانام دیتے ہیں۔ اس کی ایک اچھی مثال دبئی ہے جو ۜجنوبی ایشیائی طالبِ علموں کیلئے تعلیم کے حصول کیلئے ایک مرکز ہے، اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اسی طرح ملائشیا میں بھی کئی غیرملکی یونی ورسٹیز کے برانچ کیمپسزہیں اور ملائشیا اب برانچ کیپمسزکو بڑھانے کی منصوبہ نبدی کررہاہے۔ٹی این ای سے مقامی مہارت، بڑھانے اور سرمائےکی بیرونِ ملک منتقلی روکنے اور مقامی تعلیمی نظام پر دبائو میں کمی کیلئے مدد ملتی ہے۔ اس سے طالب علموں کیلئے نئے مواقع اور مقامی اور بین الااقوامی اداروں میں مقابلے کی فضاپیدا ہوتی ہے۔ اس سے پاکستان جیسے ترقی پزیرممالک سے برین ڈرین میں کمی ہوتی ہے۔ حالیہ رجحانات، معاشی ترقی اور جیوپولیٹکل پیشرفت کی بنا پرترقی پزیر ممالک سے طالب علموں کا بیرونِ ملک جانا اب کم ہوگا اور طالبعلم ایشیاء،یورپ اور شمالی امریکا کے درمیان واپس اپنے ملک ہی جائیں گے۔ یہ دلچسپ ہے کہ ابھرتی ہوئی سُپرپاور چین سے جتنے طالب علم باہر جاتے ہیں اس سے زیادہ اب وہاں آتے ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق چین بین الاقوامی طالب علموں کی تعدادکے حوالے سے دنیا میں 5ویں نمبر پر ہے ، یہ صرف امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے پیچھے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے کافی کوشش کررہاہے اور 2020تک یہ ایک اہم تعلیمی مرکز ہوگا۔ اسی طرح کی حکمت عملی سنگاپور، ملائشیا اور بھارت نے بھی اپنائی ہے۔ ایشیاءمیں ٹی این ای کو متعارف کرانےکا مطلب یہ ہے کہ ایشیائی ممالک مزید بین الاقوامی بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایشیاء کے ضرورت سے زیادہ مغربی کلچر اور زبان کواپنانے پر تحفظات ہیں۔ ٹرانسنیشنل ایجوکیشن کے باعث کچھ خطرات اور نقصانات بھی ہیں۔ ان میں تعلیمی خودمختاری کاخاتمہ، ثقافتی تحفظ کوخطرہ، ریگولیٹری فریم ورک وغیرہ شامل ہیں۔ برطانیہ اور آسٹریلیا کی ٹی این ای مارکیٹ میں دستیاب قابل اعتماد اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ مارکیٹ بہت اہم ہے اور ترقی کررہی ہے۔ مثال کے طور پر ہائیرایجوکیشن سٹیٹسٹکس ایجسنی یوکے کے مطابق بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی تعداد برطانیہ میں سال 2016/17 میں کافی اضافہ ہواہے اور طالب علموں کی موجودہ تعداد 707915ہے جو سال 2012/13میں 598485 تھی۔ پاکستان میں ٹی این ای کی صورتحال: پاکستانی میں گزشتہ دہائی کے دوران ہائیرایجوکیشن کےمیدان میں حیران کن ترقی ہوئی ہے، یہ خاص طور پر 2002 میں ایک صدارتی حکم نامے کے بعد ایچ ای سی کے قیام کے بعد ہوا۔ اب ملک میں 183 تسلیم شدہ یونی ورسٹیز ہیں یہ پبلک اور پرائیویٹ ہیں اور ان میں 12لاکھ سے زائد طالبِ علم زیرتعلیم ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹرتیزی سے ترقی کررہاہے اور تقریباً 40فیصد ہائیرایجوکیشن پرائیوٹ شعبہ فراہم کررہاہے۔ غیرملکی تعلیم دینے والے بھی ملک میں کام کررہے ہیں یہ زیادہ تر باہمی تعاون کے طریقے کار کے ذریعے کام کررہے ہیں۔ ایسے تمام پروگرامز کو ایچ ای سی کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایچ ای سی کو بھی ٹرانسنیشنل ایجوکیشن کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ ملک میں ایچ ای سی اور کیواے اے کے اشتراک سے ہونے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں ٹی این ای کے میدان میں بتدریج ترقی مندرجہ ذیل گراف کے مطابق ہوئی ہے:دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں انٹرنیشنل ایجوکیشن کافی محدود ہے۔ برطانوی کوالٹی انشورنس ایجنسی مزید انکشاف کرتی ہے کہ ایچ ای سی کی جانب سے منظورشدہ صرف 9 پارٹنرشپس کام کررہی ہیں۔ ان میں سے 6برطانیہ سے ہیں اور 3آسٹریلیا، ملائشیااور امریکا سے ہیں ، جیسا کہ مندرجہ ذیل چارٹ میں دکھایاگیاہے:برطانوی ہائیرایجوکیشن سٹیٹسٹکس ایجنسی کے مطابق پاکستان میں برطانوی ڈگری لینے والے طالب علم 2015-2016 میں 46640 تھے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں یہ تعداد 33فیصد بڑھ چکی ہے اور اب پاکستان برطانوی ٹی این ای کے میزبان ممالک میں سنگاپور، چین اورملائشیا کے بعد چوتھے نمبرپر ہے۔ وہ غیرملکی ادارے جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں انھیں معلومات فراہم کرنے اور پاکستان لانے میں ایچ ای سی اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے چیئرمین ایچ ای سے اور ان کی ٹیم بی سی اور کیو اے اے کے ساتھ مل کر کام کررہی ہےاور کئی بار برطانیہ کی اعلیٰ باڈیزاور یونی ورسٹیز سے 2016اور2017میں ملاقاتیں بھی کرچکی ہے۔ اب یہ ایچ ای سی اور کیو اے اے پر ہے کہ وہ ملک میں سروے کریں اور ٹی این ای کی فراہمی کے حوالے سے مواقع تلاش کریں۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ کیو اے اے کی ٹیم نے 2017میں پاکستان کا دورہ کیا اور متعدد ٹی این ای پاٹنرزاور اداروں سے ملاقاتیں کیں۔ اس سے نظرثانی ٹیم کو بہت سے ٹی این ای ماڈلز کا تجزیہ کرنے کا موقع ملا۔ نظرثانی ٹیم چند شراکت داروں سے کافی متاثر ہوئی ان میں سب سے اہم ملینیم یونی ورسٹی کالج تھی۔ ان کے مطابق اس گروپ کے پاس جدید ترین سہولیات ہیں اور بڑے شہروں میں بامقصد یونی ورسٹی کمپیسز کے ذریعے پروگرام پیش کرتے ہیں۔ دیگر دوٹی این ای پارٹنرشپس جہاں ٹی این ای کے پروگرام پڑھائے جاتے ہیں ان میں لاہور میں واقع بی ای ٹی ایس اور اے سی سی اے ہے جو 1996 سے کام کررہاہے اور ملک بھر میں اس کے 6دفاتر ہیں۔ مصنف کو ایچ ای سی چیئرمین ڈاکٹرمختار احمد سے ٹی این ای کے فوائد اور چیلنجز پر بات کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ محترم چیئرمین ہائیر ایجوکیشن میں انٹرنیشنلائزئشن کے بارے میں کافی واضح تھے ان کے مطابق پاکستان میں ریسرچ اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے یہ بہت ضروری ہے۔ انھوں نے تصدیق کی کہ برٹش کونسل کےساتھ 3اپریل 2018کو ایک خط پر دستخط کے گئے ہیں تاکہ پاکستان میں برطانوی تعلیمی اداروں کو ٹی این ای کے ذریعے خوش آمدید کہا جائے۔ ہم بین الاقوامی تعلیم کے لیے اپنے دروازے کھول رہے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ پاکستانی اداروں کو بھی ان ممالک میں برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم کیے جائیں۔ انھوں نے پاکستان میں این یو ایس ٹی، آئی بی اے، این ای ڈی، کمز کی مثال کا حوالہ دیا اور کہاکہ انھیں اپنے پروگرام بیرون ملک پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ ایچ ای سی اور متعلقہ اتھارٹیز کی جانب سے یہ اقدامات ٹی این ایچ ای پروگرامز کی ترقی میں اہم کردار ادا کرےگا۔ امید ہے کہ اب پاکستانی طالب علم جو منظورشدہ بین الااقوامی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اپنا ملک چھوڑے بغیر اور بہت زیادہ رقم خرچ کیے بغیر اس قابل ہوں جائیں گے۔

تازہ ترین