• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آگہی کے چراغ

 ڈاکٹر شیر شاہ سید

مختلف کتابوں میں لائبریری کی تعریف مختلف طریقوں سے کی گئی ہے، مگر آج کل کے زمانے میں لائبریری ایک ایسی جگہ کو کہا جاتا ہے ، جہاں ہر قسم کی معلومات کو منظم طریقے سے رکھا جاتا اور ضرورت کے مطابق ان معلومات سے فیض یاب ہوا جاتا ہے۔ یہ معلوما ت مٹی کے کتبوں ، کتابوں ، نقشوں ، فلموں کی صورت میں موجود ہو سکتی ہیں۔ انہیں کمپیوٹر ہارد ڈسک، سی ڈی، یو ایس بی میں بھی محفوط کیا جاسکتا ہے۔ 

لائبریری میں انسانی آوازوں سے لے کر جانوروں کی آوازیں ، مختلف قسم کی موسیقی اور وسیع و عریض کائنات کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کو اکھٹا کیا جا سکتا ہے۔زیر نظر مضمون انہی لائبریریوں کے بارے میں ہے، کوشش کی گئی ہے کہ زمانۂ قدیم کی عظیم لائبریریوں کی داستان ، زمانے کی جدید لائبریریوں اور عجیب و غریب لائبریریوں کے بارے میں بنیادی معلومات یکجا کیا جا سکے۔ لائبریریوں کی داستان دل چسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔

دنیا کی پہلی لائبریری کب وجود میں آئی شاید اس کا جواب کبھی نہ مل سکے۔ ہر روز ہونے والی نئی تحقیق سے کچھ نیا ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ان معلومات سے یہ تو اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی ارتقاء کے ایک خاص مرحلے پر، جب انسان نے درختوں ، غاروں، پہاڑ،دیواروں اور پتھر وں پر اپنی سوچ ، سمجھ کے نقش مرتب کرنے شروع کیے ، تو انہیں بھی اندازہ ہوگاکہ ہزاروں سال بعد یہ تحریریں منظر عام پر آجائیں گی۔

جنوری 2015کے نیشنل جغرافیہ کے شمارے میںایسے شواہد سامنے آئے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں نے تقریباً چالیس سے پچاس ہزار سال پہلے لکڑی کے انسان اور جانور بنائے اور اس سے بھی پہلے غاروں میں مقیم رہتے ہوئے، غاروں کی دیواروں پر جانوروں کی تصویریں بنائیں۔ ان نامعلوم فن کاروں کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ ہزاروں سال کے بعد ان کی بنائی ہوئی تصویروں ، تحریریںاور آرٹ کے نمونوں سے دورِ حاضر کا انسان آگاہ ہوگا۔ہم آپ کو دنیا کی اوّلین وقدیم لائبریریوں اور تحریروں کے بارے میں وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہیں گے۔ اس ہفتےپاکستان، چین اور ہندوستان کی چند قدیم لائبریریوں کے بارے میں ملاحظہ کیجیے۔

پاکستان

پنجاب پبلک لائبریری: اس کا شمار ہندوستا ن کی پرانی لائبریریوں میں ہوتا ہے،جو اب پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔129برس پرانی لائبریری کافی کسمپرسی کا شکار ہے۔ اسے جدید خطوط پر نہیں چلایا کا سکاہے۔

جنرل لائبریری سکھر: پاکستان کے شہر سکھر میں جب انگریزوں نے دریائے سندھ پر کام شروع کیا تو 1869میں جنرل لائبریری سکھر کا قیام عمل میں آیا۔ یہ لائبریری بھی کسمپرسی کا شکار ہے۔

پنجاب یونیورسٹی لائبریری: یہ پاکستان کی بڑی لائبریری ہے، جہاں پانچ لاکھ سے زائد کتابیں ہیں۔ اس لائبریری میں تحقیق کی سہولتیں موجود ہیںاور کسی حد تک لائبریری کو بہتر حالت میں رکھا گیا ہے۔حقیقی تعلیمی معاملات میں حکمرانوں کی غیر دل چسپی کی وجہ سے یہ لائبریری حقیقی معنوں میںوہ ترقی نہ ر سکی ، جو اس لائبریری کا حق ہے۔ 

پاکستان کے تقریباً سارے ہی سرکاری تعلیمی اداروں سے اس قسم کی شکایتیں آتی رہتی ہیں، کہ وہاں قابلیت کے بہ جائے اقرباء پروری کے تحت فیصلے کیے جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لائبریری جیسے اداروں کو بھی خاص فوقیت حاصل نہ ہو سکی۔

ہمدرد لائبریری:حکیم سعید کی بنائی ہوئی لائبریری کا شمار پاکستان کی بڑی لائبریریوں میں ہوتا ہے۔ حکیم سعید نے اس لائبریری میں قابل قدر اضافہ مرنے والے مشاہر کی لائبریریوں اور پرانی کتابوں کے بازاروں سے کتابیں خرید کر کیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں کچھ لوگوں نے ذاتی لائبریریاں قائم کی کی ہیں، جو انفرادی طور پر بہت اچھی کاوش ہے، مگر ہمارے ملک میں لائبریریوں کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ مقتدر حلقے، اہل علم یاعوام بھی اس سلسلے میں مکمل طور پر لا علمی کا شکار ہیں۔

مشفق خواجہ، معین الدین عقیل کی ذاتی لائبریری:پاکستان میں مشفق خواجہ اور پروفیسر معین الدین عقیل کی ذاتی لائبریریوں کا شمار عمدہ لائبریریوں میں ہوتا ہے۔ مشفق خواجہ کے انتقال کے بعد ان کی لائبریری کی ذمے داری ایک امریکن یونیورسٹی نے لے لی اور وہ اس قسم کا نظام مرتب کرنے میں مصروف ہے، جس سے ان کتابوں کی رسائی ہر خاص و عام فرد تک ہو سکے۔ مشہور قانون دان کی کتابوں کو بھی کراچی کی ایک لائبریری کی زینت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

چین

چین ایک ایسا ملک ہے، جس کی تاریخ نہ صرف یہ کہ قدیم ہے بلکہ تاریخی تسلسل قائم و دائم ہے۔ بڑا ملک ، بڑی آبادی ، بے شمار زبانیں، ثقافتیں ، تہذیب و تمدن کی وجہ سے چین میں مختلف ادوار میں مختلف حالات کی وجہ سے مختلف چیزیں ہوتی رہی ہیں۔ 

جنگوں نے تہذیبوں کو نقصان بھی پہنچایا ہے اور فاتح بادشاہوں نے نئی نئی دنیائیں بنانے کی بھی کوشش بھی کی ہے۔چین میں لائبریری کے آثار 1600قبل مسیح کے زمانے میں شینگ شاہی خاندان کی حکمرانی کے دور میں ملے ہیں۔ چین کے شاہی خاندان کے افراد کتاب ، شاہی حکم ناے ، خاندانی تفصیلات ،قدرتی آفات کی تفصیلات ، جنگی مہموں کی تفصیلات اور حکومتی ریکارڈ کو محفوظ طریقے سے لکھنے کی سر پرستی کرتے تھے۔ کاغذات کو ذخیرہ کیا جاتا تھا، لیکن چین کی ایک مشہور کہاوت ہے ’’اگر کتابیں پڑھی جائیں تو انسان چھوٹے کام (مزدوری اور کھیتی باڑی)نہیں کرتا بلکہ عالم اور دانش مند بنتا ہے۔‘‘

چینی تہذیب و تمدن میں تعلیم اور کتابوں کی بہت اہمیت رہی ہے، قدیم چین میں علم حاصل کرنا اور کتابیں رکھنا صرف اشرافیہ کا ہی حق تھا، جنہوں نے اپنے بچوں کے لیے پڑھنے لکھنے اور اداروں کی تشکیل دی تھی۔ چینی عوام پڑھنے لکھنے کے نہ تو اہل سمجھے جاتے تھے اور نہ ہی ان کے لیے اس قسم کے ادار ے تھے۔ شاہی خاندان کے افراد نوابین معززین اور نمایاں افراد کتابیں جمع کرتے تھے اور اور اپنی ذاتی لائبریریاں بناتے تھے۔ 

چین میں ایسی کئی ذاتی لائبریریوں کے وجود کے ثبوت ملے ہیں۔ قدیم لائبریری میں کتابیں محفوظ کی جاتی تھیں، اسی زمانے میں ہی جلد بندی کا آغاز بھی ہوا اور کتابیں لکھنے والوں کی سر پرستی بھی کی گئی۔ علم کی فضیلت کے ادراک کے باوجود تعلیم اور کتابوں کو عام آدمی کی دسترس میں نہیں آنے دیا گیا۔ چین کی ابتدائی تاریخ میں یہ بات واضح ہے کہ بڑے لوگ اور شاہی خاندان اپنی ذاتی لائبریریاں بناتے تھے، جہاں کتابیں اور اہم دستاویزات محفوظ ہوجاتی تھیں۔ چین میں جدید لائبریریوں کا قیام انیسویں صدی میں عمل میں آیا۔ 1949 میں پورے چین میں صرف 55عوامی لائبریریاں تھیں۔ 

کمیونسٹ انقلاب کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ چین میں لائبریریوں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ فوری طور پر بیجنگ نیشنل لائبریری ، شنگھائی لائبریری اور 9علاقائی لائبریریاں 1957تک قائم کی گئیں ۔ 1980میں ایک ہنگامی مہم کے بعد پورے ملک میں لائبریریوں کا جال بچھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1985تک چین میں دو لاکھ سے زائد لائبریریاں قائم کر دی گئیں۔اس کے علاوہ 53000ثقافتی مرکز بنائے گئے، جہاں چھوٹی لائبریریاں بھی بنائی گئیںاور ضلعی سطح پر 2300لائبریریاں وجود میں آئیں۔ 

اس وقت چین کی مختلف لائبریریوں میں چھ کروڑ سے زیادہ کتابیں ہیں۔ ان کے علاوہ یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں جدید کمپیوٹر کے نظام کے تحت دنیا کی بہت سی لائبریریوں کی کتابوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ شنگھائی میونسپل لائبریری میں دس لاکھ سے زیادہ دوسری زبانوں کی کتابیں ہیں، جب کہ قدیم کتابوں کی تعداد تقریباً سترہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔2004میں چین کی ڈیجیٹل لائبریری قائم کی گئی ہے، جو حجم کے لحاظ سے چینی زبان کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔

ہندوستان

قدیم ہندوستان میں ٹیکسلا، موہن جو دڑو، نالندہ میں تعلیمی اداروں اور لائبریریوں کے شواہد ملے ہیں، جہاں ہزاروں کی تعداد میں کتابیں رکھی جاتی تھیں۔ ہندوستان کے قدیم تعلیمی اداروں کے علاوہ کتابوں کو مندروں میں بھی محفوظ کیا جاتا تھا، راجہ مہاراجہ اور بادشاہوں کے محلوں میں لائبریریاں قائم کی جاتی تھیں۔ عوام کے لیے لائبریریوں کا تصور صرف ٹیکسلا یا نالندہ جیسے اداروں میں تھا، نالندہ کی لائبریری کا شمار عظیم لائبریریوں میں ہوتا تھا۔ جہاں اس وقت کی معلوم دنیا سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے۔یہ لائبریری چودھویں صدی تک برقرار رہی۔ چودھویں صدی میں ترک فوجی بختیار خلجی نے اس لائبریری کو اگ لگا کر تباہ و برباد کر دیااور بے شمار بدھ طلبہ کو قتل کردیا یا زندہ جلوا دیا۔ 

اس بڑی تباہی کے بعد کئی سو برس تک یہ لائبریری بحال نہ ہو سکی۔ مغل بادشاہوں اور دوسرے راجہ، مہاراجہ اور نوابوں نے اپنی ذاتی لائبریریاں ضرور قائم کی تھیں، لیکن علم کے دروازے محدودلوگوں کے لیے کھلے رکھے گئے تھے۔مغل بادشاہ بابر کی اپنی ذاتی لائبریری تھی، اسی طرح قدیم راجہ اور مہاراجہ کی بھی ذاتی لائبریریاں تھیں۔ہندوستان میں جدید لائبریریوں کی بنیاد انگریزوں کے زمانے میں رکھی گئی اور پہلی جدید لائبریری کیرالہ میں بنائی گئی۔

تازہ ترین