تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ (سولہویں قسط) فلسطین کے شہر’’بیت اللحم ‘‘کاتعارف فلسطین کے مشہور شہر’’بیت اللحم ‘‘ سے مقام موسیٰ، اریحا وغیرہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے ہم اس شہر کی تاریخی اہمیت و حیثیت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ بیت اللحم کا لفظی معنی تو عجیب ساہے یعنی گوشت یا روٹی کا گھر یا وہ علاقہ جہاں کثرت سے پھل اور رزق پایا جاتا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ بیت اللحم کنعانیوں کے خدا ’’لحمو‘‘ یا ’’لاخاما‘‘ کی طرف منسوب ہے۔ یاد رہے کہ آرامی خداؤں میں اس نام کا معبود ’’واؤ کی شد کے ساتھ قوت بمعنی طاقت۔ یا قوت بمعنی روزی کا معبود سمجھا جاتا تھا …وھو الہ القوۃ … او الہ القوت (روزی) وھی کلمۃ آرامیۃ تعنی الخصب والثمار۔ عبرانی بائبل کے مطابق یہ کنعانی شہر اسرائیلی بادشاہ ’’رحبحام‘‘ کی طرف منسوب ہے۔ ہم نے بچپن میں بیت اللحم کا نام بائبل میں پڑھا تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت کے طور پر، اس لیے جب ہمیں بتایا گیا کہ آج ہم بیت اللحم کے وزٹ کیلئے جا رہے ہیں تو ذہن میں عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس شہر کی تاریخ ، کوئی ساڑھے تیرہ سو سال قبل ولادت مسیح بتائی جاتی ہے۔ یروشلم کی تاریخ بیان کرتے ہوئے گزشتہ صفحات میں ہم بتا چکے ہیں کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں جب یہ علاقہ تقسیم ہوا تو یہ علاقہ بنی بنیامین (جو یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بنیامین کی اولاد) کے حصے میں آیا تھا۔ اسی لیے اسی علاقے میں حضرت یوسف اور بنیامین کی والدہ حضرت یعقوب نبی کی زوجہ حضرت راحیل کی قبر موجود ہے جس کا ذکر میں کر چکا ہوں۔ ’’بیت اللحم‘‘ کو شہر داؤد بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی ولادت بھی بیت اللحم میں ہوئی تھی۔ شہر کے شمالی جانب حضرت داؤد کی طرف منسوب ایک کنواں بھی ہے اور انہوں نے ایک بہت بڑا محل بھی یہاں بنایا تھا۔ اسی صدی میں اس محل داؤدی کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہم اسے دیکھنے جا سکتے۔ شہر بیت اللحم، یروشلم سے مشرقی جانب صرف چھ سات میل دور ہے، دوسری صدی میں رومی بادشاہ قیصر ہیڈریان نے اسے تباہ کر دیا تھا۔ نبیﷺ کی ولادت سے تین سو سال پہلے ایک اور رومی بادشاہ قنسطنطین Constanstineنے یہودیت چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس بادشاہ کی والدہ ہیلن بڑی مذہبی عورت تھی، اس نے 327عیسوی میں اسے دوبارہ آباد کیا اور 330عیسوی میں جائے ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر گرجا گھر ’’کنیسۃ المھد‘‘ کے نام سے تعمیر کرا دیا۔ یاد رہے کہ اسی بیگم ہیلن نے یروشلم کا کنیسۃ القیامۃ بھی تعمیر کروایا تھا۔ ہجرت کے سولہویں سال637عیسوی میں، خلیفہ ثانی، فخر امت، سیدنا و امامنا حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہد ہمایوں میں اسے بھی یروشلم کے ساتھ فتح کر لیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں یہودیوں کا داخلہ بند کیا ہوا تھا لیکن حضرت عمر فاروقؓ نے یروشلم کی طرح بیت اللحم میں بھی ہر قسم کی پابندیاں ختم کر دی تھیں۔ اس چرچ میں حضرت فاروق اعظمؓ نے نماز بھی ادا کی تھی، جس سے غیرمسلم عبادت گاہوں میں چند شرائط کے ساتھ نماز پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔ بیت اللحم میں دور عباسی یعنی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں بڑی ترقی ہوئی۔ یہاں کئی مساجد و مدارس قائم کیے گئے، گیارہویں صدی تک یروشلم کی طرح بیت اللحم بھی مسلم ریاست کا حصہ رہا۔ 1099میں صلیبیوں نے قبضہ کر کے یہاں بھی یروشلم کی طرح بڑی خونریزیاں کیں۔ یونانی آرتھو ڈوکس کو ہٹا کر لاطینی پادریوں کا تقرر کیا جنہوں نے جی بھر کر کفرو جہل پھیلایا۔ پھر سلطان صلاح الدین نے اسے فتح کرنے کے بعد یہاں سے صلیبیوں کے اثرات بد کا خاتمہ کر دیا اور اسے ایک پرامن شہر ڈکلیئر کیا جہاں تمام مذاہب کو آزادی حاصل رہی۔ 1250میں ممالیک حکمرانوں (جیسے تاریخ ہند میں خاندان غلاماں کی حکمرانی تھی، یہی صورتحال شام و نواحی علاقوں میں بھی تھی) نے اس شہر کی دیواریں تباہ کر دیں جنہیں 16ویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یورپی ممالک کی سازشوں کی وجہ سے 1917میں یہ علاقہ برطانوی فورسز کے قبضے میں آگیا۔ عثمانیوں کا برائے نام ہی سہی، لیکن کنٹرول سمجھا جاتا تھا جو عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ان کے ہاتھوں سے بھی نکل گیا۔ 1948میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اردن کو کنٹرول مل گیا۔ لیکن 1967کی چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل اس پر قابض ہوگیا۔ 1995کے اوسلو معاہدے کے تحت بیت اللحم فلسطینی اتھارٹی کنٹرول میں دے دیا گیا۔ بیت اللحم کی مساحت 10611ایکڑ یا 4.097مربع میل ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں 30سے زیادہ ہوٹل 300سے زیادہ گھریلو صنعتیں، 70بستیاں، تین مہاجر کیمپ ایک کا نام ’’مخیم عایدہ‘‘ دوسرا ’’مخیم بیت جبرین‘‘ اور تیسرے کا نام ’’مخیم الدھیشہ‘‘ ہے جو 1949اور 1950میں قائم ہوئے تھے۔ یہاں31تعلیمی مدارس کام کر رہے ہیں، اعلیٰ تعلیم کیلئے’’بیت اللحم یونیورسٹی‘‘ بھی ہے جہاں کئی قسم کے علوم و فنون پڑھانے کیلئے مخصوص کالجز ہیں۔ بیت اللحم کی غاریں بھی بڑی مشہور ہیں۔ جنوب مشرق میں ایک ’’مغارات الحلیب، ہے۔ مشہور ہے کہ حضرت عیسیٰ کو ان کی والدہ اس غار میں دودھ پلایا کرتی تھیں۔ اسی طرح کئی خانقاہیں مختلف ادوار میں بنائی گئی تھیں۔ ایک خانقاہ عبید وادی قدرون کے سامنے ہے۔ یہ خانقاہ عبید نامی گاؤں کی مناسبت سے عبید کہلاتی ہے جبکہ خانقاہ جنت مکمل طور پر بند ہے اور ’’خانقاہ مارسابا‘‘جو 482 عیسوی میں یونانی دور میں تعمیر کی گئی تھی (خاتم النبین ﷺ کی ولادت شریفہ سے تقریباً کوئی ایک صدی پہلے) اس خانقاہ کی خاص بات یہ ہے کہ شروع دن ہی سے اس خانقاہ میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے، روایت کے مطابق یہ خانقاہ ابھی تک انہی پرانے اصولوں پر قائم ہے۔ یوں بھی مذہبی طور پر عیسائیت میں عورتوں کو سوائے نن بننے کے کبھی کوئی اختیار نہیں دیا گیا اور مظلوم ننوں کے ساتھ جبر وظلم کی بڑی المناک داستانیں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ اسلام میں عورت کو مسجد جانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ دور نبوی اور خیرالقرون میں کبھی انہیں مساجد سے روکنے کا مسئلہ نہیں اٹھا۔ چوتھی صدی ہجری میں بعض فقہاء نے فتنہ و فساد کے خوف کے پیش نظر بعض حالات میں احتیاط کا مشورہ دیا تھا جسے ان کے مقلدین نے مذہبی شعار ہی بنا لیا لیکن جمہور فقہا نے عورتوں کا مساجد میں داخلے سے روکنے کا فتویٰ قبول نہیں کیا۔ جیسے حرمین شریفین میں خواتین کا داخلہ کسی دور میں بھی ممنوع نہیں رہا، خاص طور پر عیدین میں عورتوں کا عیدگاہوں میں جانا ایک مسنون عمل قرار دیا گیا ہے بلکہ حدیث میں ترغیب دی گئی ہے کہ ہر حالت میں عورتیں عیدگاہوں میں حاضر ہوں۔ حتیٰ کہ حالت حیض میں بھی اور جن کے پاس ضروری حجاب نہ بھی ہو تو وہ اپنی سہیلی کے حجاب میں عیدگاہ جائے کیونکہ مساجد دین کے مراکز ہیں، اگر عورتوں کو وہاں سے روک دیا جائے تو وہ دین کہاں سے حاصل کریں گی یہ عام فتنے سے بڑا فتنہ ہے اس لیے جن فقہی مذاہب میں عورتوں کو مساجد سے دور رکھا گیا ہے، اس کے ردعمل میں خواتین نے تبلیغ کیلئے جماعتیں تشکیل دے ڈالی ہیں، جو دنیا بھر میں آتی جاتی ہیں لیکن مساجد میں ان کا داخلہ ممنوع ہے جو بڑی عجیب سی حرکت ہے۔ نگر نگر تبلیغ کیلئے پھرنا مساجد میں جانے سے کہیں زیادہ پرخطر ہے اس لحاظ سے اہل الحدیث مکتبہ فکر کا یہ رویہ بڑا جدید و مرغوب ہے کہ مساجد کی تعمیر میں عورتوں کیلئے باپردہ جگہ بنائی جاتی ہے جہاں عورتیں خطبات و وعظ سنتی اور علم دین سے آگاہی حاصل کرتی ہیں۔ عورتوں کو مساجد میں جانے سے روکنا جہاں صاف احادیث نبویہ کی خلاف ورزی بھی وہاں ایک اور فتنے کا باعث بھی بن رہا ہے کہ عورتوں کیلئے مساجد بھی مخصوص بننی چاہیئں۔ اسلام بہرحال دنیا کا جدید ترین دین ہے جس میں چند خصوصیات کے ساتھ خواتین مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہیں لیکن عیسائیت میں ایسا نہیں ہے شہر بیت اللحم میں کئی گرجا گھر واقع ہیں جن میں سب سے بڑا کنیسۃ القدیس ہے۔ یہ اس جگہ بنا ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ اہل اسلام کی دریا دلی اور دیگر مذاہب کے احترام کی دلیل یہ چرچ بھی ہے کہ اب بھی اس چرچ کی نگرانی مسلمان کر رہے ہیں اور عیسائیوں کو اپنے مذہب کے مطابق رسومات ادا کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ یہودیوں نے اپنے دور میں ان پر پابندیاں لگا رکھی تھیں جنہیں مسلمان حکمرانوں نے ختم کر دیا اب یہودی اور عیسائی تو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کیلئے بالکل آزاد ہیں جبکہ یروشلم کے مسلمان مسجد اقصیٰ میں آزادانہ آنے جانے کے روادار نہیں ہیں پھربھی کہتے ہیں اسلام جبر کا دین ہے اور مسلمان جابر لوگ !!!