اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول چیف جسٹس ثاقب نثار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو تاریخی ٹیکس اصلاحات ایجنڈا متعارف کرانے سے قبل اعتماد میں لے لیا ہے۔ باخبر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ نہ صرف وزیراعظم نے اپنے اقدامات کے متعلق چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات میں بات چیت کی بلکہ انہوں نے آرمی چیف کو بھی اعتماد میں لیا ہے۔ دیگر اسٹیک ہولڈرز میں بزنس کمیونٹی، سرکردہ ٹیکس ماہرین اور معاشی ماہرین سے بھی مشاورت کی گئی۔ تاہم، ان ذرائع کا کہنا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں کچھ عناصر وزیراعظم کے گزشتہ ہفتے اعلان کردہ نئے ٹیکس اصلاحات سے پریشان ہیں اور میڈیا کو غلط معلومات فراہم کرکے اس اقدام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر اپنی مہینوں طویل مشاورت کے دوران وزیراعظم کو ایف بی آر کے اصلاحات مخالف عناصر کی مزاحمت کا سامنا رہا جو یہ نہیں چاہتے کہ کرپشن، زبردست ٹیکس چوری اور ہراساں کرنے والا موجودہ ٹیکس نظام ختم ہو۔ ذرائع کے مطابق، تنخواہ دار طبقے پر بوجھ ڈالنے کی بجائے حکومت نے اب ٹیکس حکمت عملی میں پالیسی تبدیل کی ہے جس کی وجہ سے تنخواہ دار طبقے کا بوجھ کم ہو گیا ہے لیکن ملک میں ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیکس اصلاحات ٹیکس لینے والوں کے صوابدیدی اختیارات محدود ہوجائیں گے اور ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ختم ہوگا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ میڈیا فی الوقت ایمنسٹی اسکیم پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے لیکن حقیقتاً یہ ٹیکس اصلاحات ہیں جن کی وجہ سے ملک میں ٹیکس سے بچنے کا کلچر ختم ہوگا اور ٹیکس کا دائرہ بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اب ڈی سی ریٹ کے ذریعے ٹیکس سے بچنے میں معاونت دینے کی بجائے، ٹیکس دہندگان کو اجازت دی جائے گی کہ وہ اپنی پسند کے ریٹ پر پراپرٹی کی رجسٹریشن کرائے اور اگر یہ پراپرٹی ظاہر نہیں کی گئی ہوگی تو ڈکلیئر کرنے کی صورت میں حکومت اسے دگنی قیمت پر خرید لے گی۔ اس سے ایک طرف ٹیکس سے بچنے اور کالا دھن س فید کرنے کیلئے سرکاری سرپرستی میں ڈی سی ریٹ کے ذریعے چلنے والا کم قیمت لگانے کا موجودہ مروجہ طریقہ کار ختم ہوگا تو دوسری طرف ٹیکس لینے والے کو کرپشن کرنے یا پھر ٹیکس دہندہ کو ہراساں کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ حالیہ برسوں میں ریونیو جمع کرنے میں بہتری آنے کے باوجود 2016-17ء میں جی ڈی پی میں ٹیکس کا تناسب کم ہو کر 12.5؍ فیصد ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ریاستی معیشت کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران نافذ کیے گئے ٹیکس اور انتظامی اصلاحات کی وجہ سے ٹیکس جمع کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا اور جی ڈی پی میں معمولی اضافے کے مقابلے میں اس میں مستقل بہتری آئی۔ اس کے نتیجے میں جی ڈی پی میں ٹیکس کے تناسب میں مالی سال 2016ء کے دوران 12.6؍ فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ 2011ء میں یہ 9.3؍ کی سطح پر تھا۔ تاہم، 2017ء میں یہ کارکردگی برقرار نہ رہ سکی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، حالیہ برسوں میں بہتری کے باوجود، پاکستان کا جی ڈی پی میں ٹیکس کا تناسب پورے خطے میں، سوائے بنگلادیش کے، کم ترین سطح پر ہے۔ عمومی معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے باوجود 2017ء میں جی ڈی پی میں ٹیکس کا تناسب کم ہو کر 12.5؍ فیصد ہوگیا، 2016ء میں یہ 12.6؍ فیصد تھا۔