کوئٹہ (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے یہاں کے لوگوں کو انکے بنیادی حقوق میسر ہونے چاہئیں ،چار برسوں میں بلوچستان میں 3؍ وزرائے اعلیٰ آئے بتایا جائے عوام کیلئے کیا کیا؟ صوبے میں صحت اور تعلیم کی حالت زار حوصلہ افزاء ہے نہ ہی اس بابت کوئی واضح پالیسی موجود ہے صوبے کے عوام کو صحت ،تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے عدالت اپنے اختیارات استعمال کریگی بتایا جائے کہ گزشتہ 4سال کے دوران حکومتوں نے صحت اور تعلیم کے حوالے سے کیا اقدامات اٹھائیں، حکومت کے پاس چند ہفتے رہ گئےکون ہیلتھ پالیسی کو منظور کریگا۔ یہ ریمارکس معزز بینچ نے پیر کو سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں تعلیم ،صحت اور پانی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دئیے۔ جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، صوبائی وزیرصحت عبدالماجد ابڑو اور صوبائی وزیرتعلیم طاہرمحمود کے ہمراہ پیش ہوئے اور روسٹرم پر کھڑے ہوکرصحت اوردیگر سہولیات سے متعلق عدالت کوآگاہ کیا۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس نے کوئٹہ میں سنڈیمن ہیڈکوارٹر سول اسپتال بلوچستان کادورہ کیا۔انہوں نے صفائی کی صورتحال پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے ہڑتالی ینگ ڈاکٹرز سے بھی احتجاجی کیمپ میں ملاقات کی جسکے بعد ڈاکٹروں نے ہڑتال ختم کردی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پرمشتمل تین رکنی بینچ نے کوئٹہ میں سرکاری اسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کی جو عوامی شکایات پر کی گئی۔ سماعت کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو، چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگزیب حق، صوبائی وزیر صحت عبدالماجد ابڑو،صوبائی وزیر تعلیم طاہر محمود خان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری نصیب اللہ بازئی ،سیکرٹری صحت صالح ناصر، سیکرٹری تعلیم نورالحق بلوچ ،ایڈووکیٹ جنرل رئوف عطاء ایڈووکیٹ سمیت سینئر وکلاء اوروکلاء تنظیموں کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے صوبے کے عوام کوصحت اور تعلیم کے حوالے سے درپیش مسائل پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ آئین کے آرٹیکل184اور199کے تحت عدالت عوام کوان کے بنیادی حقوق دلانے کیلئے اپناکرداراداکریگی۔ چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے ہاں گورننس، معیار ،تعداد اور مینجمنٹ کے مسائل موجودہیں،تعلیم اور صحت کیلئے وسائل کا بہت بڑا مسئلہ ہے یہ ڈیمانڈ کے مطابق نہیں ہے جبکہ تعلیم میں گورننس کے مسائل ٹریڈ یونین کی وجہ سے ہے،جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ ڈاکٹروں نے صوبے بھر میں ہڑتال کی ہے عدالتی حکم کے باوجود یہ کیسے ہڑتال کررہے ہیں اگر ڈاکٹر اورپیرامیڈیکس ہڑتال پر ہے تو مریضوں کی دیکھ بال اور علاج کون کررہاہے، اس پر سیکرٹری صحت صالح ناصر نے بتایاکہ مریضوں کا کوئی علاج نہیں کررہا 21فیصد نان ڈویلپمنٹ بجٹ ہے جبکہ صرف 6فیصد بجٹ صحت کی ترقی پر خرچ کی جارہی ہے ،بلوچستان میں کوئی پرائیویٹ میڈیکل کالج نہیں ایک کالج ملٹری میڈیکل بورڈ کے زیرانتظام ہے حکومت 3میڈیکل کالجز کاجلدآغاز کرنے جارہی ہے، اندرون صوبہ صحت کی سہولیات لوگوں کو میسر نہیں وہاں ڈاکٹرز کی مستقل تعیناتی کا مسئلہ ہمیں درپیش ہیں جبکہ چیف سیکرٹری نے بتایاکہ صحت کیلئے قومی پالیسی کی ضرورت ہے لفاظی میں یہ ہے کہ مگر حقیقت میں کچھ بھی نہیں، اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ 18ویں ترمیم کے بعد وسائل صوبوں نے پیدا کرنے ہیں لیکن آپ اب بھی وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں،گورننس کا مسئلہ تو آپ نے ہی دیکھناہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے میڈیکل کالجز معیاری نہیں، نجی کالجوں میں بچوں سے 20سے 25لاکھ روپے لیے جاتے ہیں، ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہاں یہ بزنس تو نہیں ہے، ہماری کوشش ہے کہ 2کروڑ بچوں کو رقم واپس ہو۔چیف جسٹس نے میڈیکل کالج کیلئے 8لاکھ 56 ہزار سے زائد فیس ری فنڈ کرنے کا حکم دیا۔ اسپتالوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کیسی ہے، ہم نے اس سے متعلق بھی ایس او پی دی ہے، میں کچھ اسپتالوں کا دورہ بھی کرنا چاہوں گا، بلوچستان ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ مریضوں کا کوئی علاج نہیں کررہا۔ سیکرٹری صحت نے مزید بتایا کہ 21فیصد نان ڈیولپمنٹ بجٹ ہے اور صرف 6فیصد ترقی پر خرچ ہوتا ہے، بلوچستان میں کوئی پرائیویٹ اسپتال نہیں، ایک کالج ملٹری میڈیکل بورڈ کے زیر انتظام ہے۔سیکرٹری صحت کی بریفنگ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 18ویں ترمیم کے بعد وسائل صوبوں نے پیدا کرنے ہیں،آپ وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بلائیں ان وزرائے اعلی کو جو یہاں 4 سال اقتدار میں رہے، صوبے کے عوام کیلئے انہوں نے کیا کیا؟ یہاں آکر بتائیں، گورننس کیلئے 3وزرائے اعلی آئے۔ انہوں نے کیا کیا؟ عدالت نے آج سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنااللہ زہری کو طلب کرلیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صحت کامسئلہ بلا بن گیا ہے، ممکن نہیں کہ 500ارب روپے ایک دن میں مل جائیں، اس کو ڈنگ ٹپائو پالیسی کے طور پر نہ لیں، اپنی خامیوں کودور کرنے کیلئے مختصر اور طویل مدتی پالیسیاں بنائیں، پالیسی ابھی منظور نہیں ہوئی، ماضی کی بجائے آگے دیکھیں اور مسئلہ حل کریں۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری بلوچستان سے مکالمہ کیا کہ حکومت کے پاس چندہفتے باقی رہ گئے ہیں، پھر کون پالیسی منظور کرے گا؟ ہمارا مقصد اکھاڑ پچھاڑ کرنا نہیں، ضرورت ہے کہ عوام کو سہولت ملے، آئین نے ہمیں پابند کردیا ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کیلئے اپنا فرض نبھائیں۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کراچی میں پانی کے مسئلے پر وفاق نے ہمارے نوٹس کے بعد فنڈز دیئے، مسئلہ حل ہوگیا۔علاوہ ازیں چیف جسٹس پاکستان نے سول اسپتال کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مختلف شعبوں کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو بھی انکے ہمراہ تھے۔چیف جسٹس نے سول اسپتال میں صفائی کی صورتحال پراظہار برہمی کیا اور غفلت برتنے والوں کیخلاف فوری کارروائی کے احکامات جاری کئے۔ علاوہ ازیں گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سنڈیمن ہیڈکوارٹر سول ہسپتال بلوچستان کا دورہ کیا۔ وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو، وزیر صحت بلوچستان عبدالماجد ابڑو اوردیگر حکام کے ہمراہ سول اسپتال کے دورے کے دوران چیف جسٹس اسپتال کے ٹراماسینٹر،آئی سی یو سمیت مختلف شعبوں کا معائنہ کیا۔ انہوں نے اسپتال میں صفائی کی ابتر صورتحال پربرہمی کااظہار کرتے ہوئے غفلت برتنے والوں کیخلاف کارروائی کے احکامات دئیے۔ چیف جسٹس ہڑتالی ینگ ڈاکٹروں کے احتجاجی کیمپ بھی گئے اور انکے مسائل سنے۔ چیف جسٹس نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ ہڑتالی ڈاکٹرز کے جائز مطالبات پر عملدرآمد کرتے ہوئے اس کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے جس کے بعد ڈاکٹروں نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ دورے کے دوران چیف جسٹس سے ایک غریب خاتون نے مدد کی درخواست کی۔ چیف جسٹس نے اسکی درخواست وزیراعلیٰ بلوچستان کو دیدی۔