• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاعری میں جدت اور روایت کا امتزاج

ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی

کچھ لوگ زندگی کو مار دیتے ہیں اور کچھ لوگ موت بھی امر کر دیتے ہیں۔ مشہور ایرانی شاعر، احمد شاملو نے ایک نظم میں زندگی اور زمین سے محبت کو یوں بیان کیا ہے کہ:

مجھے برہنہ دفن کیا جائے

سراپا برہنہ

یوں، جیسے ہم نمازِ عشق پڑھتے ہیں

کہ میں مٹی کے ساتھ

بغیر کسی حجاب کے

عاشقانہ انداز میں شیر و شکر ہونا چاہتا ہوں

شکیبؔ جلالی نے بھی موت کو امر کر دیا اور مٹی سے والہانہ پن سے شیر و شکر ہو گیا۔

وہ راگ خاموش ہو چکا ہے، سنانے والا بھی سو چکا ہے

لرز رہے ہیں، مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو (شکیب)

شکیبؔ جلالی کا وجود بھی اُردو غزل کےلیے ایک ایسا سرمدی نغمہ ہے، جس میں ہمیشگی کی روح تڑپتی ہے، جس کی آنکھوں میں محبت کا اناالحق احساس جگمگاتا ہے، جو محبت کو زندگی کی نوید سنانے والا قاصدِ بہا رہے، جس کی خاموشی بھی آواز ہے اور یہ آواز ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت اور ناقابلِ فراموش تجربہ ہے۔ حیاتِ ابدی کا یاد گار مشاہدہ ہے، بقول شکیبؔ

اس لیے اور بھی خاموش تھے ہم

اہلِ محفل نے سخن ور جانا

جب بھی سکوتِ شام میں آیا ترا خیال

کچھ دیر کو ٹھہر سا گیا، آبشار بھی

اے دوست پہلے قرب کا نشہ عجیب تھا

میں سن سکا نہ اپنے بدن کی پکار بھی

سلیم احمد نے کہا تھا۔ ’’جدید غزل ایک بے کلچر معاشرے کی پیداوار ہے، ہم اپنا پرانا کلچر گم کر چکے ہیں اور نیا ابھی ہم نے پیدا نہیں کیا۔ اس لحاظ سے جدید غزل صرف ایک خلا میں سانس لے رہی ہے۔ ہمارے پاس جذبات ہیں، محسوسات ہیں، تجربات ہیں، مگر وہ کیمیا دان کہاں ہے، جو مسِ خام کو زرِ خالص بنا دے۔‘‘

سلیم احمد کا سوال اہم ہے۔ تاریخ کے ادوار جب تبدیلی کی زد پر آتے ہیں، اچھے اچھوں کے ہوش و حواس رخصت ہو جاتے ہیں، وہ نہیں دیکھ سکتے سر کے بل گرتے ہوئے تناور شجر کے پاس ہی ایک اور نوخیز کونپل نمود کا اعلان کر رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہم بھی تیز رفتار تبدیلیوں کی زد پر آگئے اور اس توڑ پھوڑ سے معاشرہ افراتفری کا شکار ہو گیا۔ تہذیبی اقدار میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں اور دوسری سمت وطنِ عزیز سیاسی عدم استحکام اور آمرانہ یلغار کا شکار تھا۔ طالع آزما ایک سے بڑھ کر ایک نیا ڈراما اسٹیج کر رہے تھے۔ ایسے میں کیسا علم اور کہاں کا ادب… جب ہر گلی کوچہ دہلی کی جنگِ آزادی کا منظر پیش کر رہا ہو، اختر شیرانی اور فیض کی رومانی شاعری کس کس کے زخموں پر مرہم رکھتی۔ شعراء اور ادیب گرفتار ہوئے، کتابیں ضبط ہوئیں۔ ایسے میں احمد ندیم قاسمی کے جاری کردہ ادبی شمارے ’’فنون‘‘ میں نئے پرانے شعراء کا اجتماع ہونے لگا اور ان میں سے اکثر جدید اُردو ادب کے منظر نامے کی شناخت بن گئے، اُنہی میں شکیب جلالی کا نام بھی سامنے آیا، جس نے جدید غزل کی بنیاد رکھی۔ آج تو جدید غزل کے بہت سے دعوے دار ہیں، مگر جب بھی جدید شاعری کی خوب صورتی اور دل کشی کی سند طلب کی جاتی ہے، شکیب ہی کا شعر لبوں پرآتا ہے۔ شکیب نے بہت خاموشی سے بہت باریک اور منفرد کام کیا۔ اُردو غزل کو یکسانیت کی نحوست، فرسودگی اور روایت پرستی سے نجات دلائی اور نظم کی سلطنت میں تنگنائے غزل کا دامن نئے مضامین، نئے خیالات اور عصرِ حاضر کے مسائل اور فرد کے احساسات کو اس سلیقے سے غزل میں سمویا اور فقیرِ مست نوا کی طرح دنیا کے گلی کُوچوں سے گزر گیا۔ 

افسوس کہ اس عہد کے نقاد سلیم احمد، عزیز حامد مدنی، رشید امجد، یوسف حسن، احمد ہمدانی اور دیگر نے کسی مضمون میں شکیب جلالی کا ذکر تک نہیں کیا۔ قمر جمیل نے عزیز حامد مدنی کے مطالعے میں صرف ایک جگہ شکیب کا ذکر کیا ہے اور وہ بھی منفی پیرائے میں کہ ’’شکیب جلالی، ناصر کاظمی اور احمد مشتاق نے مدنی جیسی مفکرانہ شاعری نہیں کی۔ نہ ہی اُن کے لہجے میں میں اتنی کلاسکیت ہے، جتنی مدنی کے لہجے میں ہے، پھر بھی یہ غزل کے سارے شاعر، مدنی سے چھوٹے ہیں، یعنی حسیّت کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اُن کی شخصیت دولخت ہے۔ اُن کی شاعری میں احساسات تو بولتے ہیں، لیکن ذہن خاموش رہتا ہے۔‘‘

اس حوالے سے ایک طویل مضمون لکھا جا سکتا ہے، مگر یہ اس کا محل نہیں۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا قومی اور عمومی رویہ ہے کہ ہم ہر چیز کے بارے میں انتہا پسند رویوں کا شکار ہیں، جب کسی کو قبول کرتے ہیں تو

’’جب تو قبول ہے ترا سب کچھ قبول ہے‘‘

والا مسئلہ ہے اور جب رد کرنے پہ آجائیں تو پھر انتہا پسندی کی آخر انتہا پہ اسے رد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جس پر ہماری تنقید کی عمارت ٹیڑھی کھڑی ہے کہ ’’ہم تخلیق پر تخلیق کار کو فوقیت دیتے ہیں، جو جتنا ہمارے نزدیک ہے، وہ اتنا ہی عظیم ہے، جتنا بلند جس کا معاشرتی مقام ہے، وہ اسی قدر مفکر اور دانشور ہے، آن دی ریکارڈ ہم کچھ کہتے ہیں، آف دی ریکارڈ ہماری ناقابلِ سماعت ہے۔‘‘

بلاشبہ عزیز حامد مدنی ہمہ گیرفکر اور قوتِ ارتقا کے شاعر ہیں، مگر ان کی شاعری کے مسائل اور ہیں۔ ناصر کاظمی اور شکیب کےکچھ اور۔ شکیب نے حسیاتی سطح پر شاعری کی تجرید کی ہے، اُن کے ہم لہجہ شاعر صرف رئیس فروغ ہی ہو سکتے ہیں، مگر شکیب کا اسلوبِ بیان اور دائرۂ فکر متنوع اور وسعت پذیر تھا۔ افسوس کہ اسے زندگی نے مہلت نہ دی اور نہ ہی اس کا تمام کام سامنے آیا اور فیصلہ سنا دیا گیا۔

ہر شاعر کا ایک الگ جہان ہے، ہر ایک کی تخلیقی صلاحیت کو اس کی سطح پر پرکھنا چاہیے۔ فن کے حوالے سے فیصلہ نہیں، اپنا تجزیہ بیان کرنا چاہیے اور وقت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ شکیب نے اُس دور میں جدید غزل کہی،جب نظم کا دور دورہ تھا، اس کی جدیدیت کی چند جھلکیاں ناصر کاظمی کی غزل پر بھی نظر آتی ہیں، ورنہ ناصر کا لہجہ کچھ اور ہے۔ 

شکیب کی شاعری کے تعارف میں ’’فنون‘‘ کا اہم کردار ہے، اس باب میں احمد ندیم قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ’’روشنی اے روشنی‘‘ شائع کرنے کے عوض انہیں بخش دیا جائے گا کہ اُنہوں نے بڑے خلوص اور محبت سے شکیب کی شاعری کو حاسدین اور تنگ نظروں سے بچایا اور یہ قیمتی سرمایہ، اردو ادب کو آج کے شعری منظر نامے کو رنگ، خوش بو اور روشنی سے مہکتا دمکتا بے مثال تحفہ دیا۔

شکیب کی شاعری میں خود اعتمادی اور خود سری کی فضا ہے، شکیب وہ سب کچھ جو دیکھتا تھا، بیان کرنے کا ہنر اور سلیقہ جانتا تھا۔ نئے عہد کا سب سے بڑا المیہ فرد کی تنہائی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کا زوال ہے، معاشرتی بے راہ روی ہے اور ان کے درمیان محبت کے نرم و نازک جذبات و احساسات۔ شکیب نے ان تمام مسائل کو حقیقی فضا اور جملہ فنی لوازم یعنی منظر و پس منظر، عوامل و اثرات اور ماحول کی جزیات کے ساتھ پیش کیا ہے۔

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

میں اُس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

مجھ سے ملنے شبِ غم اور تو کون آئے گا

میرا سایہ ہے، جو دیوار پہ جم جائے گا

بس یہیں ختم ہے، پیار کی رہ گزر

دوست اگلا قدم، کچھ سمجھ سوچ کر

شکیب کی غزل میں تخّیل کی رنگا رنگی، تنوع پسندی ہے، اُس کے کلام کےمطالعے سے یہ یقین آجاتا ہے کہ کائناتِ غزل بے حد وسیع ہے اور راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں، اس میں شعور و لاشعور اور داخلیت کے تمام مسائل و معاملات جملہ احساسات و جذبات اپنے افکار کے ساتھ کوزے میں سمندر کی طرح سمٹ سکتے ہیں۔

ورڈز ورتھ نے کہا تھا ’’اچھی شاعری شدید احساسات کا برجستۂ اظہار ہے۔‘‘ مگر صرف برجستہ اظہار اچھی شاعری کی دلیل نہیں۔ اچھی شاعری وہ ہے، جو احساس کو شعور اور فکر سے جوڑتی ہے اور انسان میں وسعتِ فکر و نظر، عظمت و اخلاق اور حسن و لطافت تہذیب کی کرتی ہے، اس کے دل میں دائمی جوش و جذبہ پیدا کر دیتی ہے، یعنی اس کی تخلیقی فعالیت اور صفاتِ حسن آفاقی اور دائمی ہوں۔ شکیب کی شاعری ان تمام معیارات پر پوری اترتی ہے اور وہ عوام کا بھی شاعر ہے اور خواص کابھی۔ آپ جس معیار پر چاہیں، اسے پرکھیے، جدت و روایت کا ایسا حسین سنگم اتنی تازگی اور ندرت کے ساتھ کہیں اور نظر نہیں آئے گا۔

شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے

ہم اُس سے بچ کے چلتے ہیں، جو رستہ عام ہو جائے

اور پھر شکیبؔ نے ایسا کر دکھایا، یہی اس کی سچائی ہے اور صراطِ سرمدی کی دلیل، مگر زندگی کی اس ذرا سی مہلت میں اتنے تھوڑے سے کلام میں شکیب نے اپنے فن، اپنے ہنر کو ابدیت کی مسند پر سرفراز کیا ہے، جو اپنی جگہ ایک معجزہ ہے۔ جب تک اردو ادب کا آخری قاری زندہ ہے۔ شکیب کی غزل کا فانوس جگمگاتا رہےگا۔ شکیب کو خود بھی اس کا احساس تھا، اسی لیے اس نے کہا تھا:

بن جائیں گی منزلیں وہیں پہ

بھولے سے جہاں ٹھہر گئے ہم

تازہ ترین