• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی معاشرے میں کم سن بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات کی ایسی وبا پھیلی ہے جو رکنے ہی میں نہیں آرہی۔ قصور، مردان، جڑانوالہ کے واقعات کو شرما دینے والا ایک نیا سانحہ چیچہ وطنی میں رونما ہوا جہاں دوسری جماعت کی آٹھ سالہ نور فاطمہ نامی بچی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ بدنصیب بچی گھر سے ٹافیاں خریدنے گئی تھی لیکن قسمت میں واپس آنا نہ لکھا تھا۔ تین گھنٹے تلاش کے بعد جھلسی ہوئی ، بے ہوشی کی حالت میں ملی لیکن جسم اتنا جل چکا تھا کہ جناح اسپتال لاہور پہنچ کر بھی جانبر نہ ہو سکی۔ خیال تھا کہ قصور، مردان اور جڑانوالہ میں ہونے والے واقعات اور اس پر ہونے والے شدید ردعمل اور سخت قانونی کارروائی کے بعد ان جرائم کی حوصلہ شکنی ہو گی لیکن یہ واقعات بڑے پیمانے پر بدستور ہو رہے ہیں جو کہ نہ صرف ہماری تہذیبی اور اسلامی اقدار کی نفی ہے بلکہ مغربی ملکوں سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں ایسے بہیمانہ جرائم ریکارڈ پر بمشکل ہی ملتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بھی کچھ عرصہ پہلے تک ایسی وارداتوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اب جس تیزی سے پے درپے اس نوعیت کی وارداتیں سامنے آرہی ہیں وہ یقیناًدنیا بھر میں ہماری بدنامی کا باعث ہے ۔یہ صورتحال قومی سطح پر گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتی ہے تاکہ اس انسانیت سوز رجحان کے فروغ کے اسباب کا تعین کرکے ان کے ازالے کی تدابیر عمل میں لائی جاسکیں۔ جرم کے خلاف سخت قوانین اوران کا نفاذ بلاشبہ ضروری ہے لیکن محض اتنا کافی نہیں۔دیکھا جانا چاہیے کہ یہ واقعات جنس زدگی اور جذباتی ہیجان کے جن اسباب کی بناء پر رونما ہورہے ہیں ، ان کے فروغ میں کن عوامل کا حصہ ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا کا اس ضمن میں کیا کردار ہے، ان کے منفی استعمال کو روک کر انہیں سماجی اصلاح اور ذہنوں کی مثبت خطوط پر تربیت کیلئے کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تعلیمی اداروں، والدین، اساتذہ اور علمائے کرام کو حالات کی بہتری کیلئے کیا کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں تساہل کی کوئی گنجائش نہیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین