• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری سیاسی جدوجہد

گزشتہ ہفتے 7اپریل کا دن میری سیاسی جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے قریبی ساتھیوں جہانگیر ترین، شبلی فراز وغیرہ کے ہمراہ میری رہائش گاہ آئے، میں نے اپنی پریس کانفرنس کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا کہ تحریک انصاف میں شمولیت سے میرا ماضی، حال اور مستقبل جڑا ہوا ہے۔ آج سے سولہ برس قبل جب میں نے سیاست کی پرخار وادیوں میں قدم رکھا تو میرے سامنے واحد ایجنڈا اپنی کمیونٹی کی خدمت کرنا تھا، میں سیاست کو عبادت سمجھتا ہوں اور جس طرح عبادت کرنے کیلئے عبادت گاہ ضروری ہے، اسی طرح ایک جمہوری سوچ رکھنے کی وجہ سے مجھے ایک ایسی سیاسی جماعت کی تلاش تھی جسکی چھتری تلے میں ملک و قوم کی خدمت کرتا رہوں۔ ایک وقت تھا کہ قائداعظم کا شمار انڈین کانگریس کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا تھا، کانگریس کی متعصب پالیسیوں نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ اپنی راہیں جدا کر کے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کریں۔ مسلم لیگ اس زمانے میں نوابوں کی جماعت کہلاتی تھی لیکن جب قائداعظم مسلم لیگ کا حصہ بنے تو دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ کا پیغام برصغیر کے کونے کونے میں چھا گیا۔ قائداعظم کی زیرقیادت تحریک پاکستان کی حمایت کرنیوالوں میں بے شمار غیرمسلم باشندے بھی شامل تھے، انہوں نے گیارہ اگست کی تقریرمیں صاف صاف کہہ دیا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام شہری پاکستانی ہیں، نہ کوئی اقلیت اور نہ کوئی اکثریت۔ افسوس، قیام پاکستان کے صرف ایک برس بعد قائداعظم کی وفات نے ہمیں انکے وژن سے بہت دور کردیا۔ ہم نے تو اپنے قومی پرچم کو بھی رنگوں کی بنیاد پر تقسیم کردیا کہ ہرا رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ غیرمسلموں کی عکاسی کرتا ہے۔ میں جب سیاست میں آیا تو میرے سامنے قائداعظم کی مسلم لیگ کا تصور تھا۔ میں میاں نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے 2013ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوا۔ اس نشست کو حاصل کرنے میں میری طویل سیاسی اور سماجی جدوجہد کا جذبہ کار فرما تھا، میں نے 2005ء میں بطور سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل کی بنیادیں رکھیں جو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر سماجی خدمت کرنے کا مثبت ریکارڈ رکھتی ہے۔ جب بھی کچھ شدت پسند عناصر کی طرف سے محب وطن غیر مسلم اقلیتوں پر پاک سرزمین تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو میرا موقف ہمیشہ پاکستان سے محبت، قائداعظم کے وژن اور حب الوطنی سے بھرپور ہوتا ہے، میری پارلیمانی جدوجہد، مختلف قومی و عالمی تقاریب میں نمائندگی اور میڈیا پر موجودگی ہمیشہ پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرتی ہے۔ میں (ن )لیگ سے وابستہ ضرور رہا لیکن اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے انتخابات سے پہلے کے وعدوں کو نظرانداز کرنے پر مجھے اگلے برس ہی غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ کے در پر جانا پڑگیا، مسلسل سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ نے 19جون 2014ء کو تاریخی فیصلہ سنایا تو اسکا نفاذ عملی طور پر نہیں ہوسکا۔ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود مذہبی مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے نہ تو ٹاسک فورس بن سکی اور نہ ہی زہریلا مواد نصاب تعلیم سے خارج کیا جاسکا۔ حالیہ کچھ دنوں میں ٹی وی ٹاک شوزمیں اکثر پوچھا جاتا ہےکہ ڈاکٹر صاحب، آپ پارٹی تو نہیں بدل رہے؟ اسکی وجہ یہی تھی کہ میں اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کرتا تھا، گالم گلوچ سے اجتناب کرتے ہوئے اخلاق کے دائرے میں رہتا تھا، میں ہمیشہ کہتا تھا کہ سیاسی لیڈران عوام کے رول ماڈل ہوتے ہیں اور انہیں اپنے الفاظ کا چناؤ درست کرنا چاہئے، میں عدلیہ کے احترام اور قومی اداروں کے استحکام کی بات کرتا تھا۔ میں نے (ن)لیگ کے اجلاسوں میں بھی برملا کہا کہ فیصلہ چاہے جو بھی آئے، ہمیں عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) میں کچھ عناصر اداروں کے ٹکراؤ پر یقین رکھتے تھے لیکن میں یہی سمجھتا رہا کہ یہ سب سیاسی بیانات ہیں اور حالات بہتر ہوجائیں گے۔ میں اپنے ٹی وی ٹاک شوز میں کہتا رہا کہ پاناما معاملہ سابق وزیراعظم اور انکے بچوں کے حوالے سے ایک عالمی ایشو ہے اور میاں صاحب کو قانونی طریقے سے اپنا دفاع کرنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کبھی عدالت پیشی کے موقع پر انکے ہمراہ نہیں پایا گیا۔ دوسری طرف (ن)لیگ کا بیانیہ روز بروز عدلیہ اور قومی اداروں کے خلاف نفرت انگیز ہوتا چلا گیا۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے جب پاناما فیصلے پر اپنے تبصرے میں ہندوؤں اور غیرمسلموں کے بارے میں نامناسب کلمات ادا کیے تو میں نے فوری طور پر ان سے رابطہ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، اس حوالے سے میرا سخت ردعمل روزنامہ جنگ میں 16دسمبر 2017ء کو پہلے صفحے پر شائع ہوا۔ کرپشن ایک سماجی ناسور ہے، میں نے اس موضوع پر بھی کالم لکھے جنہیں عوام میں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ کافی عرصے سے یہ میری عادت سی بن گئی ہے کہ میں باقاعدگی سے قلم کی طاقت استعمال کرتے ہوئے مختلف قومی و عالمی ایشوز اور عوامی مسائل کے حل کیلئے تجاویز پیش کرتا ہوں۔ سرکاری ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف میں نے آواز بلند کی کہ پی آئی اے ہمارا قومی اثاثہ ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد لیاقت نہرو سمجھوتے کے تحت انڈیا میں مسلمانوں کی املاک کی دیکھ بھال ایک مسلمان وزیر کرتا آرہا ہے، یہاں تک کہ اسرائیل میں بھی متروکہ وقف املاک کی ذمہ داری مسلمان کو سونپی جاتی ہے، پاکستان میں بیشتر اوقاف کی املاک ہندوؤں کی ہے، میں نے چیئرمین کیلئے سابق چیف جسٹس رانا بھگوان داس کا نام تجویز کیا تھا، اصولی طور پر پارٹی قیادت متفق بھی ہوئی لیکن اچانک صدیق الفاروق کو چیئرمین لگا دیا گیا، ہماری املاک کو پھر جس بے دردی سے کوڑیوں کے مول بیچا گیا، یہ سب میڈیا کی زینت بنتا رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ سپریم کورٹ نے صدیق الفاروق کو ہٹاتے وقت میرے موقف سے اتفاق کیا کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کا سربراہ غیرمسلم پاکستانی شہری ہونا چاہئے۔ اسی طرح آج (ن)لیگ ایک طرف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف ووٹ سے منتخب ہونے والے چیئرمین سینیٹ اور بلوچستان میں ان ہاؤس جمہوری تبدیلی کو تسلیم نہیں کرتی؟ کمزور پاکستانیوں بالخصوص محب وطن اقلیتوں کیلئے اعلیٰ عدلیہ امید کی کرن ہے، میں کیسے برداشت کر سکتا ہوں کہ عدلیہ کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے نشانہ بنایا جائے۔ ایسے حالات میں جب مجھے پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے شمولیت کیلئے پیغام ملا تو میں نے اسے قدرت کا اشارہ جانا، میں نے عمران خان، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور دیگر کو اپنی رہائش گاہ پر خوش آمدید کہا، ہمارا اتفاق ہوا کہ عدلیہ کے احترام اور قومی اداروں کے استحکام کیلئے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے جدوجہد میں تیزی لائی جائے گی، میں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی بھرتیوں کا مکمل خاتمہ ہونا چاہئے، غیرمسلموں کے 35لاکھ ووٹ حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمان میں غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کو ختم کرکے دُہرے ووٹ کے ذریعے حقیقی نمائندے ڈائریکٹ منتخب کرنے کا طریقہ کار متعارف کرایا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف میں غیرمسلموں کی نمائندگی ہونے سے اب پارٹی مکمل ہوگئی ہے، میرا آئندہ ماہ ایک بڑا جلسہ کراچی میں منعقد کرانے کا ارادہ ہے، آئندہ الیکشن میں 35لاکھ غیرمسلم ووٹرز کو بلے پر ٹھپہ لگانے کیلئے قائل کرنے کیلئے ملک گیر دوروں کا بھی اعلان کروں گا۔ آج میں اپنے چاہنے والوں کو یہ یقین دہانی بھی کراتا ہوں کہ ڈاکٹر رمیش کمار نے پارٹی ضرور تبدیل کی ہے لیکن عوام کی خدمت کا عزم نہیں،آپ مجھے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پرپہلے سے زیادہ جوش و جذبے سے عوام کی خدمت اور حصول انصاف کی جدوجہد کرتا پائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین