چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بدھ کے روز کوئٹہ میں ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان میں نئی گاڑیاں تقسیم کرنے کی تقریب میں کہا کہ انصاف میں تاخیر کے ذمہ دارجج ہیں جوعدالتی نظام یعنی ملک کے اہم ترین ستون کی بنیاد ہیں، ان سے لوگوں کو انصاف ملنا چاہئے۔ مجھے بلوچستان سے شکایت کم ہے لیکن پنجاب اور دیگر جگہوں پر نجانے کیوں ایک مقدمے میں 15سال لگتے اور لگائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو یہی تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم انصاف کر رہے ہیں لیکن مجھے اس جذبے اور عبارت کے ساتھ انصاف نظر نہیں آرہا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ عدل و انصاف قوموں کو نہ صرف زندگی عطا کرتاہے بلکہ توانا بھی رکھتا ہے۔ حالات اس کے برعکس ہوجائیں توحضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ فرمان پورا ہوتا ہے کہ ’’معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے جبر پر نہیں‘‘ اس لئے کہ ظلم و جبر انصاف کی ضد ہے جو سماج کے تار وپود بکھیر کررکھ دیتاہے۔ دین مبین میں اسی لئے عدل و انصاف کومقدم ترین قرار دیا گیا ہے۔ مسندِ انصاف پر براجمان شخص قابل احترام ہوتا ہے، اس کے فیصلوں سے جہاں معاشرے میں امن و امان کا دور دورہ ہوتا ہے، وہیں اس کی ذمہ داریاں بھی دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ انصاف پسندی اور بلاخوف و خطر عدل کرنا اس کی صفات ہونی چاہئیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے شعبے کی جن خامیوں کا برملا اظہار کیاہے اس پر مزید کسی تبصرے کی گنجائش نہیں۔ یہ البتہ حقیقت ہے کہ ’’انصاف میں تاخیر انصاف سے صرفِ نظر کے مترادف ہے‘‘ اصلاح کی گنجائش ہر وقت اور ہرجگہ موجود ہوتی ہے۔ عدالتوں پرمقدمات کا بوجھ، عملے کی کمی اور نچلی عدالتوں کا کارکردگی میں عدم فعالیت بھی مقدمات کے فیصل ہونے میں تاخیر کا باعث گردانی جاتی ہے، جس کی اصلاح سے نظام عدل میں بہتری آئے گی۔ بہرکیف جج صاحبان کو چیف جسٹس آف پاکستان کی نصیحت پر من و عن عمل کرکے انصاف کی فراہمی کو درجۂ عبادت دینا ہوگا تبھی پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی و حاکمیت قائم ہوگی۔