• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائی رائز بلڈنگز

اونچی عمارتیں کسے اچھی نہیں لگتیں، خوب صورت طرز تعمیر کی حامل یہ عمارتیں رات کے وقت جگمگاتی ہیں تو دن میں سر اٹھائے شان سے کھڑی نظر آتی ہیں۔ اکثر ان عمارتوں میں تجارتی مراکز، مختلف کمپنیز کے دفاتر ہوتے ہیں تو بہت سی عمارتوں میں رہائشی اپارٹمنٹس بھی ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اس طرح کی عمارات میں ہر طرح کی سہولیات دی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے ان میں رہائش اختیار کرنا ہر ایک کا خواب ہوتا ہے۔ 

نیز نجی اور سرکاری کمپنیزکے دفاتر کے لیے اس طرح کی عمارات موزوں نظر آتی ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ پاکستان میں اونچی عمارتیں اب تیزی سے تعمیر ہورہی ہیں۔ ہر طرف آسمان سے باتیں کرتی، خوبصورت عمارتیں جنھوں نے شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہی حال ان علاقوں کا بھی ہے جو خالص رہائشی علاقے تھے اور وہاں بلند عمارات نہیں تھیں۔ ان علاقوں میں مرکزی شاہراہ پر دونوں اطراف ملٹی اسٹوری عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں۔ سولہ سے بیس اور پچیس منزلہ عمارات تیار ہوچکی ہیں اور لوگ ان میں رہائش پذیر ہیں، اسی طرح ہوٹلز کی بلند عمارات ہیں۔

بلند عمارتوں کا مقابلہ

دنیا میں مختلف ممالک آج بلند عمارات بنانے کا باقاعدہ مقابلہ کر رہے ہیں- روز ہی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی ملک میں اس دعوے کے ساتھ نئی عمارت کی تعمیر کا آغاز کیا جاتا ہے- ابھی تک دبئی کا برج خلیفہ دنیا کی بلند ترین اورایک بہت مشہور ترین عمارت ہے۔ تقریباََ سب ہی لوگ اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ سن چکے ہوں گے۔ اس کے فلورز کی تعداد ایک سو تریسٹھ اور اونچائی آٹھ سو اٹھائیس میٹر ہے، اس کی تعمیر 2010 میں مکمل کی گئی تھی ۔ برج خلیفہ میں30 ہزار لوگ ، 19 رہائشی ٹاور، انسان کے ہاتھوں سے بنی ایک جھیل، پارک لینڈ ، 9 ہوٹل اور ایک شاپنگ مال شامل ہے۔ دوسرے نمبر پر شنگھائی ٹاورآتا ہے۔ چائنا کے شہر شنگھائی میں واقع ہے۔ اس کی بلندی 632میٹرز جب کہ فلورز121 ہیں۔ 

یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی عمارت ہے اور اس کی تعمیر 2014 میں ہوئی تھی۔تیسری بلند ترین عمارت، سعودی عرب کے مبارک شہر مکہ میں واقع ہے۔ اس کی اونچائی601 میٹر ہے۔ اس کے فلورز کی تعداد120 ہے اور اسے 2012 میں بنایا گیا تھا۔ دنیا میں تعمیراتی صنعت تیزی سے ترقی کررہی ہے اور تعمیرات میں نت نئی ٹیکنالوجی اور آرکیٹیکچراپنایا جارہا ہے۔ اس بات میں بالکل بھی شق نہیں ہونا چاہیے کہ بہت جلد ہی متذکرہ بالا بلند ترین عمارتوں کی جگہ نئی عمارتیں لے لیں گی۔

ہائی رائز بلڈنگز

پاکستان میں بلند عمارتوں کا رجحان

ایک زمانے تک کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع حبیب بینک کی خوبصورت عمارت کو پاکستان کی بلند ترین عمارت کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ اسے پاکستان اور خصوصاً کراچی کی پہچان قرار دیا جاتا تھا۔آئی آئی چندریگر روڈ پر سنہ 1963 میں تعمیر ہونے والی حبیب بینک پلازہ کی 25منزلہ عمارت شہر کراچی ہی کی نہیں، بلکہ پاکستان کی سب سے اونچی عمارت شمار ہوتی تھی۔ اس کی لمبائی ایک سو پانچ اعشاریہ دو میٹر ہے۔ 

 تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اب حالات بدل رہے ہیں۔ اگر صرف کراچی کی بات کریں تو اس شہر کی اسکائی لائن حالیہ چند برسوں میں تیزی سے بدل چکی ہے۔ سی ویو سے شروع ہوکر سٹی سینٹر، ڈاؤن ٹاؤن سینٹرز اور کراچی کے مضافات میں آباد ہونے والے علاقوں میں اب بلند و بالا عمارتوں کا جال بچھ چکا ہے۔ کراچی اور پاکستان کی سب سے بلند ترین عمارت بحریہ آئیکون ٹاور، کلفٹن میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے ساتھ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ یہ عمارت 62منزلہ ہوگی۔ سالہا سال تک اپنے’بازو‘ پھیلانے والا شہر اب مسلسل اپنا ’قد‘ بھی بڑھا رہا ہے۔ اب یہ سطح زمین سے اُٹھ کر فلک بوسی تک پہنچنے لگا ہے۔

ہائی رائز بلڈنگز

بلند عمارتوں کی تعمیر میں منصوبہ بندی کی اہمیت

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنی تیزی سے بلند و بالا عمارات کا رواج زور پکڑ رہا ہے، کیا ان کے اندر موجود سہولیات میں ضروری امور کا خیال رکھا گیا ہے؟ ان سب امور کا خیال رکھنے کی ذمہ داری بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی،واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ، بجلی کے محکمہ، میونسپل کارپوریشن، ڈیویلپمنٹ اتھارٹیز، آگ بجھانے کا محکمہ، اور نقشہ پاس کرنے والے محکمہ کی ہے۔اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ کیا عمارت میں آگ بجھانے کا خود کار سسٹم موجود ہے، الارم سسٹم ہے جو دھوئیں کے اُٹھتے ہی بج اُٹھتا ہے، ایسے حادثات کی صورت میں باہر نکلنے کے لیے حفاظتی راستے موجود ہیں، ایمرجنسی میں نکلنے کے لیے سیڑھیاں یا راستے بنے ہیں اور ان ایمرجنسی راستوں کا فاصلہ سو فٹ سے زیادہ نہ ہو تاکہ آگ لگنے یا زلزلہ کی صورت میں جانی نقصان کم سے کم ہو وغیرہ وغیرہ۔

سوک سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد کردی ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ چھ منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی اجازت ہے۔ معروضی حالات کی روشنی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل درست ہے، تاہم شہروں کی ترقی اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے ذمے دار اداروں کو اپنی صلاحیتوں اور استعداد کو بڑھانا ہوگا، سہولیات کی دستیابی کو ہر جگہ یقینی بنانا ہوگا، ٹاؤن پلاننگ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانا ہوگا تاکہ وہ نئے دور اور شہروں میں بڑھتی آبادی کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرسکیں۔

تازہ ترین