محسن نقوی نے سازشوں اور شرارتوں کے بارے میں کہاتھاکہ
یہ دُھوپ کی سازش ہے کہ موسم کی شرارت؟
سائے ہیں وہاں کم جہاں اشجار بہت ہیں
نواز شریف کو تاحیات نااہل قراردیاگیاہے۔آئین کے آرٹیکل ون ایف کے تحت جہانگیر ترین بھی اپنی ساری زندگی کے لئے نااہل قراردئیے گئے ہیں۔فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ یہ وہی فیصلہ ہے جو سترہ وزرائےاعظم کے خلاف آتارہا۔حالیہ عدالتی فیصلے سے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم محمدنوازشریف کو نااہل قراردے دیا گیا ہے۔ وزیر مملکت نے کہاکہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے لیڈر جس نے پاکستان کو اندھیروں سے نکال کرروشنی اور خوشحالی کے رستے پر گامزن کیا،اسے عدالت سے نااہل کرایاگیا۔دوسری طرف مشرف نے آئین توڑا اور ایک عرصہ سے بیرون ملک عیش کی زندگی گزار رہے ہیں،ان کے خلاف سوموٹو نہیں لیاجاتا۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے فیصلے کے حوالے سے کہاہے کہ ہم نے نوازشریف کو دعوت دی تھی کہ آئین سے ایسی شقیں ختم کرتے ہیںلیکن یہ نہیں مانے لہذا عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرناتھا۔ اس وقت نوازشریف سمجھتے تھے کہ اگرانہوں نے آئین سے ایسی شقیں ختم کیں توکچھ حلقے ناراض ہوسکتے ہیں۔ آئین میں ایسی ترامیم جنرل ضیاالحق کے زمانے میں شامل کی گئی تھیں جو نوازشریف کے ’’سیاسی گرو‘‘ تھے۔ پاناما اسکینڈل منظر عام پر آیاتو نوازشریف کو مشورہ دیا گیاکہ وہ اسے پارلیمان میں لائیں لیکن انہوں نےاس کیس کو عدالت میں لیجانے کا فیصلہ کیاجس کا نتیجہ سامنے ہے۔ اس فیصلے کے بعدنون لیگ اور نوازشریف کا مستقبل کیاہوگااس پر بات ہوتی رہے گی۔
اس سے قبل چوہدری شجاعت حسین کی لکھی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ پر بات کرلیتے ہیں۔برادرم حسن نثار اور حامد میر کے کالموں نے اس کتاب کی مقبولیت کیلئے وہی کیا ہے جو کپل شرما بالی وڈ کی ریلیز ہونے والی فلموں کی تشہیرکے لئے کیاکرتے ہیں۔ حسن نثار اور حامد میر کے لکھے خوبصورت کالم چوہدری صاحب کی کتاب کے لئے ٹریلر ثابت ہوئے ہیں۔ اسٹار کالم نگاروں کے کالموں کے بعد چوہدری صاحب کی کتاب کی مقبولیت کا گراف ’’باہو بلی پارٹ ٹو‘‘ کی طرح بلند ہوا ہے۔ وطن عزیز میں کتاب دوستی کا دور ایک لحاظ سے ختم ہوچکا تھالیکن چوہدری شجاعت کی سرگزشت نے سیاست کے ساتھ ساتھ صحافت کا بازار بھی گرم کردیا ہے۔ چوہدری صاحب نے اپنی کتاب کاآغاز غالب کے شعر سے کیاہے جس کے پہلے مصرعے میں ’’پروف ریڈنگ ‘‘ کی غلطی رہ گئی ہے۔کتاب میں درج شعر یوں ہے
صادق ہوں اپنے قول کا ،غالب خدا گواہ
کہتاہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
جبکہ درست مصرعہ یوں ہے’’صادق ہوں اپنے قول میں ،غالب خدا گواہ‘‘۔یعنی یہ اسی طرح کی غلطی ہے جس سے ’محرم ‘ سے ’مجرم‘ بن جاتاہے۔ہماری سیاست میں ایک عرصہ سے ملزم اورمجرم کا کھیل جاری ہے۔ملزم اورمجرم کی نسبت سے مدعی ،مدعا علیہ،استغاثہ اور وکیل صفائی سمیت جے آئی ٹی ،نیب ، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ جیسی اصطلاحات سننے کو ملتی ہیں۔چوہدری شجاعت نے کتاب میں لکھا ہے کہ نون لیگ کی طرف سے سپریم کورٹ پر حملے کے ماسٹرمائنڈ کے بارے میں سب کو علم تھا لیکن قربانی کے بکروں کے طور پر بعد میں میاں منیر احمد،طارق عزیز، میاں معراج دین اورچوہدری اختر رسول کے نام دے دئیے گئے۔سپریم کورٹ پر حملے سے پیشتروزیر اعظم نوازشریف چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ٹیلی فون ٹیپ کرارہے تھے۔چیف صاحب نے اپنے بیڈ روم میں نصب کرائی گئی ڈیوائس سمیت دوسرے ثبوت اکٹھے کرلئے جن کے بارے میں وہ پریس کانفرنس میں سب کچھ بتانا چاہتے تھے ۔نوازشریف کو پتہ چلاتو بڑے پریشان ہوئے چنانچہ ان کے کہنے پر میں اور خالد انورایڈوکیٹ چیف جسٹس کو منانے ان کے گھر گئے۔ہماری درخواست پر وہ پریس کانفرنس نہ کرنے پر راضی ہوگئے مگر اپنے بیڈروم کے سائیڈٹیبل کے نیچے لگی ہوئی ریکارڈنگ ڈیوائس انہوں نے ہمیں بھی دکھائی تھی۔چوہدری صاحب صفحہ 152پر لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے اسپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب سے فرمائش کی کہ کوئی ایسا طریقہ نکالیں کہ چیف جسٹس سجادعلی شاہ کو پارلیمنٹ کی کسی استحقاق کمیٹی میں بلواکران کی سرزنش کی جائے۔نوازشریف نے گوہر ایوب کو اپنی گاڑی بٹھایااور گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر کہا،کوئی ایسا طریقہ نکالیں کہ چیف جسٹس کم ازکم ایک رات کیلئے جیل بھیج دیں۔گوہر ایوب نے کہاکہ خداراایسی باتیں نہ کریں کہ پورانظام ہی زمین بوس ہوجائے مگر نوازشریف نے گوہر ایوب کی نصیحتوں پر کان نہ دھرے۔چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ گوہر ایوب نے یہ سب اپنی خود نوشت میں بھی لکھا ہے۔گوہر ایوب نے نوازشریف کو تو نصیحت کی کہ وہ آئین اور قانون کے پاسبانوں کی توہین کرنے سے بازرہیں لیکن اپنے والد گرامی ایوب خان کو ایسا مشورہ نہ دے سکے جنہوں نے وطن عزیز میں آئین کو پامال کرنے کا سب سے طویل ریکارڈ قائم کیا۔ایوب خان کا یہ ’’اعزاز‘‘ بھی ہے کہ وہ آئین کو محض ایک کاغذکا ٹکڑا سمجھنے والوں کے پیش رو تھے۔
چوہدری شجاعت نے انکشاف کیاہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعدوہ وزیر اعظم نوازشریف کے کہنے پر حسنی مبارک ،حافظ الاسداور کرنل قذافی سے ملاقات کرنے گئے۔حسنی مبارک اور نوازشریف میں غلط فہمی کے باعث تعلقات کشیدہ تھے ۔حسنی مبارک نے نوازشریف کو بتایاتھاکہ انہیں قتل کرنے کی سازش جن افراد نے تیار کی ہے ان میں شامل چند لوگ پشاور جیل میں قید ہیں انہیں ان کے حوالے کیاجائے۔نوازشریف نے ان کی بات نہ مانی جس پر حسنی مبارک ناراض تھے۔بہرحال جب میں مصر کے صدارتی محل میں پہنچا تو حسنی مبارک نے مجھ سے گلہ کیاجس پر میں نے نوازشریف سے متعلق ان کا ذہن صاف کیااور ایٹمی دھماکوں کے بارے میں بریفنگ دی جس پر انہوں نے اطمینان کا اظہار کیابعدازاں انہوں نے اپنے وزیر داخلہ کو عربی میں احکامات جاری کئے تو اس میں ’’بیلے ڈانس‘‘ کا لفظ استعمال کیاجس سے میں سمجھ گیاحسنی مبارک ہماری تواضع کا آرڈر دے رہے ہیں۔چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں مصر کی سب سے حسین ترین بیلےڈانسر نے اپنے روایتی رقص سے ہمیں محظوظ کیا۔چوہدری صاحب رقص اوررقاصہ کے معاملے میں زیادہ Choosyنہیں ہیں مسلم لیگ قاف کے یوم تاسیس کے موقع پر ایک معروف ہیجڑے کا رقص دیکھ کر بھی خوش ہوگئے تھے۔مذکورہ کتاب کے حوالے سے چوہدری صاحب نے اعلان کررکھاتھاکہ جو کوئی اس کا موزوں نام تجویز کرے گااسے ایک سے پانچ لاکھ روپے تک انعام دیاجائیگا۔اگرچہ یہ کتاب ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکی لیکن میں بھی چوہدری صاحب کی ذات سے اظہار محبت اور اتباع کیلئے چند عنوانات درج کررہاہوں جو کچھ یوںہیں ’چوہدری کا چاند‘’ کل چوہدری کی رات تھی ‘ ’چوہدری ہوتوایسا‘۔ ابن ِانشا کی بحر سے متاثرہ ایک عنوان یوں ہوسکتاہے ’چوہدری سے ڈرتے ہو‘ ۔ آنند بخشی کی ایک زمین کو استعمال میں لاتے ہوئے’چوہدری مسافر ہے‘جاوید اختر کے ایک خیال سے مستعار کرتے ہوئے کتاب کوعنوان دیاجاسکتا ہے’چوہدری اور اپسرا‘مستنصر حسین تارڑ کی لکھی طویل ڈرامہ سیریل سے نسبت رکھتے ہوئے ’چوہدری حقیقت چوہدری فسانہ ‘۔آخر میںچوہدری صاحب کی کتابِ اتصاف کیلئے دوعنوانات یوں ہوسکتے ہیںکہ’چادر! دیکھ کرپائوں پھیلائیں‘اور دوم عنوان ملاحظہ ہو’اک چادر میلی سی ‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)