وہ فرد ہو، قبیلہ یا سپرپاور کوئی بھی طاقتور اس لئے طاقت حاصل نہیں کرتا کہ کمزور کی رائے یا خواہش کے احترام میں اپنے عروج کا وقت گزار دے۔اکثریت جو ہمیشہ کمزوروں پر مشتمل ہوتی ہے اس کے ادراک اور شعور کے مطابق انہیں انصاف مہیا کرے اور اسی اکثریتی فہم کی روشنی میں خود اپنے لئے بھی راہ عمل متعین کرے۔
طاقت ہمیشہ اپنے سے بڑی طاقت یا پھر اپنے فطری تضادات کا شکار ہو کرفنایا تحلیل ہوتی ہے کسی طاقتور کو یہ احساس دلانے کی کوشش کہ اسے بالآخرفنا ہونا یا ایک کم تر حیثیت قبول کرنا ہوگی محض ایک بیکار مشق ہے۔دراصل طاقت کی یہ سائیکی ہے کہ وہ مزید طاقت حاصل کرےاسے مزیدا ختیار اور اقتدار حاصل ہو اور اس خواہش کے حصول کی تگ و دو مسلسل جاری رہتی ہے۔
انسانی تہذیب کی پانچ ہزار سال پر پھیلی ہوئی تاریخ طاقتور ریاستوں اور حکمرانوں کی دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی غیر معمولی طمع اور رغبت سے بھری پڑی ہے جب کہ امن کی تلاش کمزور اور اکثریت کے لئے ہمیشہ واہمہ یا فریب خیال ہی رہا ہے طاقتور قومیں صرف زندہ رہنے کے لئے محنت اور جدوجہد نہیں کرتیں بلکہ اپنی برتر حیثیت کو برقرار رکھنا اور اس میں مسلسل اضافہ اس جدوجہد کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔اس راستے میں جائز اور ناجائز کی تفریق ہوتی ہے نہ ظلم اور سفاکی پر شرمندگی ۔ہر وہ فعل جائز اور بر حق قرارپاتا ہے جو کامیابی کی منزل تک پہنچائے اور طاقتور کو اس کے برترمقام پر قائم رکھ سکے لیکن یہ برتری طاقت اور وسائل کی برتری ہے جب کہ کمزور اکثریت کے نزدیک بے اصولی کی یہ عمارت مظلوم اور کمزور کے خون پر استوار ہوتی ہے۔
اگرچہ کمزور اکثریت کے اس نقطہ نظر کی تردید نہیں کی جاسکتی لیکن ستم یہ ہے کہ اصول اور نظریات پر اجارہ داری بھی صرف طاقتور کو حاصل ہے اور وہ انہیں اپنی ضرورت کے مطابق مرتب بھی کر لیتا ہے اور انہیں تسلیم کروالینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔پہلے صرف تلوار اور بارود اس کے ہتھیار تھے اب ٹیکنالوجی اور میڈیا کی شعبدہ گری اس کے زیردست ہے اس لئے گزشتہ30 برس سے جب دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ اپنے معاشی اور عسکری عزائم کی تکمیل کے لئے نظریات کے جال بنتا ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کا فیصلہ کرتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس کے عزائم کے پیچھے عقلی اور منطقی جواز بھی موجود ہے تو دراصل اس نظریات کی یلغار کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ایک مخصوص وقت میں تاریخ کے کسی موڑ پر جو قدم امریکہ اٹھاتا ہے صرف وہی وقت کی ضرورت ہے۔یہ الگ بات ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ان فیصلوں پر عملدرآمد امریکی دلیل کے نتیجے میں نہیں بلکہ اس کی پائیدار طاقت کے بل بوتے پر ہے خواہ وہ اقتصادی پابندیاں ہوں یا لشکرکشی‘ دونوں ہی ایک تنہا سپرپاور کا کمزور طاقت کی طرف نخوت کاایسا اظہار ہے جس میں اپنے مفادات کے حصول میں پرانی کامیابیوں کا ایک جہاں آباد ہوتاہے۔
اور شام کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹوئٹ میںبعینہ یہی احساس تفاخرنمایاں تھا جس میں کہا گیا تھا اب بشارالاسد کے شام پر حملے کا وقت آگیا ہے ہمارے نئے خوبصورت اور چمکدار اسمارٹ میزائل دمشق حکومت کے ہیڈکوارٹرز کی طرف اڑان بھریں گے‘ حکومت کے اس سربراہ کو سزا دینے کے لئے جس نے اپنے محصور مخالفین کے خلاف کیمیائی ہتھیار اور زہریلی گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔حملے کے جواز کی یہ وہی ناپسندیدہ کہانی ہے جسے معلوم انسانی تاریخ تواترکے ساتھ سینکڑوں ہزاروں بار دہراچکی ہے جس میں بہائو کے رخ پر ہونے کے باوجود ہمیشہ کمزور بھیڑ مخالف سمت سے آنے والے دریا کے پانی کو گدلاکرتی ہے اور طاقتور بھیڑئیے کو اپنی بھوک مٹانے کا جواز ملتا رہتا ہے۔
شامی حکومت کے باغی دمشق سے تقریباً 40میل کے فاصلے پر ڈوما قصبے کے نواح میں محصور ہو چکے ہیں۔ یہ بشارالاسد کے ہم وطن باغیوں کی آخری مضبوط قلعہ بندی ہے جو اس وقت شام کی سرکاری فوج کے گھیرے میں ہے۔ اسی علاقے میں شامی فوج پر باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا امریکی الزام سامنے آیا۔ ان باغیوں کو2014سے امریکی فوجی تعاون حاصل رہا ہے۔ زہریلی گیس کے حملے کی یہ خبر ابھی دو چار روز پہلے منظر عام پر آئی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ 14مارچ کوماسکو ڈیٹ لائن سے رائیٹرز کی خبر کراچی کے ایک بڑے اخبار کے اندرونی صفحات میں میری نظر سے بھی گزری جس کی دو کالمی سرخی یا ہیڈ لائن کچھ یوں تھی کہ اگر امریکہ نے دمشق پر بمباری کی تو روس کو مناسب جوابی حملے کے لئے تیار پائے گا۔ یہ خبر روسی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف کے بیان پر مبنی تھی اور متن کا لب لباب یہ تھا کہ ہماری خفیہ اطلاعات کے مطابق غوطہ(دمشق کے نواح میں ایک چھوٹا شہر) میں محصور باغی، امریکی تعاون سے جعلی کیمیائی حملے کا منصوبہ تیار کر رہے ہیں جس کا نشانہ غوطہ کی سویلین آبادی ہو گی اور جسے دمشق پر حملے کا جواز بنایا جاسکتا ہے۔۔ دیکھا آپ نے، سب کچھ اسی ترتیب سے رونماہو رہا ہے سوائے تاریخ اور مقام کے فرق سے۔ اگر دمشق پر مجوزہ امریکی حملہ ٹل جاتا ہے تو کیا ایسا باور کرنے میں کوئی حرج ہے کہ1989میں سویت یونین کے انہدام کے بعد دنیا ایک بار پھر کولڈوار یعنی سرد جنگ کے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے اور یونی پاور ورلڈ سے بائی پولر ورلڈ میں تبدیلی کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے؟ ۔
دراصل طاقت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اسے برتری برقرار رکھنے کے لئے مزید وسائل درکار ہوتے ہیں اور مزید وسائل کے لئے اسے مزید طاقت درکار ہوتی ہے اور کبھی ختم نہ ہونے والا یہ نا پسندیدہ اور منفی عمل اسی طرح جاری رہتا ہے۔ طاقتور کے لئے اصول، ضابطوں اور نظریات کی پاسداری کوئی معنی نہیں رکھتی اور نہ ہی ان پابندیوں میں خود کو جکڑے رکھنا اس کے لئے ممکن ہوتا ہے۔ شام میں جو صورت حال آج ہے اس کا سافٹ آغاز بھی 2011میں عرب اسپرنگ سے ہوا۔ ہلچل اور بے چینی کے دو سال گزرتے گزرتے 2013 میں باقاعدہ خانہ جنگی شروع ہو چکی تھی جو گزشتہ پانچ برس سے پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ براہ راست امریکی مداخلت 2014 میں ہوئی اور روس اس خانہ جنگی میں 2015سے الجھا۔ روسی بشارالاسد کی حمایت میں میدان میں اترے اور امریکہ باغیوں کے ساتھ ہے۔ آسمان سے بمباری جاری رہتی ہے اور نیچے زمین پر بے شمار جنگجو گروپ ایک دوسرے کی حمایت اور مخالفت میں موت اور خاک و خون کا خوفناک کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان پانچ سالوں میں مجموعی طور پر 8لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ دس سے پندرہ لاکھ لوگ نقل مکانی یا بے یارومددگار وطن چھوڑ چکے ہیں۔ اتنی ہی تعداد بیمار ، زخمیوں اور بھوک سے لاچار افراد کی ہوگی۔ دو کروڑ آبادی کے اس ملک میں زندہ صرف موت ہے اور عرب اسپرنگ خون رنگ۔
ان حالات میں جیسے کہ وہ ہیں‘ کیا شام کے عوام کے لئے صدام حسین کے عراق کا حل قابل قبول ہوگا یا وہ روس اور حزب اللہ کے شانہ بشانہ اس خانہ جنگی کو طویل تر کرتے جائیں گے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)