تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ (سترہویں قسط) شہر بیت اللحم میں کئی مساجد بھی ہیں جنہیں صدیوں سے اہل ایمان نے اللہ کے حضور سجدوں سے آباد رکھا ہوا ہے۔ مسجد بلال بھی بہت مشہور ہے اور 14سو سال سے بنی ہوئی مسجد عمر بھی۔ مسجد عمرکی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بیت اللحم کی فتح کے وقت اس چرچ ولادت عیسٰی کا ملاحظہ کیا۔ اسی دوران میں نماز کا وقت ہو گیا آپ نے حسب معمول باہر جا کر نماز ادا کرنے کا ارادہ کیا تو لاٹ پادری نے آپ کو اسی چرچ میں نماز ادا کرنے کی پیشکش کی اور آپ نے وہاں نماز ادا کرلی۔ بعد میں اس چرچ کے سامنے والی جگہ مسلمانوں کو دے دی گئی جہاں نماز کیلئے مسجد بنائی گئی جسے مقامی مسلمان بعد میں استعمال کرتے رہے۔ دور عباسی اور دور فاطمی میں اس مسجد کی توسیع کی گئی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں یہاں بڑی پختہ عمارت بنائی گئی۔ عثمانیوں کے دور میں بھی اس کی تعمیر و مرمت کی جاتی رہی ہے۔ اب بھی یہ تین منزلہ خوبصورت مسجد ہے جہاں ہمیں بھی الحمدللہ نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی مذہبی رواداری اور دریا دلی کی وجہ سے وہاں کے عیسائی بلکہ فلسطین کے اصل یہودی بھی بڑے سکون اور احترام کے ساتھ رہتے ہیں اور ان میں کوئی مذہبی تصادم نہیں ہوتا۔ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے علاقے اور عبادت گاہیں مخصوص ہیں کوئی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ اس مذہبی رواداری کا سب سے پہلے مظاہرہ امام المسلمین خلیفہ راشد سیدنا وامامنا فاروق اعظمؓ نے کیا۔ ان کے بعد تمام مسلمان بادشاہوں نے اسے برقرار رکھا۔ پھر یورپی ممالک کی مداخلت سے گیارہوں صدی میں صلیبیوں کا قبضہ ہوا جنہوں نے ظلم و ستم کے دور کا پھر احیاء کیا۔ اسی نوے سال کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے طویل جنگوں کے بعد اس علاقے پر کنٹرول حاصل کیا اور صلیبیوں کی خونخوارانہ روایات کے باجود انہوں نے اسلامی رواداری کا دور پھر بحال کر دیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ ماحول برقرار رکھا گیا۔ سارا فساد مغربی طاقتوں کی منافرانہ سوچ کے باعث دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں کھینچ کر لانے اور زبردستی قابض ہونے نے پیدا کیا ہے یعنی جب بھی باہر سے مداخلت ہوئی تب ہی فتنہ و فساد پیدا ہوا ورنہ یروشلم میں اب بھی مذہبی رواداری پوری طرح موجود ہے۔ ولادت عیسیٰ معجزہ ربانی تھی مگر۔۔؟ قرآن کریم نے بتایاکہ بوقت وضع حضرت مریم صلوات اللہ و سلامہ علیہا، بیت المقدس سے نقل مکانی کرکے مشرقی جانب چلی گئی تھیں اور سب سے الگ ہو گئی تھیں، کسی سے ملتی جلتی بھی نہیں تھیں بلکہ حجاب میں رہتی تھیں۔ انجیل اور پرانی کتابوں میں اس مشرقی علاقے کا نام ’’بیت اللحم‘‘ بتایا ہے، یہ نام سنتے ہی عجیب سا ماحول ذہن میں کوند جاتا تھا اور آج ہم اس جگہ بنفس نفیس موجود تھے۔ کتنا حسین اتفاق ہے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ولادت عیسیٰ ایک معجزہ ربانی تھا جس کا تفصیلی ذکر قرآن کریم کی سورہ مریم میں آیا ہے۔ ’’اس کتاب (قرآن) میں مریم کا واقعہ بیان کر جبکہ وہ اپنے گھر کے لوگوں سے علیحدہ ہو کر ایک مشرقی مکان میں آئیں (۱۶) اور ان لوگوں کی طرف سے پردہ کر لیا‘ پھر ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو بھیجا پس وہ اس کے سامنے پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا (۱۷) یہ کہنے لگیں میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو خدا ترس ہے (۱۸) اس نے کہا میں تو تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہوں، تجھے ایک پاکیزہ لڑکے (کی بشارت) دینے آیا ہوں (۱۹) وہ بولیں! بھلا میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا؟ مجھے تو کسی انسان نے چھوا نہیں اور نہ میں بدکار ہوں (۲۰) فرشتے نے کہا بات تو یہی ہے، لیکن تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ یہ مجھ پر بہت آسان ہے ہم تو اسے لوگوں کے لیے ایک نشان اور اپنی طرف سے ایک رحمت بنا دیں گے، یہ ہونی ہو کر رہے گی (۲۱) پس مریم نے اسے پیٹ میں اٹھا لیا اور پھر اسے لیے ہوئے مشرق کی جانب ایک دور جگہ چلی گئی (۲۲) پھر اسے جننے کا درد ایک کھجور کی جڑ کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور بھولی بسری ہو چکی ہوتی (۲۳) اتنے میں اسے پائنتی سے فرشتے نے پکارا کہ غم نہ کر تمہارے رب نے نیچی جانب ایک چشمہ جاری کر دیا ہے (۲۴) اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، تمہارے سامنے ترو تازہ پکی کھجوریں ٹپک پڑیں گی (۲۵) تو کھجوریں کھا اور چشمے کا پانی پی اور بچے سے آنکھیں ٹھنڈی کر، اگر تجھے کوئی آدمی نظر آجائے تو کہہ دینا میں نے رحمٰن کے لیے روزے کی نذر مان رکھی ہے۔ اس لیے آج کسی آدمی سے بات نہ کروں گی (۲۶) پھر وہ بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئی۔ لوگ کہنے لگے مریم تو نے بڑی بری حرکت کی (۲۷) اے ہارون کی بہن! تیرا باپ برا آدمی تھا نہ تیری ماں بدکار تھی (۲۸) مریم نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کیا سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں؟ (۲۹) بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا نبی بنایا ہے (۳۰) اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں، اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں (۳۱) اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں کیا (۳۲) اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ زندہ اٹھایا جائوں، سلام ہی سلام ہے (۳۳) یہ ہے صحیح واقعہ عیسیٰ بن مریم کا، یہی ہے وہ حق بات جس میں لوگ شک و شبہ میں مبتلا ہیں (۳۴) اللہ کے لیے اولاد کا ہونا اس کی شایان شان نہیں، وہ تو بالکل پاک ذات ہے، وہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے کہ ہو جا، وہ ہو جاتا ہے (۳۵) میرا اور تم سب کا رب صرف اللہ ہی ہے تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے (۳۶) پھر یہ فرقے آپس میں اختلاف کرنے لگ گئے، پس کافروں کے لیے تباہی ہوگی اس بڑے دن کی آمد پر (۳۷) کیا خوب دیکھنے سننے والے ہوں گے اس دن جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے، لیکن آج تو یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں (۳۸) اور انہیں اس پچھتاوے کے دن کا ڈر سنا دو، جب فیصلہ کردیا جائے گا، اب تو یہ لوگ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لا رہے (۳۹) آخرکار ہم ہی وارث ہیں اس زمین کے اور جو کچھ اس پر ہے، اور وہ ہماری طرف لوٹائے جائیں گے (۴۰) گویا قرآن کریم نے ولادت عیسیٰ کے ضمن میں واضح بھی کر دیا کہ وہ اس معجزہ کے باوجود انسان تھے، عبداللہ تھے ابن اللہ نہیں تھے۔ ان کو خدا کا بیٹا کہنا سخت جہالت اور شرک قبیح ہے۔ ان کی دعوت وہی تھی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء و رسل کی تھی۔ یعنی توحید خالص اور عمل صالح کی، وہ نماز بھی پڑھتے تھے اور فریضہ زکوٰۃ کو بھی دین کا حصہ سمجھتے تھے، ماں کے خدمت گزار بھی تھے (یہ نہیں کہ وہ ماں کے سامنے اونچی بولتے تھے جیسا کہ خود ساختہ انجیل میں بتایا گیا) ان کا راستہ صراط مستقیم کا تھا جو ان کا متبع ہے اسے بھی چاہئے کہ وہ عقیدہ توحید خالص پر ایمان رکھے۔