• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہل اور نا اہل
عدالتی فیصلوں سے ہٹ کر بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ یہاں اہلیت کا فقدان ہے، یا اہل افراد کی کوئی کمی نہیں اہل نگاہوں کی ضرورت ہے، جہاں تک ہم نے غور کے بعد نتیجہ اخذ کیا ہے دراصل یہاں کوئی پیدائشی معذور نہیں ہوتا تو کوئی پیدائشی نا اہل کیسے ہو سکتا ہے، اہل اور نااہل کا قصہ رومیؒ نے بھی چھیڑا اور اقبالؒ نے بھی، رومی کہتے ہیں؎
دست ہر نا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
(ہر نا اہل کا ہاتھ تجھے بیمار کر دے گا، ماں کی طرف آ کہ تیری تیمار داری کر کے صحت مند بنا دے) ممکن ہے رومی کا اشارہ عطائی ڈاکٹروں کی جانب ہو کیوں کہ آج بھی ہمارے ہاں نا اہل ڈاکٹروں کی کمی نہیں، اور ان کے مقتول بیماروں کی بھی خوب کثرت ہے، ہم پاکستانی نا اہل اس لئے بھی نہیں ہو سکتے کہ ہم ہر کام کرنے کا ہنر جانتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ہم سے کام لینے میں غلطی کی جائے اور الزام ہماری اہلیت کو دیا جائے، اگر فلسفے کی رو سے دیکھا جائے تو نا اہل بھی اہل ہوتا ہے، کیونکہ وہ نا اہل بن کر دکھاتا ہے اور یہ کردار کمال انداز سے نبھاتا ہے، اقبال تو سرے سے ہمیں نا اہل مانتے ہی نہیں، وہ یہ کہتے ہیں؎
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ان کی ملازمہ برتن توڑنے کی اس قدر اہلیت رکھتی ہیں کہ کسی کو گمان نہیں گزرتا کہ برتن اس نے دانستہ توڑا ہے، ایسی ہی ایک ملازمہ ملکہ ہند نور جہاں کے پاس بھی تھی، ملکہ نے اسے آئینہ پکڑ کر رکھنے کو کہا تاکہ ملکہ سنگھار کرے، ملازمہ نے کمال فن سے آئینہ پر گرفت اس طرح ڈھیلی کی کہ گر کر چکنا چور ہو گیا، ملکہ نے کہا یہ کیا کیا، ملازمہ بولی اس کی قضاء آئی تھی ٹوٹ گیا، تو ملکہ نے معاف کرتے ہوئے کہا اچھا ہوا خود کو دیکھنے کا سامان ٹوٹ گیا۔
٭٭٭٭
گور پیا کوئی ہور
جاوید ہاشمی فرماتے ہیں:سیاستدان کو قتل بھی کر دیں تو زندہ رہتا ہے ہم تو یہ کہتے ہیں کہ مر کر بھی زندہ رہنے کا حق صرف سیاستدان کو حاصل ہے، باقی لوگ تو جب زندہ ہوتے ہیں تب بھی مردہ ہوتے ہیں، سیاستدان، ساری زندگی عوام کے لئے، عوام میں گزار دیتا ہے اپنے فائدے کے لئے تو ایک لمحہ بھی جیئے تو سمجھو کہ مر گیا ہاشمی صاحب کہنہ مشق زینت زنداں رہنے والے مخلص سیاستدان ہیں اور ان کا فرمایا ہوا مستند ہوتا ہے، سیاستدان نہ ہوتے تو یہ دنیا تب بھی ہوتی مگر صرف عوامی دنیا، اس میں کہ خاص و خواص نہ ہوتا، برزخ سے تو اب بھی بعض سیاسی آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
دنیا کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں اس میں صرف سیاستدانوں کی گونج سنائی دے گی، یہی واحد طبقہ ہے جس نے حکمرانی ایجاد کی اور عوام کو جینے کا سلیقہ کچھ اس خوبی سے سکھا دیا کہ وہ مرنے کا سلیقہ ہی بھول گئے، بھلا پھر سیاستدان کو قتل کر دیں، زندہ جلا دیں، اس کی راکھ کے ذرے ذرے سے عوام کی خدمت ہی پکارے گی، ہاشمی صاحب خود کل بھی زندہ تھے آج بھی زندہ ہیں آئندہ بھی زندہ رہیں گے، بھٹو آج بھی زندہ ہیں اور ان کے قاتلوں کا کوئی نام بھی نہیں لیتا، بینظیر کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا مگر نہ صرف وہ زندہ ہیں بلکہ اپنے قاتلوں کو بھی زندہ کر گئیں، جہاں سیاست سے دیانتداری کا رشتہ ہے تو اقبال نے یہ تک کہہ دیا:جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی، گویا یہ سیاست ہے کہ آج عوام کی خاطر رسوا ہو رہی ہے، سیاست ہی حکومت کو جنم دیتی ہے، جمہوریت تو بعد کی پیداوار ہے، بہرحال اسے بھی سیاستدانوں نے اتنی ہی عزت دی جتنی عوام کو دی، سیاست کے اعصاب اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ اسے ناکارہ قرار دے دیا جائے تو بھی اسمیں زندگی کی کوئی نہ کوئی رمق باقی رہتی ہے۔
٭٭٭٭
ایک تازہ خبر
دم تحریر ہی ایک تازہ خبر موصول ہوئی کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر امریکی اتحادیوں نے شام پر مل کر ہوائی حملہ کر دیا ہے، دلیل بڑی مضبوط ہے کہ بشار الاسد نے مردوں، عورتوں بچوں پر کیمیکل ہتھیار استعمال کئے، اور وہ بہت ظلم ڈھا رہا ہے، ایک مخالف اتحاد بھی ہے جس میں پیوٹن، حسن روحانی اور ایردوان شامل ہیں، بظاہر شام کے جملہ ہمدرد صحیح موقف رکھتے ہیں، لیکن یہ بات بھی چھپی ڈھکی نہیں کہ انسانی ہمدردی کی آڑ میں عراق کو تباہ کر کے اس کے وسائل اور دولت پر قبضہ کیا گیا اور آج وہاں ایک ڈمی حکومت کام کر رہی ہے، عراق کے بعد افغانستان کو تاراج کیا گیا، اس کے وسائل اور دولت کو لوٹ کر وہاں بھی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی گئی، اس کے بعد لیبیا پر حملہ کر کے وہاں یہی عمل انسانیت کے نام پر دہرایا گیا، اور اگلا ٹارگٹ ممکن ہے یمن ہو، ان تمام ممالک میں کوئی غیر اسلامی ملک شامل نہیں جہاں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکہ اور اس کے حواریوں نے کوئی کارروائی کی ہو، کیا اسرائیل، بھارت، روہنگیا میں انسانی حقوق بری طرح پامال نہیں ہو رہے، اور مظالم کی اقسام شام سے کہیں زیادہ نہیں، لیکن یہ ایک بڑی گیم یا نیو ورلڈ آرڈر ہے جس کے تحت ایک ایک کر کے کسی اسلامی ملک کو پہلے انسانی حقوق کی پامالی پر کھلی چھٹی دی جاتی ہے پھر انسانی ہمدردی کو بہانہ بنا کر اسے برباد کر دیا جاتا ہے اور وہاں سے دولت لوٹ کر وسائل پر قبضہ کر لیا جاتا ہے، یہ بات طے ہے کہ امریکہ ہو یا بھارت یا پھر اس گروہ میں شامل دیگر مغربی ممالک، ہدف کچھ اور ہے بہانہ کچھ اور، شام پر امریکہ قبضہ کر کے وہاں بیٹھ جائے گا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی پیداوار داعش کو کیوں ختم نہیں کرتا؟ کھیل یا دام ہمرنگ زمین خطرناک ہے، اب مسلم امہ کو اپنی زمام اپنے ہاتھ میں تھام لینا چاہئے ورنہ یہ تسلسل اسے صرف ڈمی امت بنا دے گا۔
٭٭٭٭
لو آیا پیار کا موسم
....Oمنظور وسان نے پھر خواب دیکھا ہے کہ نواز شریف کے بعد مزید کئی سیاستدان نا اہل ہوں گے،
آپ بھی خوابیدہ ہی سہی مگر سیاستدان تو ہیں۔
....Oعمران خان:سپریم کورٹ کے فیصلوں سے نیا پاکستان بن رہا ہے۔
آپ کا نیا پاکستان کہاں گیا؟ کیا اسے بنا کر کے پی میں دفن کر دیا؟
....O بلاول:سیاستدانوں کی قسمت کا فیصلہ عوام کو کرنا چاہئے وہی اصل منصف ہیں، مگر عوام تو اپنے فیصلوں کے لئے عدالت جاتے ہیں، ان پر یہ پابندی کیوں وہ بھی اپنی قسمت کے فیصلے خود کریں؟
....Oشیخ رشید:شریف خاندان کو اب کوئی جسٹس قیوم نہیں ملے گا۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
....Oنواز شریف:سپریم کورٹ سے یہی توقع تھی،
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی۔
....O مریم نواز:ڈر کر 4بار نا اہل کیا گیا۔
یہ تو ہے، آپ کی دہشت ہی اتنی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین