• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 ہمدردی

بھولا چھٹی کے وقت دفتر سے گھر جانےکے لیے نکلا، تھوڑے ہی فاصلے پر اسے ایک آدمی نے رکنے کا اشارہ کیا اور لفٹ مانگی۔ آدمی حلیے سے پڑھا لکھا اور معزز معلوم ہوتا تھا لہٰذا اس نے اسے اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھا لیا۔

"کیوں نہ میں آپ کو ایک سبق آموز قصہ سناؤں؟ وقت اچھا کٹ جائے گا”۔ معزز آدمی نے راستے میں پوچھا

"ضرور”۔ بھولا خوش اخلاقی سے بولا

"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شجر کی ٹہنی پر ایک بلبل اداس بیٹھا تھا۔ وہ سارا دن کھاتا پیتا اور گانا گاتا رہا اُسے پتا ہی نہ چلا کہ کب شام ہوئی اور کب اندھیرا چھا گیا۔ بلبل اسی پریشانی میں تھا کہ اب آشیاں تک کیسے پہنچے ، ایک جگنو اس کی مدد کو پہنچا۔ جگنو نے روشنی کر کے بلبل کو راستہ دکھایا اور اسے منزل تک پہنچا دیا”۔ معزز آدمی نے کہانی سنائی ، اتنے میں اس کا سٹاپ آگیا اور وہ موٹر سائیکل سے اتر گیا۔

"کہانی سنانے کا شکریہ، مگر یہ میں بچپن میں ہی سن چکا ہوں”۔ بھولے نے کہا

"دراصل آپ نے بچپن میں جو کہانی سنی وہ ادھوری تھی، بقیہ کہانی یہ ہے کہ جیسے ہی جگنو بلبل کو چھوڑ کر واپس جانے کے لیے مڑا، بلبل جسے گھر پہنچ کر دوبارہ بھوک لگ چکی تھی، اس نے چونچ بڑھائی اور جگنو کو ہڑپ کر گیا”

"اوہ، مگر اس کہانی سے اخلاقی سبق کیا ملتا ہے؟” بھولے نے پوچھا!

"یہ تو آپ کو گھر پہنچ کر ہی معلوم ہو گا”، معزز آدمی نے بھولے کو جواب دیا اور اس کا شکریہ ادا کر کے چل دیا۔

وہ سوچ میں ڈوبا گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی جیب میں بٹوا نہیں ہے، اب اسے کہانی کا اخلاقی سبق اچھی طرح سمجھ آ گیا اور ساتھ ہی ابا جی کا قول بھی کہ بیٹا اس زمانے میں سبق بھی مفت میں نہیں ملتا!

(سعد)

تازہ ترین
تازہ ترین