• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کولڈ ڈرنک کی بوتل

فراز

لڑکی کا باپ بہت خوش تھا کہ اچھے خاندان سے اس کی بیٹی کا رشتہ آیا ہے۔ لڑکے میں ہر خوبی تھی، پڑھا لکھا، خوش اخلاق، مودب اور بر سر روزگار ، لہٰذا اہل خانہ سے صلاح مشورہ کر کے یہ رشتہ قبول کر لیا گیا۔ بات جب دستور کے مطابق حق مہر کی چلی تو لڑکی کے باپ نے کہا، ہم مردم شناس لوگ ہیں اور لڑکے کو اپنی فرزندی میں لے رہے ہیں، پیسے کی ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں، تاہم رسماً میری بیٹی کا حق مہر صرف ایک ریال ہوگا۔ معاملات طے پاگئے تو شادی کی تاریخ مقرر کر کے اس فریضہ کو سر انجام دے دیاگیا۔

لڑکی بھی ، خوبصورت و خوب سیرت، تعلیم یافتہ، گھر گرہستی کے ہر فن میں ماہر، جلد ہی اس نے سسرال کے ہر فرد کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

ایک دن کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے نجانےشوہر کے ذہن میں کیا سمایا کہ بیوی سے کہنے لگا، جانتی ہو تمہاری قیمت اور اس بوتل کی قیمت ایک ہی ہے۔ طنز تو بہت گہرا اور صدمہ دینے والا تھا، مگر بیوی نے ان سنی کر دی کہ اگر بات زبان سے پھسل کر نکلی ہے تو اس کو یہیں ختم کر دیا جائے، مگر شوہرکی تو یہ عادت ہی بن گئی کہ جب بھی کولڈ ڈرنک کی بوتل خریدتا تو کسی طرح بھی طنز کی کوئی صورت نکال ہی لیتا۔ کبھی کہتا کہ اگر میری تم سے شادی نا ہوتی تو میں ایک اور کولڈرنک کی بوتل خرید لیتا۔

لڑکی اگر چہ بہت ہی سمجھدار اور حالات سے سمجھوتا کرنے والی تھی ،مگر ایک دن اس کا صبر جواب دے گیا، اپنے شوہرسے کہا کہ میں اپنی امی سے ملنے کے لیےاداس ہوں، وہ اسے اس کے گھر لے جائے۔شوہر کو کوئی اعتراض نہیں تھا، فورا ہی تیار ہو گیا۔

ماں کے گھر پہنچ کر لڑکی شوہر کو بیٹھک میں بٹھا کر اندر اپنی ماں کے پاس چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اور کہا کہ آپ نے میرا حق مہر اتنا کم مقرر کر کے میری قیمت گرا دی ، اب میرا شوہرمجھے اس طرح ذلیل کر رہا ہے۔ اس کی ماں نے کہا کہ ابھی تیرا باپ آتا ہے تو میں اسے بتاتی ہوں، مگر لڑکی کا اصرار تھا کہ وہ اپنے معاملات خراب نہیں کرنا چاہتی اس لیے اس کے والد کو خبر نہیں ہونی چاہیے، مگر اس کی ماں نے کہا کہ نہیں یہ غلطی تمھارے باپ نے کی ہے اس لیے ٹھیک بھی وہ ہی کریں گے ، لہٰذا انہیں بتانا ضروری ہے۔ لڑکی کے والد نے سارا قصہ نہایت ہی تحمل کے ساتھ سنا اور بیٹی کو تسلی دی کہ وہ بالکل بے فکر رہے ،سب ٹھیک ہو جائے گا۔

بیٹھک میں جا کر لڑکی کے باپ نے اپنے داماد سے کہا کہ کئی دنوں سے دونوں خاندانوں کی آپس میں ملاقات نہیں ہوئی، اس لیےمیں چاہتا ہوں کہ اس کے گھر والوں کی دعوت کروں، وہ اپنی بیوی کو یہاں ہی رہنے دے اور کل اپنے والدین کے ساتھ دوبارہ آئے، تاکہ سب لوگ مل بیٹھیں۔ لڑکا بخوشی واپس چلا گیا۔

دوسرے دن لڑکا اپنے والدین کے ساتھ جب پہنچا تو لڑکی کے والد نے تین کولڈ ڈرنک کی بوتلیں سب کے سامنے رکھیں اور کہا کہ یہ میری طرف سے آپ کے لئے دعوت ہے۔ لڑکے کے والدین تو کچھ نا سمجھے، مگر لڑکے کو اندازہ ہوگیا کہ بات شاید کچھ اور ہی ہے۔ لڑکی کا باپ بولا کہ تم نے میری بیٹی کا حق مہر ایک کولڈ ڈرنک کی بوتل مقرر کیا تھا ،جبکہ میں تمہیں تین بوتلیں پلا رہا ہوں، یہ بوتلیں پیو اور میری بیٹی کو طلاق دےکر چلے جاو، مجھے تم لوگوں سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا۔ لڑکے کے والدین کو جب سارے معاملے کی سمجھ آئی تو وہ بھی لڑکے پر بہت ناراض ہوئے ۔جب معاملے کو سلجھانے کی بات چلی تو لڑکی کا باپ بولا کہ، اگر میری بیٹی کو لےکر جانا ہے تو اس کا مہر تین لاکھ ریال ہوگا،کیوں کہ مطالبہ اتنا نا مناسب نہیں تھا اور بات بھی معافی و صلح و صفائی سے آگے گزر چکی تھی ، اس لیے لڑکا اور اس کے والدین راضی ہوگئےاور لڑکی کو گھر لے آئے۔

کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد لڑکے نے دوبارہ کوئی ایسی بات کہنے اور کرنے سےتوبہ کر لی۔

تازہ ترین