اسلام آباد (این این آئی) لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ پرویز مشرف دور حکومت میں بطور وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے چار ہزار پاکستانی ڈالر کے عوض غیر ملکیوں کے حوالے کئے لیکن اس حوالے سے پارلیمنٹ سے آواز نہیں اٹھائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد میں سے 70 فیصد سے زائد لوگ عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے ، ایم کیو ایم کی قیادت اپنے لاپتہ افراد معاملے میں سنجیدہ نہیں رہی، کمیشن کے پاس ایم کیو ایم کارکنان کے 29 کیسز زیر التوا ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی این جی اوز پر پابندی کے حق میں ہوں ، شکیل آفریدی کے کردار سے بین الاقوامی این جی اوز کے کردار کو پرکھا جا سکتا ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کا اجلاس زہرہ ودود فاطمی کی سربراہی میں ہوا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے معاملے پر کمیٹی کو بریفنگ دی جس میں اہم انکشافات سامنے آئے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ مشرف دور حکومت میں وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے چار ہزار پاکستانی غیر ملکیوں کے حوالے کئے، پرویز مشرف نے پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا اعتراف بھی کیا، پرویزمشرف اور شیرپاؤ کے اقدامات کیخلاف پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی گئی، پارلیمنٹ کو مشرف اور شیرپائو کے اقدامات کی تحقیقات کروانی چاہئے ، پوچھا جانا چاہئے کہ آخر کس قانون کے تحت پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا، ملک میں پارلیمنٹ، آئین، عدالتیں ہونے کے باوجود کیسے کسی پاکستانی کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ حوالگی کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کو خفیہ طریقے سے غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا جس کے عوض ڈالرز حاصل کئے گئے، یہ نہ پوچھا جائے کہ کتنے ڈالرز ملے، ملک دشمن ایجنسیز بھی لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث رہی ہیں، یہ ایجنسیز لوگوں کو اٹھا کر آئی ایس آئی اور ایم آئی پر الزام لگانا چاہتی ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ اکثر بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد خوف کی وجہ سے کمیشن کے سامنے واقعات سنانے سے اجتناب کرتے ہیں، اگر کوئی شخص دہشت گرد ہے تو اس کا مطلب نہیں کہ اس کے گھر والے بھی دہشت گرد ہیں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی تسلی کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔