اسلام آباد ( رپورٹ :رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نےمیڈیا کمیشن کی سفارشات کے مطابق صحافیوں کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمداورپیمرا کو آزاد و خود مختار ادارہ بنانےکے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران چیئرمین پیمراکے ناموں کے پینل کے انتخاب کیلئے وزیر اعظم کی جانب سے تشکیل دی گئی سرچ کمیٹی کی تشکیل نو کرتے ہوئے وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگزیب کوکمیٹی سے فارغ کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری اطلاعات کو اس میں شامل کرنے کا حکم جاری کیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مریم اورنگزیب بیانات دینے میں مصروف ہیں ،ان کیلئے کمیٹی کیلئے وقت نکالنا ممکن نہیں ہوگا ، میڈیاکی آزادی عدلیہ سے مشروط ہے، پیمراایک آزاداور خود مختار ادارہ ہونا چاہیے،ہم حکومت کا پیمرا پر کنٹرول ختم کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے باہر عدلیہ مردہ باد کے نعرے لگائے گئے ہیں ،میں کسی شیر کو نہیں جانتا ، اصل شیر میرے ساتھی جج ہیں،عدلیہ مردہ باد کے نعرے آئین کے آرٹیکل 62(1)fکے تحت عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت کیس کا فیصلہ آنے کے بعد ہی لگائے گئے تھے ، خواتین کو ڈھال کے طور پر سامنے لے آتے ہیں، غیرت ہوتی توخود سامنے آتے، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تودرخواست گزار و جیو کے معروف پروگرام کیپیٹل ٹاک کے اینکر حامد میر اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ پیمراآرڈ یننس میں ترامیم کے حوالے سے کیاگیاہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کی منظوری سے وزیر مملکت مریم اورنگزیب کی سربراہی میں 7رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جس میں نمایاںصحافی اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے )کے چیئر مین کو بھی شا مل کیا گیا ہے ، فاضل کمیٹی چیئرمین پیمراکیلئے 3ممبران کے پینل کاانتخاب کرے گی ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کام ہوتے ہوتے تو بہت وقت لگ جائے گا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ کام 3ہفتوں کے اندر ہوجائے گا، انہوںنے کہا کہ فوری معاملہ چیئرمین پیمراکی تقرری کا ہے ، پیمرا آرڈیننس کی دفعہ 5 پر عملدرآمد آئینی تقاضاہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون کیخلاف ہم بھی کوئی کام نہیں کرنا چاہتے لیکن چیئرمین پیمراکے عہدہ پر صاف ستھراشخص آناچاہیے،درخواست گزار حامد میر نے فاضل عدالت کو پیمرا قانون میں ترمیم کرکے اسے خود مختاربنانے اور چیئرمین اور ممبرانکی تقرری کے حوالے بتایا کہ عدالت کے سابق حکم کے مطابق قانونی ماہرین سے مشاورت سے جواب تیار کیا ہے ،انہوںنے جواب کی کاپی عدالت میں پیش کی جس کے مطابق تجویز کیا گیاہے کہ پیمرا آرڈیننس میں ترمیم کرتے ہوئے اتھارٹی کی تعداد کو چیئرمین سمیت 13افراد کے بجائے چیئرمین اور دیگر سات ممبران تک محدود کی جائے ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیاغلط خبروں سے متعلق پیمراقانون میں کوئی شق موجودہے، جعلی خبریں بہت اہم معاملہ ہے ، ملائیشیا میں جعلی خبرچلانے کو کو فوجداری جرم بنادیا گیا ہے،جس پر فاضل لاء افسر نے کہا کہ جعلی خبروں کی روک تھام کرنا نہایت ضروری ہے، فاضل عدالت نے چیئرمین پیمراکے انتخاب کیلئے سرچ کمیٹی کی تشکیل تبدیل کرتے ہوئے وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگزیب کوکمیٹی سے نکال کر وفاقی سیکرٹری اطلاعات کو اس میں شامل کرنے کا حکم جاری کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مریم اورنگزیب بیانات دینے میں مصروف ہیں ، 2 روز قبل عدالت کے باہر عدلیہ مردہ باد کے نعرے لگائے گئے ، یہ نعرے آئین کے آرٹیکل 62(1)fکے تحت عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت کیس کا فیصلہ آنے کے بعد ہی لگائے گئے تھے ، خواتین کو ڈھال کے طور پر سامنے لے آتے ہیں، غیرت ہوتی توخود سامنے آتے،جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ابھی صبر اور تحمل سے کام لے رہے ہیں، کسی شیر کو میں نہیں جانتا ،انہوںنے ججز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں اصل شیر، اتنا احترام ضرور کریں جتنا کسی بڑے کا کیا جانا چاہیے، کسی کی تذلیل مقصود نہیں ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بات زبان سے بڑھ گئی ہے،ایسانہ ہوبولنے پرپابندی لگادیں، میڈیاکی آزادی عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سازوں کو قانون میں ترمیم کیلئے تجویز نہیں کرسکتے ، پارلیمنٹ دفعہ 5 میں ترمیم نہ کرے تو ہم کیا کریں؟ پیمراآرڈیننس کی دفعات ہائے 5 اور6 آئین کے آرٹیکل 19 سے مطابقت نہیں رکھتیں، انہوںنے کہا کہ ہم حکومت کا پیمرا پر کنٹرول ختم کرناچاہتے ہیں، پیمرا آزاد ادارہ ہونا چاہیے، حکومت پر کوئی تلوار نہیں لیکن یہ کام ہونا چاہیے، انہوںنے کہا کہ گزشتہ سماعت میں بھارتی وزیر ریلوے لالو پرشاد کا نام لیا تھا( کہ بھارت کا وزیر ریلوے لالو پرشاد ان پڑھ آدمی تھا، لیکن ادارے کو منافع بخش بنایا، ہمارے ہاں صرف جلسوں میں ریلوے کے منافع بخش ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں، اصل صورتحال مختلف ہے) میری معلومات غلط تھی، لالو پرشاد لا ء گریجویٹ ہیں، میری اس بات پر جیو چینل کے ایک اینکر طلعت حسین نے آسمان سر پر اٹھالیا، کسی نے فیصل رضاعابدی کا انٹرویو دیکھا ہے، میڈیا کی آزادی عدلیہ سے مشروط ہے، عدلیہ کمزور ہوگی تو میڈیا کمزور ہوگا، اگر ہماری بات ٹھیک نہیں تو بولنا بھی بند کر دیں گے ،علاوہ ازیں میڈیاکمیشن کیس کی سماعت کےدوران عدالت عظمیٰ نے جیو ٹیلیویژن نیوز نیٹ ورک کے ملازمین کو پچھلے تین ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ادارہ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کوآج طلب کرلیا ہے، چیف جسٹس نے کہاگزشتہ روز کچھ رپورٹرز مجھے ملے تھے اور تنخواہ نہ ملنے کی شکایت کی ہے ،انہوں نے حامد میر کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھاکہ میر صاحب آپکی تنخواہ کتنی ہے؟انہوں نے کوئی جواب نہ دیا ،جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ مالک کفیل کی حیثیت رکھتا ہے، میرے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں؟ لیکن ان رپورٹروں کو انکاحق ضروردلائوں گا ، غیر قانونی کام پر کسی کو نہیں چھوڑوں گا ، کئی میڈیا ہائوسز میں کارکنوں کی تنخواہوں کا مسئلہ ہے ، ایک اینکر کو38 لاکھ اور دوسرے کو 52 لاکھ روپے تنخواہ ملتی ہے جبکہ یہاں پر ایک اخبار (جنگ نہیں ) کے ایک رپورٹر کی 12 ہزار روپے تنخواہ ہے اور وہ بھی اسے نہیں ملتی،انہوں نے حامد میر کوکہا کہ وہ اس معاملے پربھی ایک پروگرام کریں، آپ کی ایک پاور ہے، آپ صحافیوں کی آواز ہیں ،جس پر حامد میر نے کہاکہ واقعی پرنٹ میڈیا میں صحافیوں کی تنخواہیں کم ہیں ،چیف جسٹس نے کہا اگر تنخواہ نہیں ملتی تو پھرمیر شکیل الرحمان کو طلب کرکے ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کارکنوں کو تنخواہیں کیوں ادا نہیں کی ہیں؟ حامد میر نے کہا مجھے تو خود بھی تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ، چیف جسٹس نے کہا کہ تنخواہ نہیں ملی توآپکی مرسڈیز کیسے چلے گی؟انہوں نے ریمارکس دیئے انہی رپورٹرز کی خبروں پر آپ لوگ شام کو اپنے اپنے ٹالک شو کرتے ہیں، کیا12 ہزار روپے سے کسی گھر کا بجٹ بنایا جا سکتا ہے؟ انہوں نے حامد میر کو کہاکہ آپ ان رپورٹروں کیلئے بھی آواز اٹھائیں،ہمیں اینکرز سے پیار ہے مگر رپورٹروں کیلئے کچھ کریں،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ میر شکیل میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرلیں مگر ان کو تنخواہوں کی ادائیگی کا جواب دینا ہوگا۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت آج منگل تک ملتوی کردی ۔جنگ گروپ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کئی سالوں سے خصوصاً گزشتہ چار سالوں اور بالخصوص حامد میر کے واقعے کے بعد جیو نیوز کو بار بار بند کیا جاتا رہا ہے۔ جن میں بعض مرتبہ بندش کے دورانیہ طویل بھی ہوئے ہیں۔ اس تمام عرصے میں جیو نیٹ ورک اور جنگ گروپ نے اپنے کسی ملازم کو ملازمت سے فارغ نہیں کیا اور بنکوں سے قرضے لے کر تنخواہوں کی ادائیگی کرتا رہا۔ اگرچہ بار بار کی بندش کی وجہ سے گروپ کا کاروبار متا ثر ہوا اور بنکوں سے قرضے لینے پڑے جس سے گروپ پر اضافی مالی بوجھ بھی پڑا۔ ان کئی برسوں میں جیو کے بار بار بند ہونے پر ادارہ کئی مرتبہ کورٹ بھی گیا جن میں اکثر فیصلے اب تک زیر التواء ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ جیو کی بندش پر پیمرا یا حکومت نے کبھی سنجیدہ کارروائی نہیں کی۔ جس سے ذمہ داروں کا تعین ہوسکتا۔ ترجمان نے کہا کہ ان تمام باتوں کا ثبوت موجود ہے اور یہ ریکارڈ پر موجود ہے انتظامیہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ تنخواہوں کی ادائیگی کر دے گزشتہ سماعت پر معزز چیف جسٹس صاحب نے جیو سمیت کئی چینلز کو واجبات کی ادائیگی کے لیے 30؍ اپریل تک کی مہلت دی ہوئی ہے۔ اگرچہ چیف جسٹس نے 30؍ اپریل تک کی مہلت دے رکھی ہے لیکن پیر کو میڈیا کمیشن کی سماعت کے دوران جیو نیوز کو اچانک (آج) منگل کو طلب کرلیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ جیو انتظامیہ کی اگرچہ پوری کوشش ہے کہ 30؍ اپریل تک ادائیگی کر دے انہیں سالوں میں ایسے مشکل حالات میں اس نے ہمیشہ ادائیگی کی ہے خواہ کچھ تاخیر ہوگئی ہو۔ ترجمان نے کہا کہ ہم اس کا خیر مقدم کریں گے کہ چیف جسٹس بنکوں سے خود بھی ہمارا ریکارڈ منگوا سکتے ہیں اور ان کے حکم پر انتظامیہ بھی فراہم کرسکتی ہے۔