• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

لولی وڈ کو بالی وڈ کی مصالحہ فلموں کے سحر سے نکلنا ہوگا

لولی وڈ کو بالی وڈ کی مصالحہ فلموں کے سحر سے نکلنا ہوگا

فلم کے موضوعات کے حوالے سے بحث کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ فلم میڈیم کے حوالے سے اس قدر طاقتور ہے کہ دنیا کا ہر موضوع اس میں سمیٹا جا سکتا ہے۔ فلم کی ایجاد اور اس کے کمرشل استعمال سے اس سوال نے جنم لیا کہ اس میڈیم میں کن امور پر بات کی جا سکتی ہے؟ فلم بنانے کے حوالے سے موضوعات پر ہونے والی بحث اور گفتگو نے اس میڈیم کے مقاصد کے حوالے سے بھی سوالات کو جنم دیا۔ 

فلم کا مقصد کیا ہے؟ اور کیا ہونا چاہئے؟ یہ سوالات ایک نئی بحث کے متقاضی ہیں اور ان کے حوالے سے مستقبل میں ایک الگ تحریر قلم بند کی جائے گی۔ مختصراً اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلم کے مقاصد بنیادی طور پر کئی جہتوں میں تقسیم ہیں۔ فلم بنانے کا مقصد تفریح بھی ہے اور فلم معاشرتی اصلاح کے نقطہ نظر سے بھی تخلیق کی جا سکتی ہے۔ فلم ایک کمرشل آرٹ ہے اسی لیے فلم بنانے کا مقصد محض کاروبار بھی ہے۔ فلم ایک بہترین پراڈکٹ ہے جس کی مارکیٹنگ اور سیلز کے لیے جدید مارکیٹنگ اور کاروبار کے تمام اصول بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ 

فلم ثقافت کے فروغ اور ثقافتی اجارہ داری کا ایک اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔ اس لیے فلم کے ابلاغ کے ذریعے سے دنیا کے کئی ممالک اپنی ثقافتی دھاک اور بالادستی تمام دنیا پر مسلط کر چکے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کو بیان کرنا بھی لازم ہے کہ فلم کے مقاصد میں بحث کا مرکز جو نقطہ ہے جو فلم کو تفریح اور معاشرتی اصلاح کے لیے مرکوز کرنے کے حوالے سے ہے۔ اس نقطہ کے وجود سے فلم کے حوالے سے موضوعات کی بحث بھی جنم لیتی ہے۔

لولی وڈ کو بالی وڈ کی مصالحہ فلموں کے سحر سے نکلنا ہوگا

اگر لولی وڈ کی بات کی جائے تو پاکستانی فلمی صنعت میں موضوعات کے حوالے سے اس وقت چار فکری حلقے موجود ہیں۔ پہلے حلقے کا ماننا ہے کہ فلم کے میڈیم کی طاقت اور وسعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ فلم کا موضوع کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس بات کی دلیل دنیا کے مختلف سینما سے دی جا سکتی ہے۔ ہالی وڈ سے لے کر بالی وڈ اور برطانیہ سے لے کر چین تک دنیا کی تمام فلمی صنعتوں میں موضوعات کے حوالے سے کوئی قید موجود نہیں ہے۔ فلم انسانی تخیل کو وجود دینے کا میڈیم ہے۔ 

جدید ٹیکنالوجی نے تو ان امور کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ اس لیے انسانی زندگی کے حساس ترین موضوعات کو بھی پردہ سکرین پر پیش کیا گیا ہے۔ فلمیں ان کہانیوں پر بھی تخلیق کی گئی ہیں جو تفریح سے بھرپور ہیں اور سینما کے پردے پر ان کہانیوں کو بھی پیش کیا گیا ہے جو انسانی المیوں کی داستان ہیں۔ فلم نے جنگ و جدل، محبت اور نفرت، دیو مالائی، سیریل کلرز، بھوت و ڈر اور افسانوی کرداروں پر مبنی کہانیوں کے علاوہ دیگر ہر موضوع کو اپنے اندر سمویا ہے اور شائقین فلم سے داد وصول کی ہے۔

لولی وڈ کو بالی وڈ کی مصالحہ فلموں کے سحر سے نکلنا ہوگا

لولی وڈ سے وابستہ دوسرا حلقہ وہ ہے جو بولی وڈ کے مین سٹریم سینما سے متاثر ہے۔ وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ بولی وڈ کا مصالحہ سینما جس کی کہانی میں تفریح، ڈرامہ، رومانس اور موسیقی کے لوازمات شامل ہوتے ہیں وہ لولی وڈ کے لیے بہترین مثال ہے اور لولی وڈ کو اپنے فلمی موضوعات میں ان مثالوں سے انسپائر ہو کر کہانیاں فلمی شائقین کے لیے پیش کرنی چاہئیں۔ 

ان فلمی کہانیوں کا سب سے اہم فائدہ باکس آفس پرفارمنس ہے۔ ایسی فلمیں شائقین کو محظوظ کرتی ہیں اور نتیجہ کے طور پر فلمساز کے لیے منافع کا باعث بنتی ہیں۔

اس حوالے سے تیسرا حلقہ ان فلمی تخلیق کاروں اور ناقدین پر مشتمل ہے جو لولی وڈ کو پاکستانی ثقافت کی ترویج و ترقی کے لیے لازمی گردانتا ہے۔ یہ حلقہ فلم کا معاشرتی مقصد سب سے اہم سمجھتا ہے اور ایسے موضوعات پر فلمیں بنانے کو فن اور ملک کی خدمت سمجھتا ہے جو کہ قومی ضروریات کے مطابق ہوں۔ یہ حلقہ بولی وڈ کی مصالحہ فلموں کی نقالی کے طور پر بنائی جانے والی فلموں کا بھی مخالف ہے۔

اس حوالے سے چوتھا حلقہ فلم برائے آرٹ کا وکیل ہے۔ اس حلقے کا کہنا ہے کہ فلمیں آرٹ کی ترویج اور آرٹسٹک تخیل کے اظہار کے لیے بنائی جانی چاہئیں۔ فلم تفریح مہیا کرے یا کسی معاشرتی ضرورت کو پورا کرے اس میں آرٹ کے پہلوئوں کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

لولی وڈ کو بالی وڈ کی مصالحہ فلموں کے سحر سے نکلنا ہوگا

فلم کی تخلیق کے حوالے سے موضوعات کو سیلیکٹ کرنا اس لیے بھی ایک چیلنج ہے کہ فلم کی لاگت صرف اس وقت پوری ہوتی ہے جب فلم بین اس کو سراہتے ہیں۔ فلم ایک مہنگا میڈیم ہے۔ اگرچہ جدید فلم میکنگ نے اس کی لاگت کو ایک خاص انداز میں کنٹرول بھی کر دیا ہے لیکن فلم کی لاگت کو پورا کرنا اور اس کو تخلیقی اظہار سے بڑھ کر اپنا کاروبار سمجھتے ہوئے پریکٹس کرنا اب بھی پاکستانی فلمی تخلیق کاروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ 

اس کی وجوہات میں لولی وڈ کا نوے کی دہائی میں زوال کا شکار ہونا، بالی وڈ کا پاکستانی فلمی سینما گھروں پر تسلط، سینما جا کر فلم دیکھنے کے کلچر میں کمی، محدود تعدار میں پاکستانی فلموں کی تیاری اور سینما گھروں کی تعداد میں کمی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ اب ملٹی پلیکس کی تعمیر کی وجہ سے سینما گھروں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے لیکن بقیہ وجوہات اب بھی موجود ہیں۔ پاکستانی فلمی صنعت کی موجودہ لہر میں ایک خوش آئند امر فلم سازوں کا فلمی موضوعات کے حوالے سے تجربات کرنا ہے۔ پچھلے دس برسوں کے دوران فلمی موضوعات کے حوالے سے خوشگوار تجربات سامنے آئے ہیں۔ پاکستانی نوجوان فلمسازوں، ہدایتکاروں اور کہانی نویسوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بہادر ہیں اور ان کو اپنے فن پر عبور حاصل ہے۔ ان کے اس حوصلہ کو پاکستانی فنکاروں نے تقویت بخشی ہے۔ 

پاکستانی آرٹسٹ فن کی تمام جہتوں پر عبور رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم کیک اس کی ایک واضح مثال ہے۔ فلم کی کہانی ایک خاندان پر مبنی ہے جو کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس کو ہدایتکار عاصم عباسی نے نہایت خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ فلم کی اداکاری جاندار ہے۔ آمینہ شیخ، صنم سعید، بیو رانا ظفر، محمد احمد اور عدنان ملک نے اپنے کرداروں کو بخوبی نبھایا ہے۔ کیک کی کامیابی نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ پاکستانی فلم بین باشعور ہے اور اچھی تخلیقی کاوشوں کو سراہتا ہے۔

لولی وڈ کو بالی وڈ کی مصالحہ فلموں کے سحر سے نکلنا ہوگا

کیک سے پہلے کئی فلمیں بالی وڈ مصالحہ ٹائپ سے ہٹ کر بنائی گئی تھیں اور ان فلموں نے لولی وڈ کے مستقبل کے فلمی ڈھانچے کے لیے نئی راہیں متعین کر دی تھیں۔ اس ضمن میں سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم منٹو، جامی کی فلم مور، انجم شہزاد کی فلم ماہ میر قابل ذکر ہیں۔ سرمد کی ہدایتکاری ایک کلاسک انداز لیے ہوئے ہے۔ سرمد فلمی شائقین کی خواہش اور آرٹ کے ملاپ کا فن بخوبی جانتا ہے۔

موضوعات کی وسعت کو سمونے کے لیے اینی میشن ٹیکنالوجی کا استعمال بھی اب لولی وڈ کے لیے آسان بنتا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موضوعات پر بھی فلموں کو تیار کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ہارر فلمیں بھی تخلیق کاروں نے بنائی ہیں۔ لولی وڈ میں فلمسازی کی نئی لہر نئے رجحانات کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے اور اس بات کی توقع ہے کہ لولی وڈ ایک بار پھر سے درخشاں روایت کا نام بن جائے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین