• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن ایکٹ 2017کے ذریعے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں تمام قوانین کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے اس سلسلے میں سول سوسائٹی نے بھی پارلیمانی جماعتوں کو ایسی تجاویز دی تھیںجن کا مقصد پارلیمنٹ کو سماج میں موجود مظلوم طبقات اور محکوم قوموں کی نمائندہ پارلیمنٹ بنانا تھا۔اس سے پہلے 2011میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے ورکر پارٹی کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ میں درخواست بھی دی تھی جس کا بنیادی مقصد انتخابی سیاست کو عام آدمی کی دسترس میں لانا تھا۔سپریم کورٹ نے (PLD2012-SC681)کے ذریعے ایک معرکہ آرا فیصلہ دیا جس کی روح، اس فیصلے کا آرٹیکل ((g81ہے جس میں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو یہ ہدایات جاری کی گئی تھیںکہ الیکشن میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوں۔2013کے الیکشن سے پہلے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اخراجات کی حد5لاکھ اور 2لاکھ تھی جو 2013ء میں بڑھا دی گئی لیکن الیکشن ایکٹ 2017 نے ان حدوں کی حدیں ہی پار کردیںاور ان اخراجات کو 40لاکھ اور 20لاکھ تک بڑھا دیا ۔یہ قانون سازی انتخابی اصلاحات سے روگردانی کے ساتھ ساتھ نہ صرف مزدوروں،کسانوں ،عورتوںاور غیر مسلم پاکستانیوں کو اس عمل سے باہر کرنے کے مترادف ہے بلکہ سپریم کورٹ کے انتخابی اصلاحات کے فیصلے کی بھی سراسر نفی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے فارم جمع کرانے کی فیس جو پہلے 4 اور 2ہزار تھی،بڑھا کر 30ہزار اور 20ہزار کردی گئی ہے یوںاشرافیہ نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں آخری کیل بھی ٹھونک دی تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ مزید برآں زر ضمانت کی واپسی کی حد بھی 8% ووٹوں کی حد سے بڑحا کر 25% کر دی گئی تاکہ اگر کوئی مزدور،کسان کسی سے ادھار لے کرالیکشن کے کاغذات جمع بھی کرادے اور اسے یہ امکان بھی ہو کہ وہ کم ازکم 8% ووٹ حاصل کرکے اپنا ادھار توچُکا لے گااس امکان کو بھی ہمیشہ کے لئے ختم کردیا گیا ہے۔یاد رہے کہ انتخابات کے دوران جلسے ،جلوسوں میں یہ جملے اکثر سننے میں آتے ہیں کہ میں نے فلاں فلاں کی ضمانت ضبط کرادی ہے یوں ورکنگ کلاس کے نمائندوں کو دہری اذیت میں مبتلا کردیا جائے گا یعنی ا س ترمیم سے انہیں ایک طرف معاشی مسائل سے دوچارہوناپڑے گا تو دوسری طرف سماجی تمسخر کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔الیکشن ایکٹ2017ء کی یہ تمام شقیں آئین کے آرٹیکل 17اور25کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے ورکر پارٹی کے تفصیلی فیصلے سے بھی متصادم ہیں۔
آج پاکستانیوں کی 99%آبادی کا تعلق ایسے طبقے سے ہے جس کی ریاست نے تنخواہ کی حد کم ازکم 15000روپے مقرر کی ہے اور جس میں بہت بڑی تعداد بے روزگاروں کی بھی ہے جس میں ہرسال پندرہ لاکھ نئے بے روزگاروں کا اضافہ بھی ہورہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک جمہوریت کا تسلسل ہی ہے لیکن اس کےلئے ضروری ہے کہ پاکستان کے باقی ماندہ 99% عوام کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا جائے۔نیپال بھی پاکستان کی طرح ایک غریب ملک ہے جہاں مختلف طبقات اور دیسی قومیں صدیوں سے آبادہیںجنہوں نے اپنی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں2008ء کے آئین ساز اسمبلی کے لئےالیکشن میں پہلی بار سماج کے تمام طبقوںخاص کر عورتوں،دلتوںاور دوسری دیسی اقوام کو بھرپور نمائندگی دی۔نیپال کی آبادی 28ملین اور یہ بھارت اور چین کے درمیان میں واقع ہے گوکہ نیپال نوآبادیاتی تسلط میں نہیں رہا پھر بھی 1814-1816میں اسی نے برطانیہ کے خلاف جنگ لڑی جس کے نتیجے میں موجودہ نیپال وجود میں آیا۔یہاں بہت عرصے تک بادشاہت قائم رہی لیکن بالآخر بائیں بازو کی پارٹیوں نے اپنی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں ایک ایسے جمہوری عمل کی ابتدا کر دی ہے جو وہاں کے 28ملین عوام کی نمائندہ قرار دی جاسکتی ہے ۔ٹوٹل سیٹوں کی تعداد601ہے جس میں 240ڈائریکٹ اور 335متناسبِ نمائندگی کے مطابق منتخب ہوتے ہیں اوراس کے علاوہ 26ممبروں کوبراہ راست نمائندگی بھی دی جاتی ہے۔نیپا ل میں 2008ء کے الیکشن میں 191عورتیں ،47دلت اور22ممبران ان علاقوں سے منتخب ہوئے جن میں غربت سب سے زیادہ تھی۔
آج پاکستانی اسمبلیوں میں مزدوروں اور کسانوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اور نہ ہی ایسا سیاسی ماحول پیدا کیا جا رہاہے جس کی بدولت عام آدمی انتخابات میں حصہ لے سکے اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح الیکشن ایکٹ 2017ء میں ہر پارٹی 5فیصدٹکٹ عورتوںکو دینے کی پابند ہے اسی طرح کیا ہی اچھا ہوتا کہ مزدوروں اور کسانوں کو بھی ان کی تعداد کے مطابق نہ سہی کچھ نہ کچھ نمائندگی تو دی جاتی تاکہ یہ اسمبلیاں ہم سب کی نمائندہ اسمبلیاںہوتیں جس میں مظلوم طبقات اور محکوم قومیں مل کر اس سماج کے لئےقانون سازی کرتیں۔اب بھی وقت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں یکجا ہو کر الیکشن ایکٹ میں تبدیلی کریںتاکہ ہر پارٹی مزد ور وں ، کسانوں اور غیر مسلم پاکستانیوں کو سماج میں ان کی تعداد کے مطابق ٹکٹ دینے کی پابند ہو۔اس طرح اگست 2018 میںوجود میں آنے والی اسمبلی آئینی ترمیم کے ذریعے مزدوروںاورکسانوں کی بھی متناسب نمائندگی کے اصول پرقومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کی تعداد متعین کرے۔
ان تمام باتوں کے باوجود قانون ساز اداروں نے معرکہ اآرا قانون سازی بھی کی ہے جن میں 1973کا آئین ،پہلا این ایف سی ایوارڈ،اٹھارویں ترمیم اور موجود ہ فاٹا کی اصلاحات کا عمل شامل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان ایک نمائندہ جمہوری عمل کی طرف ارتقا کر رہاہے۔یاد رہے کہ یورپ جہاں جمہوریت کا عمل صدیوں جاری رہا وہاں بھی عام آدمی کو جمہوریت کے ثمرات جن میں عورتوں کو ووٹ کا حق اور فلاحی ریاست کے حقوق دوسری جنگ عظیم کے بعد ملے ۔ یاد رہے 21ویں صدی میں جمہوریت کے علاوہ دنیا میں کسی اورعمرانی معاہدے کی گنجائش نہیں ہے اور پاکستان جیسے ملک میں جمہوری تسلسل سے ہی جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکتے ہیں۔ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت عام آدمی کو اپنے حقوق کا ادراک بہت تیزی سے ہورہاہے اس لئے ضروری ہے کہ نہ صرف غیر مسلموں کو برابر کے حقوق دیئے جائیں بلکہ مزدووں اور کسانوں کے نمائندوں کو بھی ہرقیمت پر اسمبلی میں لایا جائے۔الیکشن ایکٹ2017 کو سپریم کورٹ کی روح کے مطابق تبدیل کیا جائے تاکہ سیاست اور سیاسی جماعتیںجو کہ ایک مسلسل جمہوری عمل کے ذریعے ارتقا پزیر ہورہی ہیںان پر پاکستان کے متوسط طبقے اورمحکوم قوموں کو بھی اتنا ہی اعتماد ہوجتنا کہ طبقہ اشرافیہ کوہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین