• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی۔۔۔۔کانٹے دار جھاڑیاں

مولانا وحید الدین

 ایک راستہ ہے اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں - ایک آدمی بے احتیاطی کے ساتھ اس راستے میں گھس جاتا ہے -

اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں -

کپڑا پھٹ جاتا ہے -

اپنی منزل پر پہنچنے میں اسے تاخیر ہو جاتی ہے -

اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جاتا ہے -

اب وہ آدمی کیا کرےگا ؟کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کرےگا -

کانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شائع کرائےگا -

وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کرےگا کہ دنیا کے تمام درختوں سے کانٹے کا وجود ختم کر دیا جائے -

تا کہ آئندہ کوئی مسافر کانٹے کے مسئلے سے دو چار نہ ہو -

کوئی سنجیدہ اور با ہوش انسان کبھی ایسا نہیں کر سکتا اس کے بر عکس وہ صرف یہ کریگا کہ وہ اپنی نادانی کا احساس کریگا -

وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو الله تعالیٰ نے جب دو آنکھیں دی تھیں ، تو تم نے کیوں نہ ایسا کیا کہ کانٹوں سے بچ کر چلتے -

تم اپنا دامن سمیٹ کر کانٹوں والے راستے سے نکل جاتے -

اس طرح تمہارا جسم بھی محفوظ رہتا اور تم کو منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی -

الله تعالیٰ نے درختوں کی دنیا میں یہ مثال رکھی تھی -

تا کہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے اس سے سبق لیا جائے -

مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی اس آیت کو کبھی کسی نے نہیں پڑھا -

خدا کو اس پیغام کو سن کر کسی نے اس سے سبق نہیں لیا -

آج کی دنیا میں آپ کو بیشمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں -

اور جب کانٹے ان کے جسم کے ساتھ لگ کر انھیں تکلیف پہنچاتے ہیں ، تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر کانٹوں کو برا کہنا شروع کر دیتے ہیں -

وہ اپنی ناکامی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں -

ایسے تمام لوگوں کو جاننا چاہیے کہ جس طرح درختوں کی دنیا سے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں ، اسی طرح سماجی دنیا سے کانٹے دار انسان بھی ختم نہیں ہوں گے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے -

اس دنیا میں محفوظ اور کامیاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے -

اس کے سوا ہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں -

تازہ ترین