مولانا وحید الدین
ایک راستہ ہے اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں - ایک آدمی بے احتیاطی کے ساتھ اس راستے میں گھس جاتا ہے -
اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں -
کپڑا پھٹ جاتا ہے -
اپنی منزل پر پہنچنے میں اسے تاخیر ہو جاتی ہے -
اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جاتا ہے -
اب وہ آدمی کیا کرےگا ؟کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کرےگا -
کانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شائع کرائےگا -
وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کرےگا کہ دنیا کے تمام درختوں سے کانٹے کا وجود ختم کر دیا جائے -
تا کہ آئندہ کوئی مسافر کانٹے کے مسئلے سے دو چار نہ ہو -
کوئی سنجیدہ اور با ہوش انسان کبھی ایسا نہیں کر سکتا اس کے بر عکس وہ صرف یہ کریگا کہ وہ اپنی نادانی کا احساس کریگا -
وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو الله تعالیٰ نے جب دو آنکھیں دی تھیں ، تو تم نے کیوں نہ ایسا کیا کہ کانٹوں سے بچ کر چلتے -
تم اپنا دامن سمیٹ کر کانٹوں والے راستے سے نکل جاتے -
اس طرح تمہارا جسم بھی محفوظ رہتا اور تم کو منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی -
الله تعالیٰ نے درختوں کی دنیا میں یہ مثال رکھی تھی -
تا کہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے اس سے سبق لیا جائے -
مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی اس آیت کو کبھی کسی نے نہیں پڑھا -
خدا کو اس پیغام کو سن کر کسی نے اس سے سبق نہیں لیا -
آج کی دنیا میں آپ کو بیشمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں -
اور جب کانٹے ان کے جسم کے ساتھ لگ کر انھیں تکلیف پہنچاتے ہیں ، تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر کانٹوں کو برا کہنا شروع کر دیتے ہیں -
وہ اپنی ناکامی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں -
ایسے تمام لوگوں کو جاننا چاہیے کہ جس طرح درختوں کی دنیا سے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں ، اسی طرح سماجی دنیا سے کانٹے دار انسان بھی ختم نہیں ہوں گے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے -
اس دنیا میں محفوظ اور کامیاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے -
اس کے سوا ہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں -