عکاسی :محمد اسرائیل انصاری
اپنی زندگی سنوارنے کی تو ہر کوئی ہی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی زندگی روشن کرنے کی کوشش بس کچھ خاص لوگ ہی کرتے ہیں۔ ہمارےمعاشرے میں کچھ ایسے افراد ہیں، جنہوں نے اپنی ساری زندگی ہی خلق خدا کی خدمت کے نام وقف کر دی ہے۔ گزشتہ دنوںہم نے ایسے ہی ایک انسان سے ملاقات کی، جو آنکھوں کے سرجن ہیں، نام ان کا ڈاکٹر مظہر اعوان ہے۔ ان سے مل کر، باتیں کرتے ہوئے لمحے بھر کے لیے بھی ، یہ احساس نہیں ہوگا کہ یہ قابل شخص عام کرسی پر نہیں بلکہ وہیل چیئر پر ہے۔ بچپن میں پولیو کی طرز کے ایک بخار کے نتیجے میں ، وقت کے ساتھ ان کا جسم کمزور ہوتا گیا اور تقریباً تیرہ برس پہلے وہ وہیل چیئر پر آگئے، مگر یہ ان کے لیے کمزوری یا محتاجی نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی بیماری کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’ بیماری نے مجھے زندگی کی اصل حقیقت کی طرف متوجہ کیا۔ میں نے اسے عذر بنا کر کبھی ہم دردی سمیٹی اور نہ میں کسی سے پیچھے رہا۔ میری زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا ہے، اسی لیے 2004ء میں، میں نے بہادر آباد پر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ’’خیر النساء آئی اسپتال‘‘ کا آغاز کیا، جہاں غریبوں کا مفت علاج کرتا، اب یہ چھوٹی سی کوشش بڑے اسپتال کا روپ دھار چکی ہے۔ہمارے معاشرے میں فلاحی کام بہت ہوتے ہیں، مگر معیار پر سمجھوتا کر لیا جاتا ہے۔ لیکن میرا بنیادی مقصد لوگوں کو معیاری علاج مہیا کر ناہے، مفت علاج کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ معیار پر سمجھوتا کیا جائے،بس میں اسی نظریے کے تحت آگے بڑھ رہا ہوں۔ ‘‘ہم نے باقاعدہ گفتگو کا آغا ز کرتے ہوئےڈاکٹر مظہر سے پوچھا ۔
جنگ: اپنے تعلیمی پس منظرکے بارے میں بتائیے۔
ڈاکٹر مظہر اعوان: میں نے ناصرہ پبلک سیکنڈری اسکول سے میٹرک، ڈی جے سائنس کالج سے انٹر اور اور سندھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔بعد ازاں’’ کالج آف فزیشن اینڈ سرجن آف پاکستان ‘‘سے اسپشلائزیشن کی۔اس پروفیشن میں تقریباً تیس ، پینتیس برسوں سے ہوںاور تقریباًپندرہ ، بیس برس سے وہیل چیئر پر ہوں یہ سمجھ لیں ، یہ میری زندگی کی ساتھی ہے۔
جنگ: آپ وہیل چیئر پر ہیں، اس کی کیا وجہ بنی؟
ڈاکٹرمظہر اعوان: میں پیدائشی طور پر نارمل تھا۔ بچپن میں ایک مرتبہ بخار ہوا ، اس کے بعد سے میں کمزوری محسوس کرنے لگا، بہ ظاہر تو وہ عام سا بخار تھا، مگرصحت یابی کے بعد آہستہ آہستہ جسم کمزور ہوتا گیا۔اس کے بعد میں اللہ کے اور زیادہ قریب ہوگیا۔ میرا شعور پختہ ہوا، سوچنے سمجھنے کا زاویہ بدلا، میں خود کو پہلے سے زیادہ صحت مند اور توانا محسوس کر نے لگا۔ اس بیماری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو پہچانا،یہ میرے لیے بیماری یا محرومی نہیں بلکہ غنیمت ہے، میں نے اسے آڑ بنا کر کبھی کسی کام کو کرنے میں کوتاہی نہیں کی، میں بالکل چست، درست ہوں۔ بے شک میں چلنے پھرنے سے قاصر ہوں، لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے بازو سلامت رکھے، میں معاشرے کی خدمت کر رہا ہوں، خلق خدا کے کام آرہا ہوں، جو کام کرنا چاہتا ہوں وہ کرتا ہوں۔
جنگ: بچپن میں جب پتا چلا کہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں، جس کے بعد اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہوگئےہیں، تو کیسا محسوس کرتے ،کیا سوچتے تھے؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: میری بیماری ایسی نہیں تھی ، جو یک دم مجھ پر حملہ آور ہوگئی، یا میں فوری مفلوج ہوگیا، بلکہ اس کے اثرات آہستہ آہستہ نمودار ہوئے ،اس لیے بچپن میں کسی جھنجلاہٹ یا پریشانی میں مبتلا نہیں ہوا، میرا بچپن عام بچوں کی طرح ہی گزرا، بالکل نارمل تھا، اسکول جاتا تھا، کھیل کود میں حصہ لیتا تھا، اپنا ہر کام خود کرتا تھا۔
جنگ: آپ کے والدین کو جب معلوم ہوا کہ آپ ایسی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں، جس کے باعث رفتہ رفتہ چلنے، پھرنے سے قاصر ہو جائیں گے، تو وہ کیسا محسوس کرتے تھے؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: یقیناً انہیں دکھ توہوا ہوگا، بلکہ میرے اہل خانہ ،عزیز و اقارب ،مجھے دیکھ کر یہ سمجھتے کہ شاید میں پریشان ہوں، لیکن میں سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں کسی تکلیف ، اذیت یا کرب میں مبتلا نہیں رہا، میں نے بھر پور زندگی گزاری ہے اور گزار رہا ہوں۔ جن نعمتوں ، انعامات اورکام یابیوں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نوازا ہے، ان کے آگے یہ بیماری کوئی معنی نہیں رکھتی۔ میں اپنے مالک کا جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے۔
جنگ: کس عمر سے چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئےتھے؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: یہ تو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ بخار ختم ہونے کے بعدآہستہ آہستہ کمزوری غالب آگئی تھی، پینتیس سال کا تھا کہ چلنے پھرنے سے قاصر ہو گیا۔یوں سمجھ لیں بخار نے معذور کیا، جب میں نے محسوس کیا کہ میں معذوری کی طرف جا رہا ہوں، کام کرنے، اُٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنےمیں مشکلات لاحق ہو رہی ہیں،تووہیل چیئر کا سہارا لے لیا، اور پھر اسی کے سہارے خود کو فعال کرلیا۔اپنا ہر کام خود کیا،ہر ممکن کو شش کی کہ عام لوگوں کی طرح ہی نارمل زندگی گزاروںایسا ہی کیا۔
جنگ: کیا اہل خانہ یا خاندان میںبھی کسی کو یہ بیماری لاحق ہے؟
ڈاکٹر مظہر اعوان : نہیں۔ میرے سب بہن ، بھائی ، مکمل طور پر صحت مندہیں۔ خاندان میں بھی کوئی مجھ جیسا نہیں۔
جنگ: کیا آپ سمجھتے ہیں ، ہمارے ملک میں خصوصی افراد کووہ سہولتیں میسر نہیں، جو مغربی ممالک میں ہیں؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: دیکھیں مہذب معاشروں میں خصوصی بچوں کے لیے ، موثر منصوبہ بندی کے تحت کام کیا جاتا ہے، ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔ انہیں زمانے کے ساتھ چلنا سکھایا جاتا ہے۔ ان کے تعلیمی ادارے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، جب کہ ہمارے ملک میںعام بچوں کے تعلیمی اداروں کا حال ہی برا ہے، تو خصوصی بچوں پر کون دھیان دے گا۔میں تقریباً پندرہ ، بیس برسوں سے وہیل چیئر پر ہوں، اسی پر بیٹھے بیٹھے لوگوں کی خدمت کر رہاہوں، سب کام کرتا ہوں، لیکن مجھے کوئی مراعات میسر نہیں ہیں، جو خصوصی افراد کا حق ہے۔ میں اپنے تمام ساتھیوں سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہوں۔لیکن یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں سڑکوں تک پر وہیل چیئر پر چلنے والے افراد کے لیے کوئی مخصوص لائن نہیںہے، عمارتوں میں ایسے افراد کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے، حد تو یہ ہے کہ مساجد تک میں وہیل چیئر پر چلنے والوں کے لیے انتظام نہیں ہوتا۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو پبلک ٹرانسپورٹ تک میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ، وہیل چیئر پر بیٹھےافراد کو پریشانی کا سامنانہ کرنا پڑے، ان کے لیے ریمپ بنائے جاتے ہیں۔ سڑکوں پر جگہ مخصوص ہوتی ہے، مگر ہمارے ہاں ان ’’معمولی‘‘باتوں کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا،میں اس میں قصور وار صرف مقتدر حلقوںکو نہیں سمجھتا، بلکہ میڈیا بھی بھر پور ذمے دار ہے، کیوں کہ وہ بااثر ہے، اس کی بات سنی جاتی ہے، اگر وہ چاہے ، تو اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دلا سکتا ہے، مگر وہ بھی ریٹنگ کی دور میں لگا ہے۔ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ معاشرے میں ایسے افراد ہوتے ہیں، جنہیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا میڈیکل سائنس کا سب سے بڑا ادارہ ’’کالج آف فزیشین اینڈ سرجن آف پاکستان‘‘جو ملک کے لیے ماہرین ڈاکٹرز کوتیار کرتا ، ان کی تربیت کرتا ہے، وہاں بھی وہیل چیئر پر آنے والے افراد کے لیے کوئی ریمپ یا سہولت میسر نہیں ہے ، میں بھی اس ادارے کا ایک رکن ہوں، مگر جو کوتاہی یا خامی ہے، اس کی نشان دہی تو بہر حال کرنی پڑتی ہے۔بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خصوصی افراد اور وہیل چیئر پر بیٹھے افراد کے لیے خاطر خواہ کام نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ اعلانات وغیرہ ہوجاتے ہیں، مراعات دینے کے وعدے کر دئیے جاتے ہیں، انہیں بھیک دینے کے لیے تو سب تیار ہوتے ہیں، کام دینے کے لیے نہیں۔ یہی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ میں وہیل چیئر فرینڈلی معاشرے کی بات صرف اپنے لیے نہیں کر رہا، کیوں کہ میں تو بہ خوبی اپنے کام سرانجام دے رہا ہوں، مشکلات سے گھبرانے والا نہیں ہوں، لیکن ، دیگر افراد کے لیے ضرور آواز اُٹھانا چاہتا ہوں ۔ پوری دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، ان کے آرام کاخاص خیال رکھا جاتاہے، مگر ہمارے ہاں تو اس جانب کوئی متوجہ ہی نہیں ہوتا۔کلچر کے بارے میں کسی کی توجہ ہی نہیں ہےاور یہ صرف اس لیے ہے کہ یہاں شعور نہیں ہے، حکومتوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں، جب تک معاشرے میں شعور اجاگر نہیں کیا جائے گا، لوگوں کو یہ نہیںسکھایا جائے گا کہ خصوصی اور معذورافراد کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، تب تک ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور یہ شعور اُجاگر کرنا میڈیا کی ذمے داری ہے۔
جنگ: جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ ’’کالج آف فزیشین اینڈ سرجن آف پاکستان‘‘کے ممبر ہیں، تو آپ نے اس ادارے کو وہیل چیئر فرینڈلی بنانے کے لیے کیا ، کیا؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: میں نے سب کے گوش گزار کر دیا تھا،میرا کام اس مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرانا تھا، جو میں نے کرادی، مگر فرد واحد کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
جنگ: میڈیکل کے شعبے میں آنے کا کیوں سوچا؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: جب میں چھوٹا تھا ، تو میرے والد صاحب کو آنکھوں کی بیماری ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے وہ بینائی سے محروم ہو گئے تھے، جب میں نے ہوش سنبھالا تو انہیں اس وجہ سے پریشانی کا سامنا کرتے دیکھا، ظاہر ہے، بینائی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ انمول نعمتوں میں سے ایک ہے، اس سے محرومی تکلیف دہ تھی۔ انہیں دیکھ کرمیں نے فیصلہ کر لیا تھا، کہ میںمیڈیکل کی تعلیم حاصل کرکے، آئی سرجن بنوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کردی۔
جنگ: جب آپ نے ایم بی بی ایس اور اسپشلائزیشن کی ، تو کیا آپ وہیل چیئر پر تھے؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: نہیں۔ اس دوران میں اپنے پیروں پرچلتا پھرتا تھا۔
جنگ: سنا ہےپاکستان میں کمپیوٹرائزڈ آئی ٹیسٹنگ آپ نےمتعارف کرائی؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: یہ ٹیکنالوجی میں نے متعارف نہیں کرائی۔ جس وقت دنیا میں کمپیوٹرائزڈ آئی ٹیسٹنگ شروع ہوئی، تو میں اسپشلائزیشن کر رہا تھا، اتفاق کی بات ہے ،میں1985-86 میں کراچی کی پارسی کالونی میں قائم اسپتال ’’انکل سریاآئی اسپتال ‘‘ میں کام کرتا تھا،وہاں پر ایک صاحب نے نجی طور پر یہ کام شروع کیا، انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ کمپیوٹرائزڈ آئی ٹیسٹنگ متعارف کراتے ہیں،ایک طرح سے انہوں نے مجھے ملازمت پر کھ لیا، بس اس طرح مجھے پہلا ڈاکٹرکہا جاسکتا ہے، جس نے کمپیوٹرائزڈ آئی ٹیسٹنگ کےذریعے علاج کیا۔میں اس ٹیکنالوجی سے آگاہ تو تھا، بس اسے بہ ذریعۂ کمپیوٹر کرنا تھا۔ اس کی مثال ایسی ہے، جیسے حساب، میں جمع تفریق تو سب کو آتی ہے، مگر کیلیولیٹر آنے سے آسانی ہوگئی، کام جلدی ہونے لگا۔ جب اس ٹیکنالوجی کے بارے میں لوگوں کوپتا چلا تھا ، توتقریباً سب ہی حیران تھے اور بڑی تعداد میں آنکھوں کا معائنہ کرانے آتے تھے۔ میری تربیت کا بڑا حصہ ڈاکٹر اختر جمال خان کے ساتھ گزرا، تقریباً بیس ، پچیس سال میں نے ان کے ساتھ کام کیااور بہت کچھ سیکھا۔
جنگ: خدمت خلق کی طرف آنے کا رجحان کیسے ہوا؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: کئی برس پہلے، جب مجھے پریکٹس کرتے ہوئے تقریباً بیس، بائیس برس گزر چکے تھے، تو ایک مرتبہ ، کسی اللہ والے کی مجلس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں نے سنا، کہ ’’ہم دین کی تو بہت خدمت کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے، لوگوں کے دینی عقائد، وغیرہ کی تربیت کی طرف توکوشاں ہیں، لیکن ان کی پریشانیوں سے انجان رہتے ہیں، جب کہ حقو ق العباد کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے، اس طرف ہمارا دھیان نہیں ہوتا، بس اسی لمحےمیں نے فیصلہ کر لیا کہ اب مجھے اپنی زندگی رفاہی کاموں کے لیے وقف کرنی ہے۔جب میں نے ارادہ کرلیا، تو اپنے اطراف میں کئی مستحقین نظر آئے ، جو آنکھوں کا علاج کرانے سے قاصر پریشان حال گھوم رہے تھے۔ روزی، رزق دینے والی ذات تو اللہ کی ہے، بس میں نے اس کے پیچھے دوڑنا چھوڑدیااور رفاہی کاموں میں لگ گیا۔ اب میری توجہ کا مرکز غریب افرادہیں۔ یہاں روزانہ کئی مریضوں کا مفت علاج کرتاہوں۔ مجھے کام کرتے ہوئے تقریباً تیس، پینتیس برس ہو چکے ہیں، میرے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے لاتعداد مریضوں کو شفا یاب کرایا ہے، مریض مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، انہیں فرق نہیں پڑتا کہ میں وہیل چیئر پر ہوں ۔اب اسکولوں میں جا کر آنکھوں کی حفاظت و صحت سے متعلق آگہی فراہم کرنے کا آغاز کیا ہے۔ ہر اسکول میں جانا اوروہاں کام کرنا چاہتاہوں ۔ ابھی چھوٹےپیمانے پر کام شروع کیا ہے، فی الحال سولجر بازار میں ناصرہ پبلک اسکول میں کام کا آغاز کیا ہے، امید ہے یہ پروگرام آگے بڑھے گا۔
جنگ: وہ کون سی بات، واقعہ یا شخصیت تھی، جس نے آپ کو متاثر کیا؟
ڈاکٹر مظہر اعوان: ایک شخصیت ہیں، جنہیں میں اپنا استاد کہتا ہوں، لیکن ان کا نام بتانانہیں چاہتا، انہوں نے مجھے بس ایک چیز بتائی کہ اندھیرا بہت ہے، یا تو ہم اس پر آہ و زاری کرتے رہیں، روتے رہیں، چیختے رہیں یا ہم اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے چھوٹی سی شمع جلادیں، اپنے ماحول کو روشن کریں، دوسروں کے لیے مثال بن جائیں، ہو سکتا ہے ہماری دیکھا ، دیکھی، کچھ اور لوگ بھی شمعیں روشن کریں اور رفتہ رفتہ یہ اندھیرا ختم ہوجائے۔‘‘دوسری بات انہوں نے یہ سکھائی کہ یہ زندگی جنت ’’کمانے‘‘ کے لیے ملی ہے، دنیاکو جنت ’’بنانے‘‘ میں مت لگ جاؤ۔ ہم دنیاکو جنت بنانے میں لگ گئے ہیں، جو مہلت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے، اس کا درست استعمال کرنا چاہیے۔میرے استاد نے مجھے یہی سبق دیااور کہا کہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال خلق خدا کی خدمت کرنے میں کرو۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس گاڑی کون سی تھی، گھڑی کی قیمت کیا تھی؟ کتنے بڑے بنگلے میں رہتے تھے، بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تمہیں جو نعمتیں میسر تھیں، انہیں دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا۔ بس میںاپنی تمام صلاحیتوں کو دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کر نا چاہتا ہوں اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے ، میں یہ سب کام کر رہا ہوں۔