• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھرتیوں پر پابندی کیوں لگائی؟ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار کہاں سے آیا، چیف جسٹس

بھرتیوں پر پابندی کیوں لگائی؟ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار کہاں سے ا ٓیا، چیف جسٹس

اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں، مانیٹر نگ سیل) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے بھرتیوں پر پابندی لگائی گئی، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار کہاں سے آیا؟ کیا یہ فیصلہ حکومتی امور متاثر نہیں کریگا، از خود نوٹس کا مقصد بروقت انتخابات کرانا ہے، اچھی بات ہے نوکریاں الیکشن سے پہلے نہ دی جائیں، ایسی پابندی کی وضاحت ہونی چاہیے، اسمبلیاں تحلیل ہونے سے پہلے کیا ایسا حکم دیا جاسکتا ہے؟ نوازشریف کو قانون کے مطابق سیکورٹی دی جائے، معلوم کریں اسفند یار ولی خان کو سیکورٹی ملی یا نہیں؟ اس موقع پر عدالت نے صوبوں کو ایک ہفتے میں سیکورٹی فارمولا بنانے کی ہدایت بھی کی۔ کٹاس راس مندر کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چشمے کا پانی استعمال کرنے کی اجازت دینے والے افسروں کو نہیں چھوڑوں گا، سی پیک نہ ہوتا تو فیکٹری ایک لمحے میں بند کردیتے۔ عدالت نے سرکاری بھرتیوں پر الیکشن کمیشن کی پابندی کے حوالے سے حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے نادرا کو بیرون ملک 10سنٹرز برقرار رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹادیا۔ جبکہ زلزلہ متاثرین کے بحالی کے حوالے سے مقدمہ میں سیکرٹری خزانہ کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا کے نجی اسکولوں میں فیسوں سے متعلق کیس میں فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے ، سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔ تفصیلات کے مطابق پیر کو سپریم کورٹ میں مختلف مقدمات کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے الیکشن کمیشن کی جانب سے سرکاری بھرتیوں پر پابندی سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس قانون اور اختیار کے تحت الیکشن کمیشن نے بھرتیوں پر پابندی لگائی؟، اسمبلیاں تحلیل ہونے سے پہلے کیا ایسا حکم دیا جاسکتا ہے؟، کیا اس طرح کا فیصلہ حکومت کے امور کو متاثر نہیں کرے گا؟۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن ایکٹ 217 اور آرٹیکل 218 کے تحت شفاف انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے اور پابندی کے اختیارات حاصل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن میں تاخیرنہیں ہونی چاہیے، آئندہ انتخابات وقت پر ہونے چاہیے، بھرتیوں کی شکایت ہائی کورٹس میں بھی دائر ہوتی ہیں، ہائی کورٹس سے کہہ دیتے ہیں ایسے مقدمات کو جلد نمٹائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے نوکریاں الیکشن سے پہلے نہ دی جائیں، مگر ایسی پابندی کی وضاحت ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے بھرتیوں پر پابندی لگائی گئی اور بعض اہم ترین اداروں میں سربراہان کی تقرریوں کا عمل چل رہا ہے، کیا الیکشن کمیشن کی پابندی کا اطلاق ان اداروں پر بھی ہوگا۔اس موقع پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ وفاقی حکومت نے بعض بھرتیوں پر اجازت مانگی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں الیکشن کمیشن کے پاس پابندی کا اختیار کہاں سے آیا اور بھرتیوں پر پابندی کا اختیار کس قانون میں ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل218کے تحت شفاف انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے اور الیکشن ایکٹ 217 بھی الیکشن کمیشن کو اختیارات دیتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے سے پہلے کیا ایسا حکم دیا جاسکتا ہے، کیا اس طرح کا فیصلہ حکومت کے امور کو متاثر نہیں کریگا اور کیا الیکشن کمیشن کے ایسے اختیار سے متعلق کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ازخود نوٹس لینے کا مقصد بھی آپ کو بتا دیتا ہوں، الیکشن میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے اور آئندہ انتخابات اپنے وقت پر ہونے چاہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے جان کے خطرے کا شکار افراد سے سیکیورٹی واپس نہ لینے اور تمام صوبوں کو سیکورٹی فراہمی کا فارمولا ایک ہفتے میں طے کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ قانون کے مطابق نوازشریف کو سکیورٹی دی جائے ۔پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے غیر متعلقہ افراد کی سیکورٹی واپس لینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو جان کا خطرہ ہے ان سے سیکیورٹی واپس نہ لی جائے اور تمام صوبے سیکورٹی فراہمی کا فارمولا ایک ہفتے میں طے کرلیں۔ آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ جن افراد کے نام وزارت داخلہ نے دیئے ہیں ان کو سیکورٹی فراہم کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ لوگوں کو سیکورٹی واپس لینے پر اعتراض ہے جسکی زندگی کو خطرہ ہے اس کو سیکورٹی ملنی چاہیے، اس سے سیکورٹی واپس نہ لیں، کسی کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے، نواز شریف کو بطور سابق وزیراعظم سیکورٹی ملی ہے، معلوم کریں اسفند یار ولی خان کو سیکیورٹی ملی؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب میں غیر متعلقہ افراد کو سیکورٹی کا خرچہ ایک ارب 38 کروڑ بنتا ہے سفید کپڑوں میں ملبوس افراد کو بھی سیکورٹی پر مامور کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تمام صوبے اپنے سیکورٹی کے قواعد یا طریقہ کار بنا لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور میں دیکھا ہے سرکاری گاڑیاں بچے چلارہے ہیں، سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے، تمام صوبے سیکورٹی فراہمی سے متعلق یکساں فارمولہ بنائیں، ایسے لوگوں کو سیکورٹی نہیں ملنی چاہیے جو اہلیت نہیں رکھتے، سیکورٹی سے متعلق ایکشن لینے کا مقصد ٹیکس کا پیسہ بچانا ہے۔ کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی گئی۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں کٹاس راج مندر سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ رات مجھے ایک پیغام موصول ہوا کہ ایک سیمنٹ فیکٹری میری ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نے مذاق کیا ہو۔ وکیل سیمنٹ فیکٹری نے کہا کہ یہ پیغام ہماری طرف سے نہیں ہو سکتا۔ہم قدرتی چشمے سے پانی کی ضرورت پوری کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قدرتی چشمے پر کسی کا حق نہیں ہے۔ قدرتی چشمے کا پانی استعمال کرنا ایک غیر قانونی اقدام ہے۔ ہمارا مقصد معاملے کا حل نکالنا ہے۔سی پیک نہ ہوتا تو ایک لمحے میں فیکٹری بند کر دیتے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پوٹھوہار خطے میں چھوٹے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ فیکٹری عرصے سے زیر زمین پانی استعمال کر رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ماحولیاتی ایجنسی کو زیر زمین پانی استعمال کرنے کی اجازت کا اختیار نہیں۔ماحولیاتی ایجنسی کے جن افسروں نے اجازت دی انہیں نہیں چھوڑوں گا۔افسروں نے کس طرح اربوں روپے کے پانی کے استعمال کی اجازت دی؟ ہر سال 7 ارب روپے کا پانی فیکٹری استعمال کرتی ہے۔ جب سے فیکٹری لگی ہے حساب کریں تو اربوں روپے کا پانی بن جاتا ہے۔ یہ صرف کٹاس راج کا معاملہ نہیں ہے۔حکومت پنجاب قانون کے مطابق اختیار استعمال کرے۔ فیکٹری مالکان کو صرف پیسے کمانے کا رومانس ہے۔ پانی کی جو حالت ہے آئندہ آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ ڈیمز بنا کر پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کچھ نہیں کرنا؟ لوگوں کو پانی میسر نہیں ذمہ دار کون ہے؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ علاقہ میں پانی کی کمی سے مویشی مر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے نادراکوبیرون ملک 10سنٹرز برقرار رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹادیا ہے۔

تازہ ترین