گوادر ( نیوز ڈیسک ) گزشتہ ایک دہائی سے پاکستانی حکام گوادر کی اہم اسٹریٹیجک بندرگاہ کو ڈیوٹی فری اور فری اکنامک زون میں تبدیل کرنے اور نیا دبئی بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ، لیکن پانی کی قلت اس خواہش میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے ۔ فی الحال پاکستان کے اس ’نئے دبئی‘ کی اصل دبئی سے صرف ایک مماثلت ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں بھی پانی کی شدید کمی ہے ۔ مقامی صحافی ساجد بلوچ کےمطابق موسمیاتی تبدیلیاں کی وجہ سے گزشتہ 3 برس سے یہاں بارش نہیں ہوئیں ۔گوادر کے مضافات میں واقع آنکارا کور ڈیم میں پانی کے ذخائر 2 برس قبل ہی خشک ہوچکے ہیں اور اب پانی دور دراز کے علاقوں سے لایا جا رہا ہے جو آلودہ ہونے کے باعث ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں پھیلانے کا باعث بن رہا ہے ۔ جب کہ زیر زمین پانی نمکین ہونے کی وجہ سےکسی کام کا نہیں ہے ۔ پاکستانی گوادر بندرگاہ کو دبئی کے مقابل لانے کیلئے اس مسلے کا حل نکالنا ضروری ہے ۔ پاکستان اور چین مل کر ایران کے قریب اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع اس بندرگاہ کو علاقائی ، تجارتی ، صنعتی اور جہاز رانی کا مرکز بنانا چاہتے ہیں ۔ یہ بندرگاہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا حصہ ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین کو مشرق وسطیٰ تک محفوظ اور مختصر ترین تجارتی راستہ حاصل ہو جائے گا اور پاکستانی معیشت بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے گی ۔ فی الحال گوادر کی آبادی1 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے لیکن اندازوں کے مطابق 2020ء تک یہ آبادی بڑھ کر 5 لاکھ تک پہنچ جائے گی ۔ واضح رہے کہ گوادر میں معاشی سرگرمیوں سے پہلے مقامی آبادی کا انحصار زیادہ تر ماہی گیری پر تھا اور حکومت کے ان بڑے منصوبوں سے انہیں ابھی تک براہ راست کم ہی فائدہ پہنچا ہے ۔ اس شہر کے زیادہ تر لوگ پانی ان ٹینکروں سے خریدتے ہیں ، جو 2 گھنٹے کی مسافت پر واقع میرانی ڈیم سے بھر کر لائے جاتے ہیں ۔ صوبے میں منصوبہ بندی اور ترقیاتی امور کے شعبے کے سیکرٹری محمد علی کاکڑ کے مطابق گوادر سٹی کو روزانہ ساڑھے 6 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن ٹینکر صرف 2 ملین گیلن پانی ہی فراہم کر پاتے ہیں ۔ پانی کی شدید قلت پر قابو پانے کیلئے چینی ماہرین کی مدد سے اس علاقے میں سمندری پانی صاف کرنے کے 2 پلانٹ تعمیر کیے گئے ہیں ۔ چھوٹا پلانٹ روزانہ 2 لاکھ گیلن پینے کا صاف پانی فراہم کر سکتا ہے جبکہ حال ہی میں تکمیل پانے والا دوسرا پلانٹ ڈیوٹی فری زون میں تعمیر کیا گیا ہے اور یہ روزانہ تقریبا 4 لاکھ گیلن صاف پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ساجد بلوچ کے مطابق ان دونوں پلانٹس کا انحصار جنریٹرز سے حاصل کردہ بجلی پر ہے اور انہیں چلانے کیلئے گوادر میں بجلی بھی ناکافی ہے ۔ کچھ ماہی گیروں کے مطابق اب وہ پانی بندرگاہ سے خریدتے ہیں اور 3 لیٹر پانی کے لیے قریب 50 روپے ادا کرتے ہیں ۔ بندرگاہ کی آپریشنز اتھارٹی کے ڈائریکٹر گل محمد کے مطابق ، ’’ہم ڈیوٹی فری زون میں بھی بڑے پلانٹ سے98 پیسے فی گیلن پانی فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن اس کیلئے بلوچستان حکومت کو ہمارے ساتھ معاہدہ کرنا ہوگا۔‘‘ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عبدالرحیم کے مطابق صوبائی حکومت کی طرف سے معاہدہ نہ کرنے کہ وجہ بارش کی امید ہے ۔ صوبائی حکام کے مطابق بارش ہونے سے آنکارا کور ڈیم دوبارہ بھر جائے گا ۔ دوسری جانب پاکستانی فوج بھی متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ کی مدد سے اس علاقے میں پانی صاف کرنے کا ایک پلانٹ تعمیر کر رہی ہے ، جو اس علاقے کو روزانہ 44 لاکھ گیلن پانی فراہم کر سکے گا ۔ پاکستانی فوج کے مطابق علاقے میں بہتر سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی سے مقامی سطح پر حمایت حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اس مقصد کیلئے یہاں کے مقامی اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹر بھی تعینات کیے ہیں ۔