• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ گزشتہ چار دہائیوںسے پورے افغانستان نے ہی موت اور تباہی دیکھی ، لیکن قندوز میں ہونے والے حملے انتہائی تباہ کن تھے ۔ اس طویل جنگ کے دوران قندوز زیادہ تر فضائی حملوں کا نشانہ بنا ہے ۔ اکتوبر 2015 ء میں امریکی فوج نے قندوز میں ’’ڈاکٹرز ودآئوٹ بارڈرز ‘‘ کے ایک شفاخانے پر حملہ کیا۔ اس حملے میں ڈاکٹروں اور مریضوں سمیت بیالیس افراد مارےگئے ۔ ’’ڈاکٹر زودآئوٹ بارڈرز ‘‘ نے اسے ایک جنگی جرم قرار دیا لیکن امریکی فوج نے اپنی داخلی انکوائری میں نتیجہ نکالا کہ یہ جنگی جرم نہیں تھا کیونکہ حملہ بلاارادہ اور اتفاقی تھا۔ اس سے پہلے قندوز میں تعینات جرمن دستوں نے فضائی حملے کا پیغام بھیجا۔ امریکی فضائیہ کے اُس حملے میں بھی درجنوں شہری ہلاکتیں ہوئیں ۔ ایک آئل ٹینکر سے بہنے والا تیل اکٹھا کرنے والے افراد پر بے رحمانہ طریقے سے بمباری کی گئی ۔ حالیہ برسوں میں طالبان جنگجوئوںنے قندوز شہرپر دومرتبہ قبضہ کیا۔ شہر پر قبضہ کرنے ، اور قبضہ چھڑانے کے لئے ہونے والی جنگ میں شہریوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ۔
دواپریل کو ہونے والے تازہ ترین حملے کا نشانہ شمالی قندوز میں تاجکستان کی سرحد سے قریب دشت ِ آرچی میں واقع ایک دینی مدرسہ تھا۔ دافتیانو گائوں کے دارلعلوم ہاشمیہ پر اُس وقت بمباری کی گئی جب قرآن مجید حفظ کرنے والے حفاظ کی دستار بندی کی جارہی تھی ۔ سوشل میڈیا پر نمودار ہونے والی تصاویر میں سفید لباس اور سفید پگڑیوں میں ملبوس نوجوان لڑکے اپنی اسناد ہاتھوں میں تھامے کھڑے تھے ۔ یہ اُن کی زندگی کا ایک خوشگوار دن تھا۔ اُنھوںنے اُس موقع کے لئے دستیاب بہترین کپڑے زیب تن کیے تھے ۔ لیکن اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اُن پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے ۔ حملے کی خبر ملتے ہی پورے قندوز اور دیگر مقامات پرصف ماتم بچھ گئی ۔
مدرسوں میں ایسی تقریبات ایک اہم موقع ہوتی ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ دستار بندی کی رسم کا جشن مناتے ہیں کیونکہ وہ طلبہ مذہبی تعلیم کا ایک اہم سنگ ِ میل عبور کرچکے ہوتے ہیں۔ طلبہ کے اہل ِ خانہ ، رشتے دار اور دیہات کے دیگر افرادبھی اس رسم میں شریک ہوتے ہیں۔ اس موقع پر مشہور علمااور علاقے کے عمائدین کو بھی مدعوکیا جاتا ہے ۔ لیکن بہت سے لوگ، خاص طور پر بچے بن بلائے بھی آجاتے ہیں کیونکہ اس موقع پر گوشت اور چاول پکائے جاتے ہیںجن سے حاضرین کی تواضع کی جاتی ہے ۔
اس خوفناک حملے کے چشم دید گواہو ں کے مطابق اُس وقت مدرسے میں ایک ہزار کے قریب افراد موجود تھے جب گن شپ ہیلی کاپٹروں نے اُن پر فائرنگ شروع کردی۔ بچے خوف سے چیخ رہے تھے کہ ہیلی کاپٹرز بم بھی گرا سکتے ہیں، لیکن اُن کے بڑوں نے اُنہیں شور مچانے سے منع کیا۔ جلد ہی بچوں کا خوف درست ثابت ہوا۔ ہیلی کاپٹروں نے راکٹ فائر کرنا شروع کردئیے ۔ وہ اسے کوئی فوجی ہدف سمجھ رہے تھے ۔ اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ حملہ افغان ایئرفورس نے کیا تھا۔ اس فورس کو امریکہ نے تربیت دی ہے اور مسلح کیا ہے ۔ امریکی اور نیٹو فورسز نے اس حملے میں ملوث ہونیکی تردید کی۔ تاہم یہ بھی غلط نہیں کہ اُن کے کمانڈر افغان پائلٹوں کو حملے سے روک سکتے تھے کیونکہ افغان فضائیں امریکی فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔
افغان ایئرفورس نے اپنے زمینی دستوں کی کمک کے لئے فضائی حملوں میں اضافہ کررکھا ہے ۔زمینی دستوں پر طالبان جنگجوئوں کا شدید دبائو ہے ۔ درحقیقت امریکی اور افغان فورسز زیادہ ترجنگی کارروائی فضائی حملوںکی صورت میں ہی کرتی ہیں۔ یہ حملے طالبان کے خلاف بہت موثر ہیں کیونکہ اُن کے پاس طیارہ شکن میزائل اور اینٹی ایئرکرافٹ گنز نہیں ہیں۔ افغان اور امریکی فورسز جنگی نتائج کو اپنے حق میں کرنے کے لئے فضائیہ کو بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے اُن کا جانی نقصان بھی نہیں ہوتا اور جنگی اخراجات بھی زیادہ نہیں اٹھتے ۔ یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اگست 2017 ء میں بیان کردہ جنگی حکمت عملی کے مطابق ہے ۔ وہ میدان جنگ کا جمود توڑنے اور کم امریکی جانیں گنوانے کی پالیسی رکھتے ہیں۔
اگرچہ صدر اشرف غنی نے قندوز واقعے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم کیا ہے لیکن اُن کی حکومت پہلے ہی ایک موقف اختیار کرچکی ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز نے طالبان جنگجوئوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی جو اس وہاں دہشت گردی کے منصوبے کو حتمی شکل دے رہے تھے ۔ صدر کے دفتر کی طرف جاری ہونے والے بیان میں افغان سویلین کی ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا ۔ لیکن بے گناہ شہریوں اور بچوں کی ہلاکت کی ذمہ داری نہیں اٹھائی گئی ۔ اس سے پہلے افغان وزارت ِدفاع نے بھی یہی موقف اختیار کیا تھا کہ حملے کا ہدف دراصل طالبان کا ایک تربیتی مرکز تھا۔ کہا گیا کہ اس حملے میں کوئی شہری ہلاکت نہیں ہوئی ۔ افغان وزارت ِ دفاع نے کچھ کمانڈروں سمیت بیس طالبان جنگجوئوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ اس نے مخصوص الفاظ ، جیسا کہ طالبان کا ’’ریڈ یونٹ‘‘ اور کوئٹہ اور پشاور شوریٰ کا استعمال کرتے ہوئے حملے کی ساکھ بنانے کی کوشش کی ۔ افغان حکام نے یہ تاثر دیا کہ ہوائی حملے کے وقت پاکستان میں اپنی موجودگی رکھنے والے اہم طالبان کمانڈ ر اور جنگجو بھی قندوز کے مدرسے میں موجود تھے ۔ اس کے بعد افغان وزارت ِ دفاع نے مدرسے میں موجود اور ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوئوں کی فہرست بھی جاری کی ۔ چنانچہ افغان سرکاری افسران پر مشتمل کسی کمیشن کی طرف شفاف اور قابل ِ اعتماد تحقیقات خارج ازامکان ہیں، خاص طور پر جب اُس کمیشن کی سربراہی ایک انٹیلی جنس افسر، خدائی داد ہزارہ کررہے ہوں۔
اس خوفناک حملے کے بعد افغان حکومت کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی جب قندوز کے گورنر نے پانچ شہری ہلاکتوں اور پچپن افراد کے زخمی ہونے کا اعلان کیا ۔ اس طرح قندوز کے گورنر نے افغان وزارت ِ دفاع کے دعوے کی تردید کردی ۔ افغان وزارت ِ دفاع کا دعویٰ تھا کہ اس حملے میں کوئی شہری ہلاکت نہیںہوئی ۔ گورنر کے ترجمان کی طرف حملے کے فوراً بعد بیان دیا گیا تھا۔ جلد ہی ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ یہ ایک سو پچاس، اور پھر دوسو تک پہنچ گئی ۔ ہلاکتوںکی درست تعداد دستیاب نہیں ، اور ظاہر ہے کہ افغان حکومت اس علاقے میں طاقتور موجودگی نہیں رکھتی۔ اس پر طالبان کا کنٹرول ہے ۔ اس نے ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوئوں کی تعداد ستر، اور بعد میں ایک سو بیان کی۔ طالبان ترجمان نے ایک سوپچاس شہری ہلاکتوں کا دعویٰ کیا ہے ۔ ان دعوئوں کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کس کی بات سنتے ہیں۔
تاہم مقامی افراد کی طرف سے بیان کردہ تفصیل زیادہ قابل ِ اعتماد ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ کچھ طالبان جنگجو وہاں ضرور موجود تھے ، لیکن وہ ایک شہری اجتماع تھا۔ اس میں بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ بہت سے حلقوںنے حکومتی دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے شفا ف اور قابل ِ اعتماد تحقیقات کا مطالبہ کیا۔کچھ عینی شاہدین نے حکومت کے ان دعوئوں کی بھی تردید کی کہ ہیلی کاپٹروں کے حملے کے بعد طالبان جنگجوئوں نے بھی شہریوں پر فائرنگ کی ۔ اگر اُس اجتماع میں کچھ طالبان موجود تھے تو بھی اس پر بمباری کا کوئی جواز نہ تھا کیونکہ اُس میں بہت بڑی تعداد میں عام شہری اور بچے موجود تھے ۔ اقوام ِ متحدہ نے اس واقعے کی انکوائری شروع کردی ہے ۔ لیکن اگر ماضی سے رہنمائی لی جائے تو لگتا ہے کہ اس سے مظلوم اور متاثرہ افراد کو انصاف نہیں مل پائے گا۔ سوشل میڈیاقندوز حملے کے جذباتی ردعمل سے سلگ رہا تھا۔ بعض حلقے انتقام کی آواز بلند کررہے تھے ۔ موسم ِ گرما کی لڑائی کے سیزن کا آغاز ہوچکا ہے۔
یہاں قیام امن کے عمل کا کوئی شائبہ تک موجود نہیں۔ قندوز سانحے سے دراز ہوتے ہوئے ظلم اور بربریت کے سائے انتقامی کارروائیوں کو مہمیز دیں گے۔ دنیا کے اس حصے میں امن کے امکانات پہلے ہی بہت معدوم ہیں۔ اب تو متحارب قوتوں کے درمیان مذاکرات شروع کرانا بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین