• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک معتبر اور محترم مادر علمی جامعہ سندھ کی جانب سے 17 اپریل 2018ء کو جاری ہونے والے ایک حکم نامہ میں کہا گیا کہ جامعہ میں سائن بورڈز ، عمارتوں کے نام، نوٹسز دو زبانوں انگریزی اور سندھی میں تحریر کیے جائیں گے۔ جامعہ سندھ کے اس حکم نامہ کو بعض لوگوں نے پاکستان کی قومی زبان اردو کے خلاف سازش قرار دے ڈالا۔ کچھ لوگوں نے اردو زبان کی اہمیت کے حوالے سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات دہرائے۔ یاد رہے کہ 1946ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں قائد اعظم نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ قائد اعظم کے ان ارشادات کا مطالعہ کرتے وقت 30اور 40 کے عشروں میں برصغیر کے حالات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
برٹش دور حکومت میں ہندوستان کی سرکاری زبان انگلش تھی۔ قائد اعظم پاکستان کے لئے انگلش کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنانا چاہتے تھے۔ 1947ء سے پہلے بنگالی مسلمانوں سمیت مسلم لیگ کی پوری قیادت اس معاملے پر متفق تھی۔ 1948ء میں مشرقی پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے بنگالی زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کے مطالبات سامنے آنے پر قائد اعظم نے ڈھاکہ جاکر ایک بار پھر یہ واضح کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی البتہ صوبائی سطح پر عوام کی منشا کے مطابق زبان منتخب کی جاسکتی ہے۔ تاہم 1956ء کے آئین میں اردوکے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔ یہ دستور جنرل ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لاکے ذریعے منسوخ کردیا تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک عبوری آئین نافذ کیا تھا۔ اس کے ذریعے ملنے والے اختیار کے تحت پنجاب، صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) اور بلوچستان نے اردو کو صوبائی سطح پر سرکاری زبان قرار دیا۔ 3، جولائی 1972ء کووزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو کی جانب سے بل بعنوان سندھی زبان کی تدریس، فروغ اور استعمال (Teaching, Promotion and Use of Sindhi Language Act 1972) پیش کیا گیا۔ 62کے ایوان میں یہ بل 50 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ ان ہی دنوں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی نے تاریخی شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔ اس دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کو مرکز اور صوبہ سندھ میں بہت سخت اپوزیشن کا سامنا تھا۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے اس بل پر سخت احتجاج شروع کردیا۔ سندھ میں آباد اردو بولنے والوں میں اس بل کے خلاف جذبات ابھارے گئے۔ اس بل کو اردو زبان کے خلاف سازش سمجھا گیا۔ کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں پر تشدد مظاہر ے ہوئے۔ اس دوران بڑی تعداد میں معصوم شہری جاں بحق بھی ہوئے۔ شملہ سے واپسی پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے سندھ کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے میں طے ہوا کہ سندھی اور اردو سندھ کی سرکاری زبانیں ہوں گی۔
1973ء کے آئین میں بھی پیپلز پارٹی نے قائد اعظم کے فرمان کے مطابق یہ شق شامل کروائی کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اور اردو کے نفاذ کے لئے پندرہ سال کے اندر اندر مرحلہ وار کوششیں کی جائیں گی۔ پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو اور آئین پاکستان کے اہم مصنف عبدالحفیظ پیرزادہ کی جانب سے اردو زبان کی اتنی بڑی خدمت کو بڑے پیمانے پر کبھی نہیں سراہا گیا۔
سندھ میں سندھی اور اردو زبان کے لئے کی جانے والی اس قانون سازی کو سینتالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس قانون سے عملاً نہ تو سندھی زبان کے فروغ میں کوئی مدد ملی، نہ ہی اس سے اردو کی کوئی خاص خدمت ہوسکی۔ البتہ سندھ کے صرف شہری علاقوں میں ہی نہیں بلکہ دیہی علاقوں تک میں انگلش میڈیم اسکولوں کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔اس طالب علم کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ جامعہ سندھ کے اس حکم نامہ سے سندھ سمیت پاکستان کے ہر حصے میں سمجھی اور بولی جانے والی اردو زبان کو کیا خطرہ ہوگا؟ یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس طرح کے نوٹی فکیشن برصغیر کی قدیم ترین، نہایت باثروت اور شیریں زبان سندھی کے فروغ میں کتنے معاون ہوں گے؟
14اگست 1947ء کے بعد بھارت سے ہجرت کرکے سندھ دھرتی پر آباد ہونے والے مسلمانوں کی اکثریت کی مادری زبان اردو ہے۔ سندھ میں آنے والے مہاجرین سب سے زیادہ کراچی میں آباد ہوئے، ایک بڑی تعداد حیدرآباد، میرپور خاص، سکھر اور بعض دوسرے شہروں میں بھی آباد ہوئی۔ مہاجرین کا سندھی عوام و خواص کی جانب سے بہت خوش دلی کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا۔ اندرون سندھ آباد ہونے والے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اور ان کے بچوں نے سندھی زبان سیکھ لی۔ مہاجرین کے ساتھ سماجی اور کاروباری رابطوں میں رہنے والے سندھی بھی خوش دلی کے ساتھ اردو بولنے لگے۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ ان مہاجرین کا کراچی میں آباد بلوچ اور سندھی عوام کے ساتھ زیادہ انٹریکشن نہ ہوپایا۔ کراچی میں بسنے والی اردو اسپیکنگ کمیونٹی کو سندھی زبان سیکھنے کے لئے ماحول یا مواقع میسر نہ آئے۔ کراچی میں رہنے والوں کی اکثریت کا سندھی زبان نہ سیکھ پانے کا سبب سندھی زبان کو اہمیت نہ دینا نہیں ہے بلکہ اس کے اسباب زیادہ تر سماجی اور معاشی ہیں۔
سندھی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ برصغیر کی زبانوں میں قرآن پاک کا سب سے پہلا ترجمہ سندھی زبان میں 270ھ میں ہوا۔ عظیم صوفی شاعر رومیٔ مہران حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی (وصال 1752ء) کا وجدانی و الہامی کلام سندھی زبان میں ہے۔ شاہ بھٹائی کے کلام کے ذریعے سندھی زبان کی ثروت اور فصاحت میں پر شکوہ اضافے ہوئے۔
سندھی زبان صدیوں سے ترقی کرتی ہوئی زرخیز زبان ہے۔ سندھی زبان میں اخبار و رسائل کی اشاعت کا آغاز 1858ء سے ہوگیا تھا۔ فوائد الاخبار اور مطلع خورشید اولین اخبارات تھے۔ یہ اخبارات دو زبانوں فارسی اور سندھی میں شائع کیے جاتے تھے۔ 1866ء میں پہلے مکمل سندھی اخبار سندھ سُدھار کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ بعد میں معین الاسلام، سرسوتی، آفتابِ سندھ، پترا، خیر خواہ، مسافر ، الحق بھی شایع ہونے لگے۔ 1900ء کے بعد الہلال اور سندھ واسی شایع ہوئے، سندھی زبان میں پہلا تجارتی اخبار واپار سماچار 1910ء میں شکار پور سے جاری ہوا۔ بعد میں نامور عالم دین، مؤرخ اور صحافی دین محمد وفائی کا جاری کردہ الوحید سندھی صحافت کے افق پر جگمگاتا رہا۔ قیام پاکستان سے پہلے سندھی ادبی جریدے مہران اور سندھی روزنامہ ہلال ِ پاکستان کا اجراہو چکا تھا۔
آج اردو زبان کے علاوہ پاکستان کی قومی زبانوں میں سندھی وہ زبان ہے، جس میں سب سے زیادہ کتابیں، اخبارات اور میگزین شائع ہورہے ہیں۔ سندھی ادب کا فروغ اور سندھی صحافت کی ترقی سندھ میں بسنے والے سب لوگوں کے لئے خوشی اور فخر کا باعث ہونا چاہیے۔ اردو اور سندھی زبانوں میں باہم کوئی محاذ آرائی نہیںہے۔ بلکہ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ سندھ میں اردو اور سندھی دونوں زبانوں کو تعلیمی نصاب اور اسکولوں و کالجوں میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے فروغ اور صدیوں میں وجود میں آنے والے فہم و فراست کے خزانوں اور علمی ذخیروں کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ پاکستان میں بولی جانے والی بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ اس ضمن میں والدین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو اس کی مادری زبان میں صرف بولنا ہی نہیں بلکہ پڑھنا اور لکھنا سکھانے کا اہتمام اور انتظام بھی کرتے رہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین