تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ (بیسویں قسط) مزید یہ کہ اس جگہ کو سلطان ایوبی کے دور میں وقف کیا گیاتھا ۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر آپ مینار پر چڑھیں توبہت دور تک کا نظارہ کرسکیں گے ۔یہاں سے نہر اردن کا مشرقی کنارہ بھی نظر آتاہے ۔اور جبل نیبو بھی دیکھ سکتے ہیں ، جس کا کتاب مقدس کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تعلق تھا۔ صحن میں دس کمرے اور اصطبل ، پرانے تندور اور کنویںہیں۔ اس کے گرد قبرستان ہے جہاں دفن ہونے کیلئے کئی لوگ وصیت کرجایاکرتے تھے کہ نبی موسیٰ علیہ السلام کا تقرب حاصل ہو گا۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ ان سالانہ اجتماعات اور میلوں ٹھیلوں کی حیثیت بھی تبدیل ہوگئی اس لیے اب یہ مقام موسیٰ پر بہت کم لوگ آتے ہیں اسی لیے کہا گیاکہ اب مقام موسیٰ کو زائرین کی قلت کا سامنا رہتاہے ۔’’ مقام النبی موسی یشکو قلۃ الزائرین۔مسجد کے چاروں کونوں کی زیارت کے بعد ہم دروازے کے باہر پانی کے قدیمی حوض کو دیکھنے میں محو تھے کہ ایک دھماکے کی آواز نے سبھی کو چونکا دیا۔جب حواس بحال ہوئے تو دیکھا ایک خوبصورت بلی کہیں سے جمپ لگاکر ہمیں خوش آمدید کہنے آن واروہوئی تھی سبھی اس کی اچانک تشریف آوری کے کھڑاک سے بیدارہوگئے ۔ہمارے پاس کوئی ایسی چیزنہ تھی جو اس کی ضیافت کیلئے پیش کی جاتی۔ اس کے باوجود اس بیچاری نے دروازے تک ہمارا ساتھ دیا۔ وہاں چند دوکانیں تھیں، الگ الگ ۔میں نے اہلیہ سے کہاان سے کچھ خریداری کرلو ۔پتہ نہیں یہ غریب کیسے گزاراکرتے ہوں گے ۔ایک دوکان سے کچھ گھریلو قسم کی شاپنگ کی ۔ اور اس خیال سے کہ دوسری دوکان سے بھی کچھ خریداری کرلیں تاکہ اس دوکاندار کو بھی کوئی فائدہ ہوسکے۔ جب چند چیزوں کاانتخاب ہوچکا تو دوکاندار کا انتظارکیاجانے لگا ۔تھوڑی دیر بعد وہی صاحب تشریف لائے جو باہر ٹی ہاؤس چلا رہے تھے۔ پوچھا یہ بھی آپ ہی کی ہے؟ جواب اثبات میں تھا۔ اب تیسری شاپ سے خریداری کی بجائے پوچھاگیاکہ وہ بھی آپ ہی کی ملکیت ہے؟ جواب اثبات میں پاکر وہیں سے تعاون کاارادہ پوار کرلیا ۔باہر نکلے تو انہی کے ٹی ہاؤس سے چائے تیارکرنے کی فرمائش کی ۔ چائے بہت مزیدارتھی ۔ ہم نے مزید پانی طلب کیا۔ جو ایک سادہ سے کٹورے میں دیاگیا ۔ کچھ مزید باتیں ان سے پوچھیں ۔ بہرحال ہم نے تھوڑے سے وقت میں یہاں کافی کچھ دیکھا۔ میں سوچ رہاتھا کہ ہندو پاک میں بھی بزرگوں کی طرف منسوب فرضی حجرے ، جھوٹے افسانے اورآستانے اور مزاروں پہ سجدے ، منتیں اور دہائیاں ، جن کی رونق کبھی مانند نہیں پڑتی ، مجاوروں کا بزنس ہر آن بڑھتا رہتا ہے ۔ہماری قوم کی جہالت وضلالت آخری درجے پہ چڑھی ہوئی ہے ، بقول علامہ اقبال ’’ہونکونام تم قبروں کی تجارت کرکے … کیانہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ‘‘ جبکہ یہ علاقہ بنی اسرائیل کے جلیل القدر نبی سیدنا موسی علیہ السلام کی طرف منسوب ہے، اور اس کی رونق وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج مانند پڑچکی ہے ۔ یہاں نہ کوئی روایتی مزار ہے ، نہ چادر یں چڑھتی ہیں ،نہ منتیں مانگی جاتی ہیں اورنہ اللہ و رسول کی شریعت کے ساتھ استہزاء اور کٹ حجتیاں کرنے اور شرک خالص پرمبنی قوالیاں ہوتی ہیں۔ بس سادہ سی عمارت اور درمیان میںمسجد ہے۔کیونکہ حدیث میں صاف بتایاگیاکہ قبر موسیٰ کاعلم کسی کونہیں ہے ،اس لیے فرضی مزارموسٰی کاافسانہ اپنی کشش کھوچکا ہے ۔ اب ’’برمزار ما غریباں نے چراغے نے گلے والی بات ہے ۔حالانکہ اس زمین کوقرآن کریم نے ارض مقدسہ قرار دیاہے اوربارکنا حولہ فرمایاہے ۔ اس کے ایک ایک چپے پر ہزاروں انبیاء کرام کے نقوش قدم موجود ہیں ، ان فضاؤں نے انبیاء جیسی جلیل القدر ہستیوں کی قدم بوسی کی ہے ، ان کی نبوت سے یہ فضائیں عرصہ دراز تک منور رہی ہیں ، بے شمار آسمانی صحیفے یہاں نازل ہوئے ہیں ، جبرئیل علیہ السلام وحی الٰہی لے کر اترا کرتے تھے ، ببرکات و سعادتوں سے پُر علاقہ جہاں ان گنت نفوس قدسیہ محو استراحت ہیں ۔ یہاں کی زمین کو حق ہے کہ وہ باقی زمین پر فخر کرے ،لیکن سادگی مگرپرکاری بدرجہ اتم موجود ہے۔ بت پرستی اور قبر پرستی کی قباحتوں اور نحوستوں سے بالکل پاک ۔ہمیں تو یہ محسوس کرکے ہی بڑی مسرت ہورہی تھی کہ پچھلے سات آٹھ سو سال سے بنی ہوئی ایک زیارت گاہ جہاں جرنیل اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی ، سلطان بیبرس ، علامہ جلال الدین سیوطی علامہ نجم الدین ، علامہ مجیر الدین حنبلی اور نہ جانے کتنے جلیل القدر لوگ آتے رہے ہمیں انہی فضاؤں میں سانس لینے کی سعادت نصیب ہوئی جہاں بے شمار خداپرست مجاہدین نے تگ و تاز کی ہے ۔مقام موسی ٰ سے باہر نکلیں تودائیں جانب ایک طرف وسیع وعریض قبرستان دکھائی پڑتا ہے ۔جس کے مدفونین کے بارے مختلف روایات ہمیں بتائی گئیں، کچھ قدیمی دور کے مدفونین جن میں بعض انبیاء بھی ہوں گے ، یہاں سے گزرنے والے لاکھوں اتقیاء بھی ہوں گے ۔ شب زندہ دار صالحین بھی ہوں گے ۔ نہ جانے زمانے نے کتنے رنگ بدلے اور فضائیں کتنی بار مہکی ہوں گی ، انسان کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرانے کیلئے کتنے مجاہدین کی یہاں آخری آرام گاہیں بنی ہوں گی ۔خادم کی وضاحت سے صرف اتنی سمجھ آئی کہ یہاں آزادی فلسطین کے مجاہدین بھی آرام فرما ہیں۔ چونکہ یہ مقام موسیٰ کسی زمانے میں موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے طور پر مشہور ہوگیاتھااس لیے کئی لوگ قرب موسیٰ کے خیال سے اس قبرستان میں دفن ہونے کی وصیت بھی کرجایاکرتے تھے۔وقت بالکل نہیں تھا ورنہ ہم اس قبرستان میں بھی جاتے اوروہاںحاضر ہوکر مدفونین کیلئے دعائے مغفرت کرتے ۔ لہذا ان کیلئے غائبانہ ہی دعا کرنا تھی سو کی ۔ اللھم اغفرلھم وارحمھم واعفھم واعف عنھم واکرم نزلھم ونقھم من الخطایا کما ینقص الثوب الابیض من الدنس ۔اللھم اغفر للمسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات واکرم نزلھم و وسع مدخلھم وادخلھم الجنۃ الفردوس۔ فتوفنا مسلمین والحقنا بالصالحین آمین۔