اسلام آباد (انصار عباسی) واشنگٹن میں یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں پیر کے روز خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوں پی آئی اے کے ہلاک ہونے والے ملازمین کا ذمہ دار دو ٹوک الفاظ میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو قرار دیا۔ ایجنسیوں کا نام بتائے بغیر، پیپلز پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’’کچھ دن قبل، ہماری ایئرلائن یونین کے لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں اور سرکاری منصوبوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ان افراد کو دن دہاڑے ہماری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے مار ڈالا۔‘‘ سندھ حکومت، وفاق یا پھر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا کہ پی آئی اے کے ملازمین کو حالیہ احتجاج کے دوران کس نے مارا۔ پی آئی اے یونین رہنمائوں نے ابتدائی طور پر الزام عائد کیا کہ رینجرز نے فائر کھولا، جس کی رینجرز کے ترجمان نے تردید کی۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے بیان میں وعدہ کیا کہ اس واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے گی۔ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے بھی معاملے کی تحقیقات کا وعدہ کیا۔ پی آئی اے یونین نے اپنی ایف آئی آر میں چند وفاقی وزیروں اور دیگر کا نام لیا لیکن رینجرز یا پھر کسی اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسی پر الزام عائد نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو نے اپنے حالیہ دورۂ امریکا کے موقع پر قانون نافذ کرنے والوں کو ذمہ دار قرار دیا۔ بظاہر ان کا اشارہ کراچی رینجرز کی جانب تھا جس سے گزشتہ کئی مہینوں سے پیپلز پارٹی کو تکلیف ہو رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ ’’انسداد دہشت گردی پر مامور فورسز کا کوئی تعلق نہیں کہ وہ جائز جمہوری انداز سے مخالفت یا احتجاج کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرے۔‘’ اسی خطاب میں انہوں نے رینجرز کی زیر قیادت جاری کراچی آپریشن کے کچھ پہلوئوں پر پیپلز پارٹی کے معلوم تحفظات کا بھی اشارہ دیا اور کہا کہ ’’مذہبی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کیلئے جو اتفاق رائے ہوا تھا، ہم اسے نقصان پہنچائے جانے کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کو اس کام کیلئے وفاقی حکومت کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں انہیں مینڈیٹ سے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ’’ہم انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کو متنازع یا پھر سیاست زدہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو پائیدار بنا سکتے ہیں جب تک کہ انتہا پسندی کا مقابلہ نہ کیا جائے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ان سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنا رہی ہے جن کے پاس دہشت گردی یااور انتہا پسندی کے خلاف زبردست پالیسیاں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سیکولر جماعت ایم کیو ایم کے لیڈر کے خطاب پر پابندی عائد کرنا، اے این پی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے خلاف مقدمات قائم کرنا، اس کام کیلئے خصوصی طور پر انسداد دہشت گردی کے قوانین استعمال کرنا۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جو نہ صرف غلط ہیں بلکہ خطرناک بھی ہیں اور ان سے حکومت کے جواز کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ بند ہونا چاہئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے جو اختیارات حکومت کو دیئے گئے ہیں انہیں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ بلاول نے پی آئی اے ملازمین کی حالیہ ہلاکتوں کا حوال دیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو دن دہاڑے اس قتل کا قصور وار قرار دیا۔ لیکن اسی خطاب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ کراچی آپریشن نے نتائج دیئے ہیں اور جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیاری کی بستیاں زیادہ پرامن ہو چکی ہیں اور جرائم پیشہ گینگز کے نیٹ ورک ختم ہو چکے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ بے ایمانی ہوگی کہ انتہاپسندی یا دہشت گردی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔