لاہور (نمائندہ جنگ، نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور رجسٹری میں مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عہدوں کی بندر بانٹ برداشت نہیں، شعبہ صحت کو ٹھیک کرنا ہے، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کیلئے مختص 20؍ ارب روپے کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ مختص رقم کا فارانزک آڈٹ ہو تو پتہ چلے 20 ارب میں سے 7 ارب روپے بھی ادارے پر نہیں لگے ، خواجہ سلمان رفیق صاحب! یہ کیا ہو رہا ہے، شیخ زید اسپتال جب سے پنجاب حکومت کے زیر انتظام آیا اسکی حالت ٹھیک نہیں، چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب طلب کو طلب کر لیا اور شیخ زید لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کی بندش کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے معیار کے مطابق اسکی بحالی کیلئے ایک ماہ کی مہلت دیدی، عدالت نے الیکشن ایکٹ سیکشن 202 کیخلا ف درخواست بھی مسترد کر دی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ایوب اسپتال پشاورکے آپریشن تھیٹر میں جتنی گندگی ہے کہیں نہیں دیکھی، ایوب اسپتال میں سہولیات کا فقدان دیکھ کر شرم آرہی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں پر افسروں کے تقرر کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کی پی کے ایل آئی کی جانب سے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر عامر یار خان پیش ہوئے اور فل بنچ کو بتایا کہ ادارہ تعمیری مراحل میں ہے اور 43 ڈاکٹرز خدمات سرانجام دے رہے ہیں، گل بنچ کے استفسار ڈاکٹر عامر یار خان نے بتایا کہ پی کے ایل آئی کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر بارہ لاکھ روپے تنخواہ وصول کررہے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ 8 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر پی کے ایل آئی میں ملازمت کررہی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری اسپتالوں میں کسی ماہر ڈاکٹر کو اتنی تنخواہ دی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا کہ باہر سے آنے والے ڈاکٹرز اور مقامی ڈاکٹرز میں یہ امتیازی سلوک کیوں ہے۔ پی کے ایل آئی کے ڈاکٹر عامر یار نے بتایا کہ ادارے میں تعینات ڈاکٹرز کے پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی عائد ہے جسکی وجہ سے کسی بھی مقامی ڈاکٹر نے ملازمت کیلئے رجوع ہی نہیں کیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے چیف سیکرٹری پنجاب کو باور کرایا کہ اگر پاکستان میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا ہے تو بتا دیں۔